وجود

... loading ...

وجود
وجود

پکوڑے نامہ

جمعه 30 اپریل 2021 پکوڑے نامہ

رمضان میں پکوڑے کس سن میں فرض ہوئے، اس حوالے سے ماہرین کی مختلف آرا ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ امت مسلمہ پر یہ سعادت مغلوں کے دور میں نازل ہوئی۔ جنہیں نرم ، گرم اور لذیذ سوغاتوں سے دستر خوان کو آراستہ کرنے کا شوق تھا۔اس لیے یہ نیکی کا کام مغلوں کے دور میں رواج پایا ، ذائقہ منفرد اور چٹ پٹا ہونے کی بنا پر تھوڑے ہی عرصے میں یہ سوغات واجب اورپھرافطاری میں ’فرض‘ ہوگئی۔ فرض اس لیے کہا جاتا ہے کہ برصغیر کے گھروں میں افطار میں جس دن پکوڑے نہ ہوں،چاہے دنیا بھر کی سوغات ہوں،لیکن طوفان کھڑا ہوجاتا ہے۔کچھ ہو یا نہ ہو پکوڑے ضرور چاہئیں۔
ویسے سچ بھی یہی ہے کہ افطاری میں بھلے، دس اشیا موجود ہوں لیکن ہاتھ پہلے پکوڑے ہی کی طرف اٹھتا ہے۔
کچھ ماہرین پکوڑے مغلوں کے دور میں فرض ہونے سے اختلاف کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ پکوڑے اپنی اس موجودہ شکل میں چکی کی ایجاد کے بعد وجود میں آئے۔بیسن عام ہوا اور روزہ داروں کو نئی نئی ریسپیاں سوجھنے لگیں۔
کچھ عرصہ قبل بڑا سانحہ ہوگیا، لیکن مولویوں کو اس کی خبر نہ ہوئی ورنہ برطانوی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کردیتے۔ ہوا یہ ایک برطانوی انسائیکلو پیڈیا نے پکوڑوں کو ہندوستانی ڈش قرار دے دیا، غضب خدا کا، اب تو پاکستان وجود میں آچکا ہے، اور پکوڑوں کی وراثت کے حق دار تو ہم ہی تھے۔ لیکن وہ گستاخ انسائیکلو پیڈیا لکھتا ہے کہ “انڈین پکوڑے‘‘۔۔ ہائے ہائے ظالم کی زبان کسی نے کیوں نہ پکڑی۔ آگے لکھتا ہے کہ یہ پکوڑے گوبھی، بینگن،آلو یا دیگر سبزیوں پر مشتمل تیل میں تل کر بنائے جاتے ہیں۔ کوئی اس ناہنجار کو یہ بھی بتا دے کہ پکوڑے مرچوں کے بھی بنائے جاتے ہیں اور پالک کے بھی پکوڑے بنتے ہیں اور تو اور انڈوں اور چکن تک کے پکوڑے تیار کیے جاتے ہیں۔ ہم صدیوں سے بناتے آرہے ہیں۔ اس لیے ہمارا انسائیکلو پیڈیا سے مطالبہ ہے کہ ہم پاکستانی پکوڑے یا اسلامی پکوڑے کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا نام قبول نہیں کریں گے۔
رمضان میں پکوڑے اس قدر لازم ہوچکے ہیں کہ ، ملک کے پورے سال کی چنے کی پیداور ایک ماہ میں چٹ ہوجاتی ہے۔ لیکن رمضان کے گزرنے کے بعد یہ قوم پکوڑوں کو اس طرح بھول جاتی ہے، جیسے ہم اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں۔ سوچ کربتائیں آپ نے کبھی رمضان کے بعد ، یعنی عید پر پکوڑے بنتے دیکھے ہیں؟ یا کبھی آپ نے شادی بیاہ یا کسی اور خوشی یا غم کے موقع پرکبھی پکوڑے بنوائے ؟ یا کبھی منی کی سالگرہ پر اس سے کیک کے بجائے پکوڑا کٹوایا ہو؟ نہیں نا ؟ یہی وہ تاریخی بے وفائی ، ظلم اور ناانصافی ہے جو ہم پورا سال پکوڑوں سے روا رکھتے ہیں۔ایسا تو دشمن بھی اپنی باندیوں سے نہیں کرتا۔ روایت ہے کہ برصغیر میں ایک انگریز سپاہی نے گشت لگاتے ہوئے کچھ روزہ داروں کو دیکھا جن کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔انگریز نے ان سے کہا کہ کس چیز نے تم کو یوں بھوکا رہنے پر مجبور کیا۔ روزہ داروں نے اسے افطار کے وقت کچھ پکوڑتے تھما دیئے، جنہیں کھاتے ہی گورے پر رقت طاری ہوگئی۔آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔اس نے دو پکوڑے اور مانگے اور جاتے جاتے بولا میں تم لوگوں کے اس کشت کی وجہ سمجھ گیا ہوں۔۔
گھر ہو یا دفتر یا افطار پارٹی حتی کہ پارلیمنٹ ہاؤس میں بھی، جب افطاری کا وقت ہوجائے تو وہاں مینو میں پکوڑوں کا شامل ہونا لازم ہوتا ہے۔ایک مولانا پارلیمنٹ میں افطار کے دوران کچھ ڈھونڈ رہے تھے، ایک ممبر نے انہیں کھجور پیش کردی اور وہ دانت پیس کر بولے پکوڑے ڈھونڈ رہا ہوں خبیث۔(خبیث وہ پیار سے کہتے ہیں) اور پھرپارلیمنٹ میں مصاحبین کی دوڑیں لگ گئیں ، مولانا کو پکوڑے پیش کیے گئے ورنہ افطارپارٹی سے اتحادیوں سمیت مولانا کے واک آؤٹ کا خدشہ تھا۔
ابھی ابھی خیال آیا کہ پکوڑوں کو بارش سے بھی جوڑا جاتا ہے۔جہاں ساون رت چلی ،من میں پکوڑوں کی پکاس اٹھنے لگی۔ (جس طرح پانی کی پیاس ہوسکتی ہے تو پکوڑوں کی پکاس بھی ہوسکتی ہے۔) بادل نظر آتے ہی باجی نے منے کو بیسن لینے کے لیے دوڑا دیا، حلوائی نے بھی دکان میں چھوٹے کو آواز لگائی کہ بیسن گھول لیبارش کے آثار لگ رہے ہیں۔ پکوڑے بنانے کے لیے بارش کا انتظار جاری ہے، اتنے میں ٹی وی پرخبر چلی کہ بارش برسانے والا سسٹم گزر گیا ہے، وہیں جیسے ارمانوں پربجلی سی گرگئی۔ پکوڑے رکوا دیئے گئے۔ ظالمو ایسا بھی کیا ہے، کبھی پکوڑے بارش کے بنا بھی کھا لیا کرو۔ گزشتہ دنوں ایک ڈاکٹر کچھ احتجاجی مظاہرین کے ڈنڈوں سے بچ نکلا ، کم بخت ڈاکٹرپکوڑوں کی توہین کررہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ آدھا کلو پیسن سے بنے ہوئے پکوڑے ایک پاؤ تیل چوس جاتے ہیں اور معدے کے لیے انتہائی وبال جان بن جاتے ہیں۔ ساتھ ہی انہیں جب چٹنی میں ڈبو لیا جاتا ہے تو پیٹ میں جاکر یہ پکوڑے پٹاخوں کی طرح کا کیمیائی عمل پیدا کرتے ہیں۔اتنا سننا تھا کہ مظاہرین کا پارہ ہائی ہوگیا، بولے کم بخت سموسے تیرے کیا چاچے مامے لگتے ہیں؟ وہ تیل نہیں چوستے ؟ وہ معدے میں ہلچل نہیں مچاتے؟ ڈاکٹر کچھ کہنے کے لیے منہ ہی کھولنا چاتا تھا کہ مظاہرین نے ڈنڈے بلند کیے اور ڈاکٹر کو فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
ایک بڑے مزے کی بات یہ ہے کہ پکوڑے اسٹریٹ فوڈ کہلاتے ہیں لیکن فوڈ اسٹریٹ پر اگر آپ پکوڑے ڈھونڈتے پائے جائیں تو لوگ آپ کی دماغی حالت پر شک کرنے لگتے ہیں ، کراچی کی ایک مشہور فوڈ اسٹریٹ پر ایک صاحب پکوڑے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایسی شاہراہ جہاں کباب ، بریانی، قورمے ، حلیم ، قیمہ ، تکے، نہاری ، زردہ اور ربڑی سے کم بات ہی نہ ہوتی ہو، وہاں انہیں دکانداروں سے سوائے دلچسپ مشوروں کے اورکچھ نہ ملا، بالاآخر انہوں نے ایک ٹھیلے سے دہی بڑے کھا کر من کی پیاس بجھائی۔
پکوڑوں کی تاریخ کے حوالے سے ایک گھسا پٹا واقعہ لیاری کے مکرانیوں سے بھی منسوب ہے۔ لیکن وہ واقعہ اتنے پرانے لطیفے کی مانند ہوگیا ہے کہ اب وہ آپ کو سنا کر ہنسانے کے بجائے رلانا نہیں چاہتا۔۔
اس لیے اس پکوڑے نامے کو یہیں پر ختم کرتے ہیں۔اجازت دیجئے۔خدا ہی حافظ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر