وجود

... loading ...

وجود
وجود

کورونا کی تباہ کاریاں اور حکومت کی لاچاری

پیر 03 مئی 2021 کورونا کی تباہ کاریاں اور حکومت کی لاچاری

کورونا کے دوسرے دور کی تباہ کاریاں اتنی خوفناک اورڈراونی ہیں کہ انھیں پوری طرح لفظوں میں بیان کرپانا مشکل ہے ۔ملک میں آکسیجن کی زبردست قلت ہے اور لوگ سڑکوں پر جان دے رہے ہیں۔ اموات کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ شمشان گھاٹوں پرلمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور قبرستانوں میں جگہ کی قلت ہے ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ گزشتہ تین دن میں یہاں دہلی کے مختلف شمشان گھاٹوں میںایک ہزار سے زیادہ چتائیں نذر آتش کی گئی ہیں اور یو میہ پچاس سے زیادہ لوگوں کو دفن کیا جارہاہے ۔ ہر طرف موت کا رقص جاری ہے ۔ انسانوں کی بے بسی اور لاچارگی کے مناظر دل کو چیر دینے والے ہیں۔ ملک میں آزادی کے بعد اب تک کی سب سے قابل اورمضبوط سرکار کا کہیں کوئی وجود نظر نہیں آرہا ہے ۔دیش کا مکھیا الیکشن میں مصروف ہے اور اسے قیمتی جانوں کو بچانے سے زیادہ اپنے اقتدار کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو ہے ۔بہرحال ہمیں وزیراعظم نریندر مودی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انھوں نے 23؍اپریل کو مغربی بنگال کی چناوی ریلیاں رد کرکے یہاں دہلی میں کورونا کی جائزہ میٹنگ میں حصہ لیا اور وزرائے اعلیٰ سے گفتگو کی۔ ظاہر ہے یہ اتنی بڑی قربانی کے ملک انھیں اس کا کوئی بدل نہیں دے سکتا۔ مورخ جب بھی ملک کودرپیش سب سے بڑے انسانی بحران کی تاریخ لکھنے بیٹھے گا تو اسے یہ ضرور یاد آئے گا جس وقت ہندوستانی عوام ایک انتہائی خوفناک وبا سے جوجھ رہے تھے اور ہر طرف لاشوں کا سلسلہ تھا تو ملک کی سیاسی قیادت اپنے اقتدارکی طاقت کو مضبوط کرنے میں مشغول تھی۔
ملک کے اندر حالات کس قدر خراب ہوچکے ہیں، اس کا اندازہ دہلی ہائیکورٹ کے ان ریمارکس سے ہوتا ہے ، جو اس نے پچھلے ہفتہ ایک پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے دئیے ہیں۔عدالت عالیہ نے کورونا مریضوں کا علاج کررہے اسپتالوں کو ہر حال میں آکسیجن مہیا کرانے کا حکم دیتے ہوئے تنبیہ کی کہ ’’مرکزی حکومت حالات کی سنگینی پر بیدار کیوں نہیں ہورہی ہے ۔ ہم اس بات سے حیرت زدہ اور مایوس ہیں کہ اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت ہے اور اسٹیل پلانٹ چل رہے ہیں‘‘۔ جسٹس وپن سانگھی اور ریکھا پلی کی بینچ نے یہاں تک کہا کہ ’’آپ بھیک مانگیں، ادھار لیں یا چوری کریں، اسپتالوں کو ہرحال میں آکسیجن مہیا کرائیں،ورنہ ہزاروں لوگ آکسیجن کی کمی میں جان گنوادیں گے ۔آکسیجن کی فراہمی مرکزی حکومت کی جوابدہی ہے‘‘ ۔
دہلی ہی نہیں ملک کے کئی ہائی کورٹوں نے آکسیجن اور کورونا سے لڑنے والی دواؤں کی زبردست کی قلت اور ویکسین کی فراہمی نہ ہونے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔مرکز اس صورتحال سے خاصا پریشان ہے اور اس کو نجات دلانے کے لیے سپریم کورٹ میدان میں آیا ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ موجودہ کورونا بحران پرمختلف ہائی کورٹوں میں داخل کی گئی عرضیوں کو وہ اپنے ہاں منتقل کرنا چاہتا ہے تاکہ سب معاملوں کی ایک ساتھ سماعت ہوسکے ۔ جن چار نکات پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے نیشنل پلان طلب کیا ہے ، ان میں آکسیجن کی سپلائی،ضروری ادویات کی فراہمی، ٹیکہ کاری کا طریقہ اور لاک ڈاؤن لگانے کااختیارشامل ہے ۔ملک میں کورونا کے علاج کی سہولتوں کا کس حد تک فقدان ہے ، اس کا اندازہ مرکزی وزیراور ہندوستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل وی کے سنگھ کے اس ٹوئٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انھوں نے کووڈسے متاثر اپنے بڑے بھائی کے لیے غازی آباد کے کسی اسپتال میںایک بیڈ فراہم کرنے کی عوامی اپیل کی تھی۔ان کا یہ ٹوئٹ ملک کی سب سے بڑے صوبے میں صحت کے ناقص ڈھانچے کی صحیح عکاسی کرتا ہے ۔جب ایک مرکز ی وزیر اور ہندوستانی فوج کا سابق سربراہ حالات کے آگے اتنا لاچار ہوسکتا ہے تو عام آدمی کا کہنا ہی کیا؟
یہاں سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کورونا کی اس موذی وبا نے ملک میںاتنی خوفناک شکل کیوں اختیار کی اور اس کے سامنے ہماری پوری سرکاری مشنری بری طرح کیوں ناکام ہوئی۔ اس میں سب سے بڑا دخل اس اعلیٰ قیادت کی چرب زبانی کا ہے جو خود کو ہی ہر مسئلہ کا حل سمجھتی ہے اور جسے ہر معاملے میں عالمی قوت بننے کی جلدی ہے ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کورونا کے دوبارہ دستک دینے کے باوجود غفلت اور خوش فہمی میں مبتلا رہی۔جب بحران نے سنگین صورت اختیار کرلی تو اس سے نپٹنے کے طریقے بھی مسلسل ناکامی سے دوچار ہونے لگے ۔ جب ملک میں آکسیجن کا زبردست بحران کھڑا ہوگیا تو حکومت اپنی تمام لن ترانیوں کے باوجودصنعتی آکسیجن کوطبی آکسیجن میں تبدیل کروانے کی رفتار میں اضافہ نہیں کرواپائی۔اس دوران زندگی بچانے والی دواؤں کی زبردست قلت، اسپتالوں میں بستروں اور ویکسین کی کمی پر بھی قابو نہیں پایا جاسکا جو واضح طور پر حکومت کی کوتاہ اندیشی کا سب سے بڑا ثبوت تھا۔کورونا کی پہلی لہر نے جب تباہی مچائی تھی تو اسی وقت حکومت اپنے سارے وسائل طبی سہولتوں کی فراہمی پر مرکوز کردینے چاہئے تھے ، لیکن اس برے دور میں بھی حکومت نے نئی پارلیمنٹ بنانے کے لیے بیس ہزار کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا۔مودی سرکار کے اس ڈریم پروجیکٹ پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے ۔ اس سے قبل نرمدا ندی کے کنارے سردار پٹیل کے مجسمے پر تیس ہزار کروڑ روپے سرکاری خزانے سے خرچ ہوئے تھے ۔ظاہر ہے جب حکومت کی ترجیحات میں انسانی جانوں کو بچانے سے زیادہ مجسموں اور عمارتوں کی تزئین ہو تو وہ علاج معالجے اور اسپتالوں پر کیوں توجہ دے گی؟
جہاں تک ویکسین کا سوال ہے تو گزشتہ فروری کے عام بجٹ میں ۳۵ ہزار کروڑ روپے اس کے لیے علیحدہ سے مختص کیے گئے تھے ۔ یہ خطیر رقم 90 کروڑ ہندوستانیوں کو کورونا سے بچاؤ کے دونوں ٹیکے مفت لگوانے کے لیے کافی سے زیادہ تھی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ خطیر رقم
کہاں ڈوب گئی اور اب کیوں نئے فیصلے کے تحت تین طرح کی قیمتوں پر ویکسین فراہم کی جارہی ہے ؟ کیا اس سے چوربازاری میں اضافہ نہیں ہوگا، یعنی غریبوں کو ویکسین نہیں ملے گی۔ ویکسین کی تین سطحی قیمتیں طے کرنے کا فیصلہ حکومت کی کوتاہ اندیشی کا منہ بولتاثبوت ہے ۔
ناکام ویکسین پالیسی کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ ماہ کے تیسرے ہفتہ میں ہندوستان نے اپنے شہریوں کو لگانے کے مقابلے میںزیادہ تعداد میں دوسرے ملکوں کو ویکسین برآمد کی۔ یعنی 76 ملکوں کو چھ کروڑ ٹیکے بھیجے گئے جبکہ اس دوران اندرون ملک لگ بھگ پانچ کروڑ لوگوں کو ویکسین لگائی گئی۔ظاہر ہے سفارتی فائدے اور ‘وشو گرو’ بننے کی خواہش کو اس وقت تک لگام دی جاسکتی تھی جب تک خانگی حالات پوری طرح قابو میں نہیں آجاتے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے اولین ویکسین پیدا کرنے والے ملکوں میں شامل ہندوستان اپنی کمی پوری کرنے کے لیے ویکسین درآمد کرنے کی طرف رواں ہے ۔یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
آخر میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ سال انہی دنوں جبکہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگا ہوا تھااور کورونا کی تباہ کاریاں جاری تھیں تو اس وقت مسلمان اس کا سب سے بڑا نشانہ تھے ، کیونکہ نظام الدین کے تبلیغی مرکز میں پھنسے ہوئے تین ہزار لوگوں کی برآمدگی کے بعد گودی میڈیا نے ایسا طوفان برپا کیا تھا کہ‘مسلمانوں کو کورونا کا متبادل قرار دے کر انھیں ’کورونابم‘ اور ’کورونا جہادی‘ قراردے دیا تھا۔پورے ملک میں تبلیغی جماعت کے سینکڑوں ملکی اور غیرملکی کارکنوں کو سنگین دفعات کے تحت گرفتارکرکے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے نہ تو کوئی کورونا کا شکار تھا اور نہ ہی وہ اس کے ذمہ دار تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کو انھیں اعلیٰ عدالتوں نے تمام الزامات سے بری کردیا۔لیکن اس بار ہریدوارکے کمبھ میں چالیس لاکھ سے زیادہ شردھالوؤں نے جمع ہوکر اشنان کیا، لیکن میڈیا نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلی۔جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں وہاں اشنان جاری ہے ۔ اسے محدود کرنے کے لیے وزیراعظم نے جو نمائشی اپیل کی تھی، اسے سادھوؤں نے حقارت سے ٹھکرادیاہے ۔ مگر کورونا پھیلانے کے الزام ایک بھی سادھو سے پوچھ تاچھ نہیں ہوئی ہے ۔اب یہ لوگ پورے ملک میں پھیل کر کورونا کو کس بدترین مقام تک لے جائیں گے یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر