وجود

... loading ...

وجود
وجود

موت کی لہر

جمعرات 29 اپریل 2021 موت کی لہر

 

کورونا وائرس کی تیسری لہر میں کووڈ 19 بیماری کا پھیلاؤ بڑی تیزی سے جاری ہے، لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہماری عوام اِس وبائی صورت حال سے نمٹنے کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ، مسلسل مجرمانہ لاپرواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ خاص طور پر ہمارا تاجر طبقہ رمضان المبارک اور عید کے سیزن میں زیادہ سے زیادہ پیسے اور منافع کمانے کے چکر میں کورونا سے متعلق اُٹھائے گئے حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی اعلانیہ دھجیاں اُڑا نے میں مصروف ہے۔ جبکہ اگر حکومتی اہلکار کسی جگہ ایس او پی پر عمل درآمد کروانے کے لیے سختی سے کام لے رہے ہیں تواُن کی خاص انداز میں ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے اُس میں سے اپنی مرضی کے مطالب اخذ کیے جارہے ہیں اوریہ منفی تاثر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے حکومت کورونا وائرس کی آڑ میں جان بوجھ کر تاجر طبقہ کا استحصال کررہی ہے۔ جب حقیقت احوال تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری انتہائی بُرے طریقے سے دنیا بھر پر حملہ آور ہے اور میڈیا میں باوثوق ذرائع سے تصدیق کی گئی ہے کہ گزشتہ دنوں شہر قائد کراچی کے ضلع وسطی میں کورونا وائرس کی سب سے خطرناک قسم سامنے آئی ہے اور اس کے 2 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، وائرس کی تصدیق ضلع وسطی کے علاقے نارتھ کراچی کے رہائشی ذیشان شیخ میں ہوئی ہے۔ذرائع محکمہ صحت کے مطابق ذیشان شیخ نامی شہری میں کورونا وائرس کی سب سے خطرناک قسم پائی گئی ہے، مذکورہ وائرس سب سے تیزی سے پھیلنے والا ورژن ہے اور یہ وائرس برطانیا اور انڈیا سے مماثلت رکھتا ہے۔ڈی سی سینٹرل راجا دھاریجو کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد مذکورہ شخص کو گھر میں 2 ہفتوں کے لیے قرنطینہ کردیا گیا ہے جب کہ اطراف کے علاقوں میں مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔کراچی میں کورونا وائرس کی خطرناک اقسام کی موجودگی صرف صوبہ سندھ کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک الارمنگ صورت حال ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ حکومت نے زیادہ کورونا پھیلاؤ والے شہروں میں لاک ڈاؤن کی تجویز پر غور شروع کردیا ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر اور قومی کوآرڈینیٹر این سی او سی لیفٹینٹ جنرل حمود الزمان کی زیرصدارت این سی او سی کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں کورونا کے پھیلاؤ کے اضافے کی شرح کو مد نظر رکھتے ہوئے فورم نے زیادہ پھیلاؤ والے شہروں میں لاک ڈاؤن کی تجویز پر غور کیا ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ کورونا وبا میں اضافہ کچھ شہروں میں موجود اسپتالوں میں سہولیات کی کمی کا باعث بن رہا ہے، لاک ڈاؤن کے بارے میں حتمی فیصلہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین مشاورت کے بعد لیا جائے گا جب کہ لاک ڈاؤن کے دوران تجویز کردہ پابندیوں میں بازاروں اور مالز، (سوائے ضروری خدمات) کی بندش، انٹرسٹی پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی اور تعلیمی اداروں کی مکمل بندش شامل ہیں۔این سی او سی نے کیمبرج امتحانات کے انعقاد کے طریقہ کار پر بھی نظر ثانی کی، یہ امتحانات وزارت تعلیم کے فیصلے کے مطابق منعقد کیے جا رہے ہیں۔
نیز این سی او سی نے فیصلہ کیا ہے کہ ایک امتحانی مرکز میں پچاس سے زیادہ امیدوار نہ بٹھائے جائیں۔ این سی او سی نے وزارت تعلیم سے درخواست کی کہ کیمرج امتحانات منعقد کرواتے ہوئے تمام تر حفاظتی تدابیر کے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔اجلاس میں 60 سال سے زیادہ عمر کے شہریوں کو ویکسی نیشن کیلیے واک ان سہولت کی فراہمی کا بھی فیصلہ کیا گیا جب کہ 40 سے 50 سال والے افراد کی رجسٹریشن کا فیصلہ بھی کرلیا گیا ہے۔یعنی اگر آپ 40 سال سے زائد عمر کے ہیں تو فوراً ہی خود رجسٹر کروائیں اور اپنے عزیزو اقارب کو رجسٹریشن کے لیے خصوصی ترغیب دیں۔مصیبت یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں ویکسینیشن کے لیے خود رجسٹرڈ کروانے والے افراد کی رفتار بہت سست ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ حکومت کے پاس ویکسین بھی دستیاب ہے اور وہ اُسے مفت میں عام عوام کو لگانا بھی چاہتی ہے لیکن عوام خود کو ویکسین کے لیے رجسٹرڈ کروانے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر ویکسین کے متعلق ایسی بے سروپا باتیں اور افواہیں پورے شد و مد کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں ،جس کی وجہ سے عام افراد ویکسین لگوانے سے متعلق شدید ابہام کا شکار ہورہے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور طبی ادارے تصدیق کرچکے ہیں پاکستان میں دستیاب ویکسین انتہائی موثر اور محفوظ ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ حکومت نے این سی او سی کے حالیہ اجلاس میں طبی شعبہ کو سہولیات کے حوالے سے آکسیجن کی مستقل فراہمی کے لیے ہنگامی اقدمات کرنے کی منظور ی بھی ہے اور آکسیجن کی فراہمی کومسلسل نگرانی کے ذریعے یقینی بنایا جارہاہے، کورونا وبا کے پھیلاؤ کے سبب مستقل دباؤ کا شکار صنعتی شعبے کے امدادی پیکج مرتب کرنے کے لیے کامرس منسٹری کو اپنی تجاویز مرتب کرنے کے لیے کہا گیا ہے کہ کامرس منسٹری، انڈسٹری اور وزارت صحت کی مشترکہ ٹیم تشکیل دے کر ملک میں آکسیجن کی مستقل فراہمی یقینی بنائے رکھنے پر غور کیا گیاہے۔علاوہ ازیں عید کی چھٹیوں میں عوام کی نقل و حمل کو محدود تر رکھنے اورمحفوظ سیاحت کا نظام مرتب کرنے پر بھی غور کیا گیا۔مگر یاد رہے کہ حکومتی اقدامات صرف اُسی وقت ہی زیادہ سے زیادہ سود مند اور موثر ثابت ہوسکیں گے جب عوام بھی کورونا کی تیسری لہر میں حکومتی اہلکاروں سے تعاون فرمائیں گے۔ بصورت دیگر کورونا وائرس کے انسداد کے لیے ہر حکومتی کوشش مکمل طور ناکام و مراد رہے گی اور کورونا وائرس کی لہر خدا نخواستہ موت کی لہر میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر