وجود

... loading ...

وجود
وجود

آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی اور ٹائیگر فورس کاکردار

هفته 01 مئی 2021 آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی اور ٹائیگر فورس کاکردار

 

پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈڑ کے لیے جوا کیوں کھیلا ؟ اس کی بہت سادہ سی وجہ ہے کہ حکومت کے سر پر آئندہ الیکشن میں اصلاحات متعارف کرانے کا’’بھوت ‘‘ سوارہے ۔ ان میں بھی سرفہرست الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے الیکشن کروانا پہلی ترجیح ہے ۔ یہ کوئی مذاق تھوڑی ہے کہ وزیراعظم زبان ہلائیں اوریہ کام ہوجائے اس کے لیے پارلیمانی کمیٹی کاقیام ضروری ہوتاہے یعنی قومی اسمبلی اورسینیٹ کے ارکان پرمشتمل پارلیمانی کمیٹی کو یہ بل منظورکرکے بھجواناہے پھریہ بل دونوں ایوانوں میں بحث کے لیے پیش ہوگا اوروہاں سے منظور ہونے کے بعد قانون بنے گا۔ اب اگر اتنے اہم عہدے پرن لیگ کابندہ ہوتاتو پیپلزپارٹی کے ہاتھ بندھے ہوتے ۔ یہ کسی بھی طرح پیپلز پارٹی کو قبول نہیں تھا۔ اس لیے اگرپیپلزپارٹی کا اپوزیشن لیڈرہونا ضروری تھا جوکہ آصف علی زرداری اپنی ’’سیاست‘‘ سے سیدیوسف رضا گیلانی کومنتخب کرواچکے ہیں تواس سے پیپلزپارٹی کے معاملات طے کرنے کی قوت میں اضافہ ہوگا اوریہ بھی سننے میں آرہاہے کہ جوالیکٹرانک مشین آئندہ الیکشن میں متعارف کرانے کاحکومتی منصوبہ ہے، اس سلسلہ میں آصف علی زرداری کوبھی اعتماد میں لیاجاچکاہے ۔اسی لیے انتخابی اصلاحات کے معاملے میں پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنے کوتیارہے اوریہ ’’ساتھ ‘‘ قانون منظور کرانے تک ہوگا۔
آپ کویاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل ہی وزیراعظم عمران خان نے ا سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کوایک خط لکھا تھا جس میں ان سے کہاگیاتھا کہ وہ پارلیمانی کمیٹی بنائیں جوانتخابی اصلاحات تجویزکرے ۔ ان کے اس خط کے فوراً بعد اسدقیصر نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈریوسف رضا گیلانی کوفون کیااورپارلیمانی کمیٹی کے لیے نام بھجوانے کی درخواست کی۔ یوسف رضاگیلانی نے اپوزیشن کی دیگرجماعتوں سے مشاورت کیے بغیر نام بھجوانے کی ہامی بھرلی ۔وہ نام کسی بھی وقت دے سکتے ہیں ،یہ ہے وہ بنیادی مسئلہ جو ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے درمیان وجہ تنازع بنااوراسی وجہ سے پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کاشکارہوئی۔
پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے یاد آیا کہ پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کی جانب سے دیا گیا نام حافظ حمد اللہ کو امیدوار ڈپٹی چیئرمین سینٹ ماننے سے انکارکردیا تھا اور کہا تھا کہ حافظ صاحب اسٹیبلشمنٹ کوکسی طورپرقابل قبول نہیں ہونگے۔ اس لیے دوسرانام دیں جس پرمولانا عبدالغفور حیدری کانام دیاگیا۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرکے آصف علی زرداری کے ہاتھ میں کیاآیا ؟ یہ بہت اہم سوال ہے جس کاجواب توآنے والا وقت ہی دے گا لیکن حالات و واقعات کی روشنی میں اگرتجزیہ کریں اور شہرِاقتدار میں ہونے والی سرگوشیوں کوغورسے سنیں توپتہ چلتاہے کہ آصف علی زرداری نے گھاٹے کاسودانہیں کیا۔ وہ 2013 ء سے اس کوشش میں تھے کہ پنجاب ن لیگ سے چھیناجائے اوراس سلسلہ میں وہ اس دورمیں پی ٹی آئی کی پنجاب میں کامیابیوں پرخوشی سے بغلیں بھی بجاتے سنائی دیتے تھے۔ ان کے خیال میں ن لیگ سے جتنی سیٹیں پی ٹی آئی چھینے گی ،اتناہی فائدہ پیپلزپارٹی کوہوگا۔ ان کے خیال میں پنجاب سے اکثریت حاصل کرنے کی وجہ سے ن لیگ ہمیشہ بھاری اکثریت سے وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اگر ن لیگ کے حصہ میں سے آدھا حصہ پی ٹی آئی لے جائے تو اس سے پیپلزپارٹی کی حکومت بننے کے زیادہ مواقع پیداہوسکتے ہیں۔ 2013 سے 2018 تک پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کبھی سرعام اورکبھی خفیہ طورپر ن لیگ کے خلاف کام کرتی رہی ہیں۔ عمران خان کے دھرنے کے سوا بہت سے مواقع پرپیپلزپارٹی نے ن لیگ کونقصان پہنچایا۔ 2018 ء کے الیکشن میں جب عمران خان کی حکومت بن گئی تو کچھ عرصے کے لیے پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کے درمیان اختلاف بھی ہوا۔خاص طور پرآئی جی پولیس سندھ اور دیگر اعلیٰ افسران کی تقرری وتبادلوں پراس میں شدت دکھائی دی لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری کاہاتھ پکڑ کرانہیں تسلی دی کہ فکر نہ کرنا ہم ہیں ناں۔۔۔۔ جب پی ڈی ایم بنااوراس نے جارحانہ سیاست کاآغازکیاتوآصف علی زرداری کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہو گئیں۔ اسٹیبلشمنٹ کومولانافضل الرحمان ، نوازشریف اور مریم نواز نے دیوارکے ساتھ لگایا توآصف علی زرداری نے وہ ’’چال ‘‘ چلی دی جس سے پی ڈی ایم ماضی کاقصہ بن گئی۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی بندہ اتنی ’’محنت ‘‘کرے اوراسے ’’صلہ ‘‘ نہ ملے ۔ اب پیپلزپارٹی کوصلہ ملنے کاوقت بہت قریب ہے۔ بتایاجاتاہے کہ اس صلے کاآغاز جنوبی پنجاب سے ہوگا اورممکنہ طورپر جنوبی پنجاب محاذ کوگرین سگنل مل چکاہے اوروہ کسی بھی مناسب وقت پریہ فیصلہ کرسکتاہے اور اس پرکسی کوحیران ہونے کی ضرورت بھی نہیں ۔
جہانگیرترین کے بارے میں بھی یہ خبرگردش کرتی رہی کہ وہ بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیارکرسکتے ہیں لیکن دونوں فریقین نے اسے خارج از امکان قرار دیا ،پھر دوسری ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو خاطر میں نہ لائے تو تحریک انصاف کی اکثریت جہانگیر ترین کے ساتھ ہوگی اور عمران خان کا ’’بندوبست ‘‘ کردیا جائے گا۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی کوئی نئی جماعت بناکر آئندہ سیٹ اپ میں پیپلز پارٹی، ق لیگ ، ایم کیو ایم وغیرہ کے اتحاد سے حکومت بنا سکتے ہیں ۔ رہی یہ بات کہ جہانگیر ترین تو تا حیات نا اہل ہو چکے ہیں اس کا بہت سادہ سا جواب ہے کہ یہ پاکستان ہے اور یہاں سب چلتا ہے ۔ جب یہ ساری منصوبہ بندی یا سوچ بچار ہورہی تھی تو مولانافضل الرحمان اور نوازشریف پس پردہ معاملات کوغور سے دیکھ رہے تھے۔ ان دونوں رہنمائوں کی کوشش تھی کہ وہ زیادہ سخت ردعمل نہ دیں تاکہ پیپلز پارٹی کو شہید بننے کا موقع نہ ملے، اس لیے وہ خاموشی سے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے ۔ دوسری طرف آصف علی زرداری تمام معاملات طے کرنے کے بعد فیصلہ کرچکے تھے کہ اپوزیشن اتحاد سے نکلاجائے لیکن اس کاالزام بھی اپنے سرنہ لیاجائے۔ اسی منصوبہ بندی کے تحت پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں انہوں نے نوازشریف پرچڑھائی کردی ،نہ صرف یہ بلکہ اس کی خبریں بھی میڈیا تک پہنچانے کاانتظام کیاگیا اور بتایا جاتاہے کہ خبریں لیک کرنے کے لیے مصطفی نوازکھوکھر کے بجائے آصف علی زرداری کے آزمودہ ’’ہتھیار‘‘ شیری رحمان کے واٹس ایپ کواستعمال کیاگیا ۔ آصف علی زرداری اوراسٹیبلشمنٹ کے اس ’’مشترکہ ‘‘ منصوبے کی کامیابی کے بعد اب آئندہ حکومت سازی پربات چیت چل رہی ہے۔ پیپلزپارٹی ہرصورت میں پنجاب لیناچاہتی ہے۔ اس لیے وہ اسٹیبلشمنٹ کی ہربات ماننے کوتیار ہے، انتخابی اصلاحات کے ذریعے اگر اگلے الیکشن کی جیت کامنصوبہ مکمل ہوتاہے تو اسے پیپلزپارٹی اپنی کامیابی قراردے کر سندھ کے علاوہ وفاق اورپنجاب میں ق لیگ جہانگیر ترین سمیت حکمران بن سکتی ہے ۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اگر انتخابی عمل صاف و شفاف ہوگیا تو پنجاب سے تو ن لیگ کلین سوئپ کر جائے گی۔ ایسے میں ’’ان ‘‘کا منصوبہ تو ناکام ہو جائے گا ،وہ یہ جوا کیوں کھیلیں گے ۔ اس سلسلہ میں جب اِدھر اُدھر فون گھمایا تو نا قابل یقین منصوبہ بندی کا انکشاف ہوا کہ خان کی پسندیدہ ٹائیگر فورس کو بروئے کار لایا جائے گا اور آج جو عوام کی جیبوں سے پیٹرول، چینی ،ایل پی جی ، ادویات اور دیگر قسم کے مافیا کے نام سے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے، اس رقم کا استعمال الیکشن میں ووٹ خریدنے کے لیے کیا جائے گا۔ آپ ذرا ذہن پر زور دیں کہ احساس پروگرام کے نام پر تقریباً 6 کروڑ شناختی کارڈز کا ڈیٹا اکٹھا ہوا تھا ۔ سنا ہے وہ ڈیٹا ٹائیگر فورس اور دیگر ایجنسیوں کے ذریعے ووٹ خریدنے کے کام آئے گا جس ووٹر یا گھرانے کے سربراہ نے فی ووٹ کے حساب سے ہزاروں روپے وصول کیے ہوں گے وہ ووٹ کیسے نہیں دیں گے۔ اس لیے خان اور اس کے سرپرستوں کو آئندہ الیکشن الیکٹرانک ووٹر مشین کے ذریعے ہی وارے کھاتا ہے ۔ سنا ہے نواز شریف ،شہباز شریف ، مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کو بھی اس منصوبے کی بھنک پڑ چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کا کیا توڑ کرتے ہیں، ان کے اس ’’توڑ‘‘پر آئندہ الیکشن کا فیصلہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر