وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا بھارت میں جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے؟

منگل 27 اپریل 2021 کیا بھارت میں جمہوریت کو بچایا جاسکتا ہے؟

(مہمان کالم)

رام پنیانی

مغربی بنگال کے انتخابات میں ترنمول کانگریس اور بی جے پی‘ جو بڑی دعویدار جماعتیں ہیں‘ نے انتخابی مہم میں غیرمعمولی طور پر شدت پیدا کی۔ نتیجتاً مغربی بنگال کا سیاسی درجہ حرارت بہت زیادہ بڑھ گیا۔ خاص طور پر بی جے پی نے اس ریاست میں اپنی تمام تر طاقت جھونک دی اور بقول ممتا بینرجی، بھاجپا اختیارات کے بے جا استعمال میں مصروف ہے۔ بی جے پی ہی نہیں بلکہ اس کی ملحقہ تنظیمیں اور سنگھ کے نظریات سے متفق دیگر گروپ بھی پوری طرح سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ترنمول کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں مختلف سطحوں پر سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی وقت بہ وقت جانبداری کا مظاہرہ کیا جس کی کئی بدترین مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں بی جے پی امیدواروں یا ان کے رشتہ داروں کی گاڑیوں میں لے جائی گئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی بنگال میں الیکشن کمیشن کس طرح کی پالیسی پر عمل پیرا رہا اور وہ کس طرح اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ اس گہماگہمی اور انتخابی مہم کے نقطہ? عروج پر پہنچنے کے بیچ سابق چیف منسٹر بنگال ممتا بینرجی نے تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں بشمول کانگریس، ا?ر جے ڈی، سماج وادی پارٹی، این سی پی، ڈی ایم کے اور شیوسینا وغیرہ کے قائدین یا سربراہوں کے نام خطوط روانہ کیے جس میں تیکھے متن کا استعمال کیا گیا اور واضح طور پر کہا گیا کہ وہ تمام سیاسی جماعتیں جو یہ چاہتی ہیں کہ ملک میں جمہوریت کا تحفظ ہو اور دستور برقرار رہے تو پھر انہیں اس معاملے میں سنجیدہ طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ اپنے مکتوب میں ممتا بینرجی نے اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے زور دیا کہ ا?ج جمہوریت اور دستور پر بی جے پی کے حملوں کے خلاف متحدہ اور موثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ملک کے عوام کے لیے ایک مستحکم متبادل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ممتا بینرجی کے مکتوب میں بی جے پی حکومت میں اختیارات کے بے جا استعمال خاص طور پر دفتر گورنر، سی بی ا?ئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ جیسی مرکزی ایجنسیوں کے بے جا استعمال پر روشنی ڈالی گئی۔ اپوزیشن قائدین کے نام مکتوب میں یہ بھی بتایا گیا کہ مرکزی حکومت ریاستوں کے فنڈز روک رہی ہے۔ قومی ترقیاتی کونسل اور منصوبہ بندی کمیشن جیسے اداروں کو ختم کررہی ہے۔
بی جے پی یہی چاہتی ہے کہ غیربی جے پی جماعتوں کے لیے اپنے دستوری حقوق اور حق آزادی کا استعمال ناممکن ہوجائے۔ ممتا بینرجی نے اپنے مکتوب میں یہ بھی تحریر کیا کہ بی جے پی کی مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں کے اختیارات کو سلب کرنے اور انہیں کم سے کم کرتے ہوئے بلدیہ کے اختیارات تک محدود کرنے کی خواہاں ہے۔ مختصراً یہ کہ بی جے پی بھارت میں یک جماعتی حکمرانی قائم کرنے کی خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی نے دہلی میں جو کچھ کیا، اسے تازہ ترین مثال کے طور پر لیا جاسکتا ہے۔ دہلی میں بی جے پی کی مرکزی حکومت نے ریاستی حکومت کے اختیارات گھٹا کر تمام اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کو تفویض کردیے ہیں۔ نتیجہ میں منتخب حکومت بے بس و مجبور دکھائی دے رہی ہے۔ ممتا بینرجی نے ایسے مختلف نکات پیش کیے جن سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح مرکزی حکومت منتخب حکومتوں کے لیے مسائل پیدا کررہی ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ملک میں جمہوری اقدار ملیامیٹ ہورہے ہیں اور ملک کے ہر حصے میں عوام کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ پچھلے 6 سال سے زائد عرصہ کے دوران ہمارے ملک نے اچانک نافذ کردہ نوٹ بندی کا مشاہدہ کیا جس نے کئی زندگیوں کو خطرہ میں ڈال دیا۔ بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا اور متوسط طبقات کی معاشی حالت روبہ زوال ہوئی۔ حکومت نے جب جی ایس ٹی پر عمل آوری کی، اس سے خاص طور پر تاجرین وغیرہ کے مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔ جس طرح کورونا وائرس وبا کے منظر عام پر آنے کے بعد اچانک لاک ڈائون نافذ کیا گیا، اس سے لاکھوں کی تعداد میں مہاجر مزدور شہروں سے اپنے گائوں کی طرف چل پڑے۔ ان کی المناک کہانیاں پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔مودی حکومت کے ان چھ برسوں کے دوران سارے ملک نے شہریت ترمیمی قانون کی منظوری کا مشاہدہ کیا جبکہ این آر سی نے بھی مذہبی اقلیتوں کی مصیبتوں میں اضافہ کیا۔ نتیجہ میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف شاہین باغ تحریک کی شکل میں ایک بہت بڑا احتجاج منظم کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج سارے ملک میں پھیل گیا۔ اس دوران دہلی میں فسادات بھی ہوئے۔ اسی طرح صنعتی گھرانوں کے موافق تین زرعی قوانین کی منظوری نے بھی کسانوں کی حالت خراب کرکے رکھ دی اور ان قوانین کے خلاف کسانوں نے اب تک سب سے بڑا اور پراثر احتجاج شروع کردیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ دوسری جانب اشیائے ضروریہ، پٹرول، ڈیزل اور پکوان و تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا جس کا اثر معاشرے میں متوسط طبقہ پر بہت زیادہ پڑا ہے۔ مرکزی حکومت ان تمام منفی رجحانات کے باوجود ترقی کا پروپیگنڈا کررہی ہے حالانکہ ترقی کے اشارے واضح کررہے ہیں کہ شرح نمو سست روی کا شکار ہے اور تیزی سے روبہ زوال ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری آزادیوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’فریڈم ہائوز‘‘ نے بھی ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے بھارت کو ایک آزاد جمہوریت کے درجہ سے نکال کر جزوی آزاد جمہوریت کے درجہ میں ڈال دیا۔ اسی طرح ورائٹی آف ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ‘ جو سویڈن سے کام کرتا ہے‘ نے واضح طور پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اب انتخابی مطلق العنانی میں بدل گئی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2020ء نے 107 ممالک میں بھارت کو 94 واں درجہ عطا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر خوشحال ممالک کی رپورٹ برائے 2021ء جاری کی جس میں 149 ممالک میں بھارت کا مقام 139واں ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خوشی و مسرت کے حامل ممالک میں ہم کتنے پیچھے ہیں۔
ممتا بینرجی نے اپنے مکتوب میں جن نکات پر توجہ دلائی ہے، ان پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ا?ج مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت اور دلتوں، قبائلیوں اور خواتین کے خلاف تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ ساتھ ہی بھارت کے دستور میں مساوات، اخوت کے اقدار کا جو سبق دیا ہے، وہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ ا?ج سکیولر اور غیربی جے پی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر