وجود

... loading ...

وجود
وجود

ملکی دفاع پر زہرافشانی ایک ایجنڈہ

جمعرات 29 اپریل 2021 ملکی دفاع پر زہرافشانی ایک ایجنڈہ

آج جنوبی ایشیا میں ہر چہار طرف کورونا کا بول بالا ہے، بھارت کی عدم احتیاطی و لاپرواہی کا فائدہ اٹھا کر یہ خطرناک جرثومہ اپنا خونی پنجہ نصب کرکے ہاہاکار مچانے میں کامیاب ہوگیا ہے نتیجتاً پڑوسی دیس قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا ہے جسے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے سب کو اپنی فکر پڑی ہے، لوگوں سے اپنوں نے منہ پھیر لیے ہیں حتیٰ خونی رشتے بھی آپس میں میل ملاپ کو تیار نہیں، کون کس حال میں ہے کسی کو کسی سے غرض نہیں، چتائیں تو اٹھ رہی ہیں لیکن ماتم و بین کرنے والے نظر نہیں آتے، کبھی سوچا نہ تھا کہ رشتہ دار، دوست، ہمسائے میّت کو کاندھا تک دینے سے انکاری ہوجائیں گے۔ ایسے کڑے وقت میں تمام تر اختلافات و نظریات کی تفریق کو پس پشت ڈال کر پاکستانیوں نے اپنے ہمسایوں کے ساتھ نہ صرف ہمدردی و یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ ہمہ وقت ہمہ تن خود کو پیش کرنے کا اظہار کیا، سوشل میڈیا کے زریعے ایک غیرمعمولی تعداد نے پیغامات بھیجے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے وہ اپنے پلازمہ دینے کو تیار ہیں، ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بھارت سرکار کو خط لکھ کر ایمبولینس سروس بمعہ ریسکیو ٹیم کے تعاون کرنے کی اجازت چاہی، ڈاکٹرز و پیرامیڈکس نے رضاکارانہ خدمات دینے کی خواہش کا اظہار کیا اور سیمابندی کی وجہ سے انسانیت کی مدد کرنے سے عاجز رہنے پر ہزاروں افراد نے افسوس و بیچارگی ظاہر کی، ایسے میں حکومت پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہ رہی اور مودی انتظامیہ کو ہر ممکن تعاون کی پشکش کی۔ اہالیان پاکستان کے اس جذبے کو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اندازہ کریں کہ ہمیشہ نفرت کا اظہار کرنے والی اداکارہ کنگنا رناوت بھی پاکستان کی تعریف و شکریہ پر مجبور ہوگئی اور یہ ان پاکستانیوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے وطن عزیز کے لیے بہت کچھ کیا اور بدلے میں کچھ نہ لیا۔اس کے برعکس ایک مخصوص طبقہ ایسا بھی ہے جنہیں سرزمین پاک نے دولت و شہرت، مقام و مرتبہ، عیش و عشرت ہر شے سے نوازا، اس کے باوجود ان کا منفی کردار ایسا ہے کہ ان کے ہوتے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔
ذرا سوچئے کورونا جیسی وباء کے خلاف جب قومیں اتحاد و حوصلہ مندی سے ڈٹی ہوئی ہیں، چھٹکارے کے لیے تدبیریں کررہی ہیں ایسے میں ہمارے کچھ ناعاقبت اندیش لوگ موقع غنیمت جان کر ملکی دفاع و دفاعی اداروں کے خلاف میٹھا زہر اگل رہے ہیں، کہتے ہیں ریاست نے دفاع پر فضول خرچ کیا صحت و تعلیم پر نہیں کیا اور منظم و مسلسل اسے مہم بنا کر چلایا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ زہر افشانی ریاست کو معذور بناکر بھوکے بھیڑیوں کے سامنے ڈالنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے یا واقعی اس زبردستی کے دانشوڑ طبقے کو عوام کا درد ہے؟ اگر گزشتہ دو دہائیوں پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2001 میں امریکی وزیرخارجہ کولن پاول نے جنرل مشرف کو نیوکلئیر ٹیکنالوجی میں مدد کی پیشکش کی جسے جنرل مشرف نے شکریہ کہہ کر مسترد کردیا اور صرف ٹریننگ کے حصول تک قبول کیا۔ آخر کچھ ایسا ضرور تھا جو 2004 میں جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ کچھ طاقتوں کو پاکستانی ایٹمی اثاثے ہضم نہیں اور ہم کسی صورت ایٹمی اثاثوں پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد مشرف حکومت کے خلاف مصنوعی بحران در بحران، میڈیا مہم اور مختلف تحریکیں چل نکلیں نتیجہ مشرف اقتدار کے سورج غروب کی صورت نکلا۔ 2008 میں وال اسٹریٹ جنرل میں ایک آرٹیکل شایع ہوا جس میں تجویز دی گئی کہ مغربی ڈونر پاکستان کو 100 ارب ڈالر کا پیکیج دیکر ایٹمی پروگرام رول بیک کروائیں۔ 2008 میں میثاق جمہوریت کا دور شروع ہوا تو پاکستان انتظامیہ نے ایک طرف تو بلاجواز قرضوں کے انبار لگادئیے جبکہ دوسری طرف دہشتگردی کی ایسی لہر چلی کہ سرزمین پاکستان کا کریہ کریہ بیگناہوں کے خون سے سیراب ہوا اس پر مستہزاد یہ کہ مذکورہ بالا مخصوص طبقے نے قرضوں پر کبھی ایک حرف بھی نہ کہا الٹا فضول کے منصوبوں کے ذریعے سیاستدانوں کو ہیرو بناکر پیش کرتے رہے گویا انہوں نے اپنی جیب سے لگائے ہوں۔ اس مہم کا اہم ترین موڑ اس وقت آیا جب 2016 میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے پاکستان پر ایٹمی اثاثے رول بیک کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جسے پاکستان نے سختی سے مسترد کردیا۔
وہ دن تھا کہ اس کے بعد ملکی سلامتی کے اداروں کے خلاف منظم ترین مہم کا آغاز ہوا، کبھی ڈان لیکس تو کبھی بیرون ممالک میں فوج مخالف مظاہرے، کبھی سیاست میں مداخلت کی چارج شیٹیں تو کبھی صحافت و آزادء اظہار پر پابندی کے الزامات اور یہ زہر افشانی آج بھی جاری ہے۔ کوئی کہتا ہے یورپ کے بہت سے ممالک میں فوج نہیں انہیں تو کسی نے ہڑپ نہیں کیا، کبھی کہا جاتا ہے ملکی بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر خرچا جاتا ہے۔ فرض کریں ان کی خواہش پر عمل کر لیا جائے فوجی و دفاعی طاقت کمزور کردیتے ہیں اور ایٹمی اثاثے رول بیک کرکے 100 یا 200 ارب ڈالر تھام لیتے ہیں۔ کیا اس سے مستقبل محفوظ ہوجائیگا؟ اس کا جواب شاید یوکرائن سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا جس کے باسیوں کو نہ دن کا سکون ہے نہ رات کا چین، ہر وقت ایک ہی خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کب روس حملہ کرکے قبضہ کرلے، دفاعی لحاظ سے 1994 تک یوکرائن دنیا کی تیسری بڑی طاقت تھی لیکن ان کے ہاں بھی بہت سے ارسطو تھے جن کی زہن سازی مہم و عالمی طاقتوں کی میٹھی باتوں میں آکر یوکرائن نے بداپسٹ میمورنڈم کے تحت دسمبر 1994 میں امریکہ، روس اور برطانیہ سے اپنے ایٹمی اثاثوں سے دستبرداری کا معاہدہ کرلیا بدلے میں معاشی مدد اور سیکیورٹی ضمانت حاصل کی۔ لیکن 2014 میں روس نے کریمیا کی روسی حمایتی آبادی کو جواز بناکر کریمیا پر چڑہائی کردی اور کچھ حصے پر قبضہ کرلیا، ایک بار پھر یوکرائن پر خوف کے بادل منڈلارہے ہیں اور آج وہ اپنی غلطی پر افسردہ ہیں۔ اگر ان چند ناعاقبت اندیش لوگوں کی خواہش و زہرافشانی کا شکار ہوکر ہم فوج کو کمزور کردیتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ زرا سوچئے! ایک طرف ازلی دشمن بھارت جو متعدد بار جارحیت کرچکا اور آج بھی اس کا جنگی جنون و بھارت ماتا بنانے کا راگ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، دوسری طرف افغانستان جس نے پاکستان کے وجود کو تسلیم نہ کیا بلکہ اقوام متحدہ کی ممبرشپ میں بھی مداخلت کی اس کے علاوہ اندرون خانہ غیرملکی لیپالک بچے ہمارا کیا حشر کرینگے؟ کیا ہم بھی لیبیا کی طرح مغرب کا اچھا بچہ بن جائیں جو کسی بھی وقت مسل دئیے جائیں؟ یہ راز ہر خاص و عام پر آشکار ہے کہ پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی اصل وجہ مضبوط دفاع و مضبوط فوج نہیں بلکہ کرپشن، لاقانونیت اور عدم انصاف ہے لیکن تُف ہے اس مخصوص طبقے پر جو کبھی بھولے سے بھی انکے حلق سے کرپشن، لاقانونیت و عدم انصاف کے خلاف آواز بھی نکلی ہو۔ لہٰذا وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیں من حیث القوم اپنے پرائے، کھرے کھوٹے، دوست دشمن کی پہچان کرکے ان کے راستے روکنے ہونگے تب کہیں جاکر
”یہ چمن معمور ہوگا نغمہء توحید سے”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر