وجود

... loading ...

وجود
وجود

جہالت کاصحرا

بدھ 26 مئی 2021 جہالت کاصحرا

ہلاکوخان نے جب بغدادکی اینٹ سے اینٹ بجادی تو ہرطرف تباہی وبربادی کے آثارتھے اس عالم میں تاتاریوںنے وحشت کے مارے اتنی کتابیں سمندرمیں پھینک دیں کہ سمندرکا پانی رک گیا تاریخ شاہدہے جب مسلمانوںکو کتابوںسے محبت تھی وہ دنیاپر حکمرانی کرتے تھے جب سے کتابوںسے رشتہ ٹوٹاہے ہم ٹوٹ بکھرگئے ہیں حالانکہ مسلمانوںکو کتابوںسے محبت فطری ہے اللہ کی آخری الہامی کتاب قرآن مجیدکوپڑھنابھی ثواب ہے اور اس پرعمل کرنا دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کاایک وسیلہ بھی ہے۔ بہت سی شخصیات آج بھی موجودہیں جن کے لوںلوںمیں کتابوںکی محبت رچی ہوئی ہے اس حوالہ سے مادری زبان کی اپنی ہی چاشنی ہے:، برصغیرمیںپنجابی اور پنجابی کلچر دل موہ لیتاہے پنجابی ہزاروں اولیاء کرام کی زبان ہے جو دلوں کو جوڑنے اور لوگوں کو ایک ساتھ بٹھانے کا ہنر بھی جانتے ہیں، انہیں خود غرضی، مفادات اور اناں کے اس زمانے میں محبتیں بانٹنا اور محبتیں لٹانا بھی آتا ہے یہ ایک حقیقت ہے ‘‘ہمارے معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا رجحان خوفناک حد تک کم ہوتا چلا جا رہا ہے’’ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے ‘‘جن قوموں نے کتابوں کا دامن تھامے رکھا اور تھامے ہوئی ہیں وہ ہمیشہ تاریخ کے دھارے میں دوسروں سے آگے رہیں اور جہاں کتابوں کو ردی، چھان بورے اور پکوڑوں کے لیے استعمال کیا جانے لگا وہاں جہالت، کم فہمی، کم عقلی، ضلالت اور گمراہیوں نے ڈیرے ڈال لیے’’ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ خود دنیا کی ان قوموں کی فہرست نکال کر دیکھ لیجئے جہاں سب سے زیادہ کتاب پڑھیں اور شائع کی جاتی ہیں آپ کو وہ قومیں اقتصادی، مالی اور اخلاقی لحاظ سے کتابیں نہ پڑھنے والی قوموں سے ہزار گنا آگے دکھائی دیں گی۔
ہمارے یہاں کیا صورتحال ہے آپ اس کا اندازہ صرف اس ایک بات سے لگا لیجئے مجھے چند دن پہلے ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹوریل پیج کے انچارج کہنے لگے ‘‘ملک میں مطالعہ کی صورتحال یہ ہے کہ اخبار میں چھپنے والے کالمز صرف میں اور خود کالم نگار پڑتا ہے’’ اور یہی وہ خوفناک صورتحال ہے جس کا کسی کو ادراک نہیں ہے حالانکہ اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘‘ دقیانوسی لوگوں نے ہمیشہ سیکھنے اور نئی نئی چیزوں کو تسلیم کرنے کے بجائے ان کی مخالفت کی ہے، ہم نے کبھی تصویر، کبھی مائیک، کبھی سوشل میڈیا اور کبھی پرنٹنگ پریس کو برا بھلا کہا اور کبھی ٹیکنالوجی کو شیطانی اور دجالی ہتھکنڈوں سے منسوب کرتے رہے، ہم کیونکہ کتابیں نہیں پڑھتے چنانچہ ہر نئی ایجاد کی جاہلانہ حد تک ڈھٹائی کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں، حکمران تعلیم کی اہمیت سے ناآشنا ہیں، لائبریریاں دم توڑتی جارہی ہیں، ا سکول کالجز، یونیورسٹیاں،سائنسدان، فلاسفر، موجد، اور بڑے بڑے دماغ پیدا کرنے کے بجائے ‘‘نوکر’’ پیدا کررہی ہیں، پورا معاشرہ اپنے دماغوں کی آبیاری کرنے کے بجائے انہیں بدبودار گٹڑوں میں دھکیل رہا ہے، سائنسدانوںکا خیال تھا ‘‘ہمارا دماغ ہر روز 65 ہزار سوالات جنریٹ کرتا ہے اگر دماغ کو ان سوالات کے جواب نہ ملیں تو یہ بری طرح ابلنے لگتا ہے جو بعد میں ڈپریشن، اینگزائٹی، ا سٹریس اور پریشانی کا سبب بنتا ہے، آپ چاہیں تو پورے معاشرے کی صورتحال دیکھ لیں یہ سب کا ماننا تھا ‘‘دنیا میں بڑے دماغ وہ تھے جو کتابوں سے جڑے رہے، انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں بھی آگے وہی ہوگا جو نئی نئی چیزیں سیکھنے اور مطالعہ کرنے کا شوقین ہوگا حالانکہ ہمارے بچپن میں والدین کتابیں پڑھتے بھی تھے اور اپنے بچوں کو نئی نئی کتابیں، رسالے اور ڈائجسٹ خرید کر بھی دیتے تھے اس سے ان کی نا صرف ذہنی نشوونما ہوتی تھی بلکہ ان میں نئی چیزیں سیکھنے کا شوق بھی پیدا ہوتا تھا’’ اسی طرح بعض دوستوں کا خیال تھا ‘‘ہمیں مطالعہ کرنے کی ابتدا قرآن کریم سے کرنی چاہیے اور قرآن مجید کو سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہیے’’ اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کہ ہم جب تک کتابوں سے جڑے رہے تب تک دنیا ہمارے اشاروں پر چلتی رہی لیکن جس دن ہم نے کتابوں کو پیٹھ دکھانا شروع کر دی کشکول اور در در کی ٹھوکرں ہمارا مقدر بن گئیں۔
آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم ادبی بیٹھکوں کااہتمام کریں جس میں اساتذہ کرام کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تاکہ وہ طلبا میں کتب بینی کا شوق پیدا کرسکیں، لائبریریاں آباد کی جائیں، کتاب اور کتاب دوستی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنایا جائے اس میں درس گاہیں، مساجد،درگاہیں اور علما ء کرام بھی اس معاملے میں خصوصی کردار ادا کر سکتے ہیں’’ ہم سب کو تہیہ کرنا ہوگا ‘‘کتب بینی کو فروغ دینے کے لیے ہم اپنی اپنی سطح پر جو کچھ کر سکتے ہیں، جتنا بھی کردار ادا کر سکتے ہیں، ہم کریں گے’’ ہم نے اگر اب بھی اپنی لائبریریاں آباد نہ کیں، اپنی نسلوں میں کتابوں کا شوق پیدا نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب ہم تاریخ میں اپنا آپ ڈھونڈتے پھریں گے مگر کوئی بتانے والا نہیں ہوگا ان حالات میں پاکستان کے وزیر ِ اعظم عمران خان کی ہدایت پرنے 1ارب18کروڑکی لاگت سے پنجاب کے20اضلاع میں جدید ای لائبریریوں کا قیام لایا گیاہے جہاں ہرخاص و عام کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کی گئی ہیں جس سے عام آدمی سے لے کربزرگ شہریوں اور علم و ادب کے شیدائیوں کو60.000نایاب کتب کی فراہمی، wi.fi کی سہولت،700لیپ ٹاپس جبکہ 300 سے زائد ٹیبلٹس بھی مہیا کیے گئے ہیں جدید ای لائبریریوں میں تربیت یافتہ انسرکٹرز، تمام لائبریریاںPITBڈیٹا بیس سے منسلک کردی گئی ہیں جہاں ملکی و بین الاقوامی یونیوسٹیوں کے جدید مقالوں، اخبارات و رسائل اور ای کتب تک رسائی فراہم کردی گئی ہےHECکی علمی اور نایاب کتابیں بھی عام آدمی کی پہنچ میں آگئی ہیں جبکہ1994ء سے اب تلک تمام اخبارات کا ریکارڈبھی دستیاب ہے،ہر ای لائبریری میں40نشستوںپر مشتمل20ملٹی میڈیا آڈیٹوریم قائم کردئیے گئے ہیں جہاں ای روزگار سے متعلق کورسرز اور معلومات کی مفت فراہمی کو یقینی بنادیاگیاہے فی الحال 60.000 رجسٹرڈ ممبران اور 15000 افراد روزانہ کی بنیادپر مستفیدہورہے ہیں یہ اقدامات انتہائی خوش آئندہیں غریب اور ترقی پذیرممالک میں ای لائبریریوں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ نوجوان نسل یونہی جہالت کے صحرامیں بھٹکتی پھرے گی اور وحشتوںکا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر