وجود

... loading ...

وجود
وجود

مستقبل کی جنگ پانی پر ہوگی؟

پیر 19 اپریل 2021 مستقبل کی جنگ پانی پر ہوگی؟

پانی زندگی ہے ۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہرتہذیب اور معاشرے میں کسی پیاسے کو پانی پلانا بہت بڑا کارِ ثواب ہے ۔لیکن صرف اُس وقت تک جب تک کہ پانی طلب کرنے والے افراد کی تعداد دو ،چار یا چند ہزار نفوس تک محدود ہوتو انہیں بخوشی پانی جیسی نعمت وافر مقدار میں فراہم کی جاسکتی ہے ۔مگر اگر کوئی قوم کسی دوسری قوم سے اپنی سرزمین کی سیرابی کے لیے مکمل دریا ہی طلب کرنے کی غلطی کر بیٹھے تو عین ممکن ہے کہ اُسے پانی کے بجائے آگ اور خون کے سمندر میں غرق کر دیا جائے ۔یا د رہے کہ پانی پر جنگیں انسانوں کے مابین ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور مستقبل میں بھی مختلف اقوام کے درمیان پانی پر جنگ ہونے کے شدید ترین خطرات بدستور پائے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے بارے میں تو ماہرین عسکریات ایک مدت سے پیش گوئی کرتے آرہے ہیں کہ یہاں آئندہ جنگ جب بھی ہوگی ،پانی پر ہی ہوگی ۔اَب وہ پانی ٹھنڈا ہو یا گرم اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہاں یہ وضاحت کرنا اشد ضروری ہے کہ جدید سیاسیات کی اصطلاح میں سمندر کو ’’گرم پانی ‘‘ (Hot Water) گلیشیئریا پہاڑوں پر موجود آبی سوتوں کو ’’ٹھنڈ اپانی‘‘ (Cold Water) بھی کہا جاتاہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عظیم متحدہ روس اگر پاکستان سے متصل گرم پانی تک بذور طاقت رسائی حاصل کرنے کی حماقت نہ کرتا تو امریکا کو روسیوں کو جنگ کی دلدل میں دھکیلنے کا سنہری موقع مشکل ہی میسر آنا تھا۔اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکا اور روس کے درمیان ہونے والی سرد جنگ کا بنیادی محرک گرم پانی ہی تھااور اَب اُسی گرم پانی تک روس کو رسائی پاکستان کی جانب سے اس لیے فراہم کردی گئی ہے کہ روسیوں کو سمجھ آگیا ہے کہ پاکستانیوں سے پانی صرف محبت سے سے حاصل کیا جاسکتاہے۔
سرد جنگ کے اختتام کے بعد روس کے ساتھ گرم پانی کا تصفیہ طے پایا تو اچانک بھارت کے ساتھ پاکستان کا ٹھنڈے پانی کا تنازع سراُٹھانے لگا اور بھارتی حکمرانوں کی جانب سے پاکستانیوں کو ہمالیہ پہاڑ کی فلک بوس چوٹیوں سے براستہ کشمیر سے ہوکر دریا سندھ تک بہہ کر آنے والے صاف و شفاف دریائی پانی کو روک دینے کی کھلم کھلادھمکیاں دی جانے لگیںاور سندھ طاس عالمی معاہدے کو سبوتاژ کرنے کے لیئے سنجیدہ بہانے تلاش کیے جانے لگے۔ المیہ تو یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں نریندر مودی نے اپنی عوام سے ووٹ بھی اس وعدے پر لیئے تھے کہ ’’میں اگلی بار اقتدار میں آتے ہی پاکستان کا پانی بند کر کے اُسے بے آب و گیاہ صحرامیں تبدیل کر کے اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردوں گا‘‘۔مگر پاکستان دشمنی کے زہر آلودہ جذبات سے لتھڑا ہوا نریندر مودی یہ بھول گیا کہ پاکستان کو سیراب کرنے والا پانی ، بھارت کے دریاؤں گنگا اور جمنا سے نہیں بلکہ ہمالیہ پہاڑ کی چوٹیوں سے بہہ کر آتاہے اور ہمالیہ پر چین کو مکمل دسترس حاصل ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین اپنے جنوب مغربی علاقے تبت میں ایک بہت ہی بڑا ڈیم تعمیر کرنے جا رہا ہے جس کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد چین حقیقی معنوں میں اس قابل ہوجائے گا کہ وہ جب چاہے بھارت کا پانی بندکردے ۔صرف یہ ہی نہیں اس ڈیم کی بل بوتے پر چین پورے جنوبی ایشیا کو میسر پانی کی سپلائی بھی باآسانی کنٹرول کرنے کی غیر معمولی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

واضح رہے کہ یہ ڈیم جسے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں ’’میگا ڈیم ‘‘ کے نام سے پکارا جارہاہے۔ تبت، بھارت اور بنگلہ دیش سے گزرنے والے برہم پتر دریا پر تعمیر کیا جائے گا۔ جو دنیا کے سب سے بڑے پاور سٹیشن’ ’تھری گورجز‘‘ ڈیم کے مقابلے میں تین گنا زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ برہم پتر دریا پر تعمیر ہونے والے اس میگا ڈیم سے سالانہ 300 ارب کلو واٹ بجلی پیدا ہوگی۔یاد رہے کہ اس میگا ڈیم کا منصوبہ چین کے 14ویں اسٹریٹیجک پانچ سالہ منصوبے میں شامل ہے جو گزشتہ ماہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔بظاہر اس پانچ سالہ منصوبے میں ڈیم کی تعمیر کی مدت اور اس پر آنے والے اخراجات سے متعلق تفصیل کسی کو بھی فراہم نہیں کی گئی ہے۔لیکن ماہرین کی جانب سے امکان یہ ظاہر کیا جارہاہے کہ چین دفاعی اہمیت کے حامل اپنے اس عظیم الشان ڈیم کو پانچ سال کی مدت میں مکمل کر کے خطے میں اپنی دھاک بٹھانے کا قوی ارادہ رکھتاہے اور اگر یہ میگا ڈیم اپنی مقررہ مدت میں تیار ہوجاتاہے تواس کی بدولت خطے میں بھارت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ عزائم انتہائی محدود یا پھر مکمل طور پر اختتام پزیر بھی ہوسکتے ہیں ۔ عالمی ذرائع ابلاغ خاص طور پر امریکی حکام کی جانب سے چین کے اس میگا ڈیم کے منصوبے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے چین سے مطالبہ کیا جارہاہے کہ وہ فی الفور اس منصوبہ کو ترک کردے۔ لیکن چینی منصوبہ سازوں نے میگا ڈیم پر ہونے والی ہرقسم کی تنقید کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس کی جلد ازجلد تعمیر کے لیے کمر کس لی ہے۔

دوسری جانب بھارتی ذرائع ابلاغ کے ایک حلقے میں یہ دہائی دی جارہی ہے کہ’’ چین کی جانب سے یہ میگا ڈیم پاکستان کی خواہش اور سی پیک کے تحفظ کے لیے خصوصی ’’عسکری بندوبست ‘‘کے طور پر تعمیر کیا جارہاہے اور اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد چین اور پاکستان کی طرف سے بھارت کو آبی جارحیت کا نشانہ بنایا جائے گا‘‘۔یہاں الفاظ کا چناؤ ملاحظہ ہو کہ میگا ڈیم چین بنا رہا ہے ،لیکن بھارتی میڈیا اپنے عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کررہا ہے کہ متذکرہ بالا ڈیم سے بھارتیوں کا پانی پاکستانی حکومت بند کردے گی۔حالانکہ اگر ہمالیہ بھارت کے ابتدائی سرے پر واقع ہے تو پاکستان اُس کے آخری سرے پر موجود ہے اور آخری مقام پر بیٹھ کر پاکستان کس طرح سے بھارت کا پانی بند کرسکتاہے ؟سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ہاں! جہاں تک چین کا سوال ہے تو بلاشبہ چین اپنے میگا ڈیم کی تکمیل کے بعد جب چاہے بھارت کی آبی گزرگاہوں کو ریت اُڑاتے صحراؤں میں تبدیل کرسکتاہے۔لیکن اگر بھارت چاہتاہے کہ چین یہ ’’آبی اقدام‘‘ نہ کرے تو پھر اُسے کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت چین سے مبنی بر اخلاص نتیجہ خیز مذاکرات کا آغاز ابھی سے کر دینا چاہئے ۔ لیکن اگر مودی سرکار ، امریکی آشیر باد سے چین کو نیست و نابود کرنے کی خفیہ سازشوں میں مسلسل مصروف عمل رہی گی تو پھر چین کو بھی اپنے دفاع کے لیئے ہر قسم کے حفاظتی اقدامات اُٹھانے کا حق بدستور حاصل رہے گا۔

ویسے بھی پاکستان سے گزرنے والی سی پیک راہ داری کو چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔اس لیے چین پاکستان کی زراعت میں انقلابی جدت لانے میں اعلانیہ دلچسپی لے رہا ہے۔ دراصل سی پیک منصوبہ کی تمام تر کامیابی کا دارمدار لہلاتے ہوئے سر سبز پاکستان میں ہے اور سی پیک کے زرعی منصوبوں کی کامیابی کے لیے دریا کے پانی تک رسائی ناگزیر ہے۔اس لیئے چین بھارت کے کسی بھی ایسے منصوبے کو کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار ہونے نہیں دے گا ،جس کی وجہ سے پاکستانی سرزمین بنجر ہونے کی خدشات پیدا ہوں۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو برہم پتر میں ’’میگا ڈیم ‘‘ بنانے کا منصوبہ براہ راست پاکستانی بقا کا ضامن ہے اور چین نے میگا ڈیم کے عظیم الشان منصوبہ کا آغاز کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان کو بھارت کی آبی جارحیت سے تحفظ فراہم کرنے کا خاطر خواہ بندوبست کردیا ہے ۔ نیز چین کے لیے قیمتی ہیرے کی حیثیت رکھنے والی گوادر بندرگاہ سے اسے صرف بحر ہند کا تجارتی کنٹرول ہی نہیں ملتا بلکہ یہ بندرگاہ چین کی میری ٹائم خواہشات کے لیے ایک’’دفاعی لکیر ‘‘ بھی ہے۔یاد رہے کہ چینی صدر ژی جنگ پنگ عالمی برداری کو مخاطب کرتے ہوئے واضح طور پرکئی بار کہہ چکے ہیں کہ’’ چین سمندر میں دلچسپی لے گا، اسے سمجھے گا، اور اسٹریٹجک بنیادوں پر سمندر کا انتظام سنبھالے گا اور میری ٹائم طاقت طاقت کے حصول کے لیے چین انتھک محنت اور زیادہ سے زیادہ کام کرتا رہے گا‘‘۔اس مقصد کے حصول کے لیے پیپلز لبریشن آرمی نیوی (پی ایل اے این) 2030ء تک ’99 آبدوز، 4 چار ائیرکرافٹ بردار بحری جہاز، 102 ڈسٹرائر اور فریگیٹ جہاز، 26 کارویٹ، 73 پانی اور خشکی پر چلنے والے ایمفی بئیس شپ اور 111 میزائل کرافٹ‘ کو اپنے بحری قوت میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

شاید اسی لیے اکثر ماہرین عسکریات سمجھتے ہیں کہ اگر چین اپنے آبی دفاع کو اسی رفتار سے منظم اور محفوظ بناتا رہا تو آج سے 10 برس بعد چین کے پاس کم ازکم 415 بحری جہازوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی بحری فوج ہوگی۔علاوہ ازیں ایک درجن سے زائدمیگا ڈیمز کی صورت میں دنیا کے سب سے بڑے آبی ذخیرے بھی چین کے پاس ہی موجود ہوں گے ۔جبکہ تجارتی اثر و رسوخ تو چین کا آج بھی دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہے ۔ صرف امریکا میں اتنی چینی مصنوعات موجود ہیں کہ اگر اُن کی رسد کی فراہمی معطل کردی جائے ،تو امریکی دُکانیں کھانے پینے کی اشیاء سے خالی ہوجائیں گی۔ یعنی سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ مستقبل میں کس ملک کو کتنا پانی دیا جائے گا عین ممکن ہے اس کا فیصلہ چین اور پاکستان مل کر کریں ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر