وجود

... loading ...

وجود
وجود

قرنطینہ مسلمانوں کی ایجادہے

جمعرات 29 اپریل 2021 قرنطینہ مسلمانوں کی ایجادہے

جب سے کورونا وائرس کا عذاب آیاہے ایک لفظ باربار سننے کو ملتاہے جسے قرنطینہ کہاجارہاہے کچھ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی یہ ہے کیا؟ دراصل یہ بھی ایک طرح کا طریقہ علاج ہے ،یہ اصطلاح کسی مہلک چھوت کے مرض میں،مبتلا، متاثرہ یا مشتبہ مریضوں کو سہولیات سے آراستہ ایک خاص مقام میں رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے تاکہ مرض کے پھیلائو کے خطرے کو روکنے کے لیے انتہائی احتیاط کی جائے اس میں متاثرہ یا مشتبہ مریض پرکہیں اور آنے جانے پر مکمل پابندی ہوتی ہے ،مریض کو قرنطینہ میں رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اس مہلک مرض کے پھیلائو کو روکا جائے ۔ آ پ کویہ جان کر خوشگوارحیرت ہوگی کہ یہ شہرہ آفاق ایجادمسلمانوں کی ہے جس سے پوری دنیا فائدہ اٹھارہی ہے یہ بنی نوع انسانیت کی گراںقدر خدمت ہے ۔تاریخی اعتبار سے اموی خلیفہ الولید بن یزید نے دنیا کا پہلا قرنطینہ بنایا تھا جس نے صدیوں تک متعدی امراض میں مبتلا انسانیت کو اپنی آغوش میں لیکر موت کا لقمہ بننے سے بچائے رکھا۔اہل ِعلم یقینا جانتے ہوں گے کہ قرنطینہ کا اولین تصور اسلام نے دیا ہے۔۔ پیغمبر برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوںکو وبا ئوںسے متاثر ہ بستیوں میں داخل ہونے یا وہاں کے باشندوں کو باہر نکلنے کی ممانعت فرمائی ہے جو قرنطینہ کاپہلا فلسفہ ہے ،اسی فلسفے سے دنیا رہنمائی حاصل کررہی ہے قرنطینہ اطالوی زبان کا لفظ ہے quaranta giorni جس کے معنی چالیس دن کے ہیں یعنی مریضوںکو ایک ماہ ایک عشرہ عام لوگوںسے الگ تھلک کردیا جائے تاکہ صحت مندافراد چھوت کی بیماری سے بچ سکیں۔
لاطینی میں اسے quarantine کہا گیاہے جب سے کورونا وائرس نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں جس کے باعث میڈیا پر قرنطینہ کا لفظ بہت زیادہ سننے اور پڑھنے میں آرہا ہے ہم میںبہت سے افراد اسے کسی علاقے کا نام خیال کررہے ہیں جبکہ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں اس عمل پر بھی بعض لوگوں کو اعتراض اورتشویش ہے اوراسے اسلامی تعلیمات سے متصادم عمل خیال کررہے ہیں ایسا مگر نہیں ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے دنیا کے تمام مسائل کا حل اس میں موجود ہے بس ہمیں اس کا ادراک نہیں ۔ اگرچہ یہ لفظ قرنطینہ یورپین زیادہ استعمال کررہے ہیں اور یوں لگ رہاہے جیسے آج کے عرب اس لفظ کو نہیں جانتے۔۔ جدید اعلامی عربی میں قرنطینہ کے لیے الحجر الصحی (بفتح الجیم وسکون الجیم ) کی مصطلح مستعمل ہے۔ قرنطینہ کے تصور پر عمل خلیفہ ثانی حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا جب انہوں نے ایک مہلک وباء کے باعث شام کا سفر سرغ نامی علاقے میں ترک کرنے کا ارادہ کرکے واپسی کا فیصلہ کرلیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قرنطینہ کو حکومت کی جانب سے عوام پر لازمی قراردینے کا پہلا کریڈٹ مشہور اموری خلیفہ الولید بن یزید نے کے سر ہے۔ جنہوںنے 706 ء میںجذام (کوڑھ ) کی وباء پھیلنے کے بعد دمشق میں ہسپتال بنوایا جس میں دنیا کا پہلا باضابطہ قرنطینہ بھی بنا یاگیا جہاں جذام کے مریض کو رکھا جانے لگا۔۔ان کے علاج کے لیے انہوں اپنے وقت کے ماہر ڈاکٹرز (اطبا) کی خدمات حاصل کیں اس وقت خلیفہ نے تمام متاثرین کو علاج معالجہ کی بہترین سہولیات فراہم کیں ان کے گھروالوں کے لیے وظائف بھی جاری کروائے ریاست کی جانب سے متاثرین کو مفت علاج معالجہ،ضروریات اورکھانے پینے کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ الحجر الصحی مغربی دنیا کو بے حد پسند آیاگیا اس کے باوجود مغرب نے کئی صدیاں بعد یعنی 1377ء میں کروشیا کے شہر دوبرونیک میں پہلا قرنطینہ بنا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب چین سے شروع ہونے والی طاعون کی وباء بحری جہازوں کے ذریعے سے یورپ کے ساحلی شہروں میں پہنچ گئی۔۔ اس وبا ء سے 1347ء تا 1350 ء کے دوران یورپ کے 30 فیصد باشندے لقمہ ٔ اجل بن گئے کروشیا کے شہر دوبرونیک کی اٹلی سے قربت کے سبب اطالوی سینیٹ نے قرنطینہ کے قیام کافیصلہ کیا جس کے تحت اٹلی کے ساحل جانے والے تمام بحری جہازوں کو سمندر کے اندر چالیس روز تک انتظار کرنے کا پابند کیاگیا ۔کیونکہ اس وقت کے ڈاکٹرز نے مرض کے آغاز سے موت تک کے لیے 37 روز کا دورانیہ بتایا تھا۔ جس کے لیے اٹلی نے quaranta giorni یعنی چلہ کی اصطلاح رائج کردی۔ مغرب کے تیز ترین نشریاتی اداروں نے اسے اپنے طبی قاموس کا حصہ بنا لیا۔۔ جبکہ الحجر الصحی کے موجد ہونے کے باوجود وقت کی دھول میں گم گشتہ مسلمان اپنی اس قیمتی متاع سے بے خبر ہوتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کئی جگہ قرنطینہ سے لوگوں کے فرار ہونے کی اطلاعات آتی رہی ہیں جبکہ بعض افراد اسے شرعی نقطہ نگاہ سے غلط خیال کرکے اس کی مخالفت کررہے ہیں۔حالانکہ آج کے مسلمان کو فخر ہونا چاہئے کہ انسانیت کے بچائو کے لیے سب سے اہم ٹھکانہ قرنطینہ ہے۔۔ اپنی عریق تاریخ پر نازاں ملک کے تمام دینی مدارس کے منتظمین کو بھی اپنے ہاں الحجر الصحی کے قیام کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ انسانیت کے بچائو میں ان کا بھی حصہ شامل ہو۔ حکومت نے متاثرہ افراد کے لیے بہترین سہولیات کے ساتھ کئی شہروں میں قرنطینہ کا انتظام کیا ہے متاثرین کو اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا چاہیے کورونا وائرس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں اس مرض کے خلاف لڑناہوگا چین کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں کے شہری اخوت کی بہترین مثالیں قائم کرکے کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔دعاہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ پوری انسانیت کو وبائوںکے عذاب سے محفوظ و مامون رکھے اور دنیا بھر کے متاثرین کو جلد صحت یاب فرمائے آمین ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر