وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا مستقبل

پیر 12 اپریل 2021 امریکا اور پاکستان کے تعلقات کا مستقبل

کیا امریکا کا پاکستان کے ساتھ برسوں پرانا ’’سفارتی معاشقہ ‘‘ اپنے اختتام کو پہنچا؟ اور امریکا نے پاکستان کے ساتھ مکمل ’’سفارتی قطع تعلقی‘‘ اختیار کرتے ہوئے بھارت کو اپنا نیا ’’سفارتی محبوب ‘‘ بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیاہے؟ہوسکتاہے اِن سوالات کے جوابات امریکا کے لیے اہم نہ ہوں لیکن ہم پاکستانیوں کے نزدیک امریکا اور پاکستان کے مابین قدیمی معاشقہ کی تازہ ترین حقیقت جاننا اِس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم نے کئی دہائیاں امریکا کے ساتھ محبت اور عشق کی پینگیں بڑھاتے ہوئے گزار دی ہیں ۔ برسوں کی محبت کا اچانک سے اس قدر بے رخی اور بے اعتنائی میں بدل جاناکہ امریکی حکام ایک دن اعلانیہ کہہ دیں کہ ’’اَب ہمیں پاکستان کی مزید ضرورت نہیں رہی‘‘۔یہ جملہ سُن کر تو اُن پاکستانیوںکو بھی سخت اچنبھا ہوا، جو امریکا کے ساتھ دوستی کے کبھی بھی حامی نہیں رہے ہیں۔ یقینا پاکستان کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوجانے والا دو ممالک کا یہ مثالی پیار و محبت یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہی تھا۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ سفارتی ضرورتوں اور مفادات کی آگ دونوں طرف ہی اِس شدت سے سلگی ہوئی تھی کہ پاکستان اور امریکا اگر ایک دوسرے سے عشق نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ آج امریکا عالمی طاقت نہ ہوتا اور پاکستان ایٹم بم کا مالک نہ بنتا۔اس مناسبت سے محسن نقوی کا شعر کتنا بر محل ہے کہ ’’اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا ۔۔۔ ورنہ تو میرا نہ تھا اور میرا تیر ا نہ تھا‘‘۔کو ئی مانے یہ نہ مانے مگر سچ تو یہ ہی ہے کہ پاکستان، امریکا کے ایما پر روس کو شکست نہ دیتا تو امریکا کبھی بھی سپر پاور نہیں بن سکتاتھا، اور تو اور امریکا افغانستان میں بھی گیارہ سال تک اگر کامیابی کے ساتھ ٹک گیا ہے تو اس میں بھی پاکستان کی دوستی کا اہم ترین کردار ہے۔

شاید اسی لیے بعض تجزیہ کاروں کا اصرار ہے کہ جنوب ایشائی خطے میںاپنے اہداف کامیابی کے ساتھ پورے کرنے کے لیے امریکا کو سب سے زیادہ اَب بھی اگر کسی ایک ملک کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان ہی ہے۔ مگر امریکا کی شدت کے ساتھ خواہش یہ ہے کہ چونکہ اس خطے میں اُس کا اصل حریف چین ہے ،اس لیے پاکستان پر لازم ہے کہ وہ چین کی دوستی کو خدا حافظ کہہ کر امریکا کے ساتھ ازسر نو تجدید عہد کرے۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کو چین سے الگ کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے ماضی میں بھی تسلسل کے ساتھ مختلف قسم کی پرکشش پیشکش اور ترغیبا ت دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن جب امریکا کی کوئی بھی پیشکش اور ترغیب پاکستان کو چین کے ساتھ ترک تعلقات پر آمادہ نہیں کرسکی تو بالآخر پاکستان کی دل و دماغ سے چین کی دوستی کا خناس نکالنے کے لیئے امریکی حکام نے دھونس اور دھمکی کی راہ اختیار کی ہے۔فی الحال تو صرف چند سخت سفارتی جملوں اور کچھ سفارتی اقدامات سے ہی پاکستان کی طبیعت صاف کرنے کی کوشش کی جاری ہے لیکن اگر پاکستان نے ’’سفارتی کمزوری ‘‘ نہ دکھائی اور چین کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات بدستور جاری رکھے تو پھر امریکا کی جانب سے پاکستان کو بلیک میل کرنے کے لیئے دیگر ذرائع کا استعمال بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ امریکا پاکستان کو چین کے کیمپ سے نکالنے یا یوں کہہ لیں کہ اغوا کرنے کے لیئے کسی بھی حد تک جاسکتاہے۔ یہاں اَب اصل امتحان تو پاکستانی قیادت کا ہے کہ دیکھنا ہوگا کہ وہ آنے والے مشکل ترین ایام میں امریکا کا دباؤکس طرح سے اور کس حد تک برداشت کر پاتی ہے۔

یہاں سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب امریکا کو اچھی سے معلوم ہے پاکستان ،چین کا انتہائی قابل اعتماد اور قریبی دوست ہے تو اس کے باوجود بھی وہ آخر کیوں پاکستان کو چین کے خلاف اپنے کیمپ میں دیکھنا چاہتاہے؟دراصل اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں ۔پہلی یہ کہ امریکا اور پاکستان برسہا برس سے ایک دوسرے کے ساتھ مختلف محاذوں پر مل کر کام کرتے آرہے ہیں ۔لہٰذا اِن دو ممالک کے درمیان جس طرح سے مضبوط ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوچکی ہے۔ ایسی دیرپا ورکنگ ریلیشن شپ امریکا کو بھارت سے بنانے میں شاید برسوں درکار ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ پھر بھی اُس طرح کی و رکنگ ریلیشن شپ نہ بن سکے ، جو پاکستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کا طرہ امتیاز ہے۔ دوسری اہم ترین وجہ پاکستانی افواج کی عسکری محاذ پر غیرمعمولی قابلیت ،مشاق ہنر مندی اور بے پناہ مہارت ہے۔جس کی ساری دنیا معترف ہے۔ خاص طور پر جس طرح سے 27 فروری کو پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنے سے کئی گنا بڑی بھارتی فضائیہ کے دو عدد جنگی طیارے تباہ و برباد کر کے اُن کے ایک پائلٹ ابھینندن کو زندہ گرفتار کر کے بھارت کو دنیا بھر میں عبرت ناک ہزیمت اور شرمندگی سے دوچار کیا تھا ۔اُس کے بعد امریکا کے نزدیک بھارت کی عددی اہمیت توضرور ہوگی لیکن عسکری اہمیت بالکل بھی باقی نہیں رہی ہے۔ کیونکہ امریکا بخوبی جانتا ہے کہ چین کے خلاف کسی بھی قسم کے جنگی حالات میں بھارت کی سازشی اور مجرمانہ ذہنیت پر تو اعتبار کیا جاسکتاہے لیکن بھارتی افواج کی عسکری صلاحیت و قابلیت پر بھروسہ کرنا سخت رسوائی کا سبب بھی بن سکتاہے۔ اِن دو وجوہات کے پیش نظر امریکی انتظامیہ پاکستان جیسے طاقت ور اور سخت جان حریف کو اتنی آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہتی۔

دوسری جانب پاکستان کی مجبوری یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر روشن مستقبل کی شاہراہ پر نہیں چل سکتا، جو اپنا فطری اور روایتی حلیف بھارت کو سمجھتا ہو۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی بقاء کے لئے کلی طور پر امریکہ پر انحصار کی پالیسی یکسر تبدیل کر چکا ہے، خاص کر ایسے میں جب بھارت اور امریکہ کی تزویراتی شراکت داری ہر آنے والے دن کے ساتھ گہری سے گہری ہوتی جارہی ہو اور تاثر یہ پیدا ہورہا ہو کہ امریکا پاکستان کو بھارت کی ایک طفیلی ریاست بنا کر چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتاہے۔ ویسے بھی مثل مشہور ہے کہ ’’آپ کے دشمن کا دوست بھی آپ کا دشمن ہی ہوتاہے‘‘۔جبکہ سچ بھی یہ ہی ہے کہ جس قدر امریکا بھارت کے قریب ہوتا جائے گا ،اُتنا ہی وہ پاکستان سے دور ہوتا جائے گا۔ اس لیئے امریکا پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے جتنا چاہے اپنا سفارتی اثرو رسوخ استعمال کرلے ،اُسے کسی بھی صورت کامیابی حاصل ہونے والی نہیں ہے۔ بلکہ اِس امریکی پالیسی اُلٹا اثر یہ ہوگا ہے کہ پاکستان پہلے سے بھی زیادہ چین کے قریب ہوتا جائے گا۔ خاص طو رپر جس طرح سے امریکا نے گزشتہ چند برسوں میں بھارت کو دفاعی سازو سامان فراہم کرنے کی مہم شروع کی ہے ۔اُس کے بعد تو پاکستان نے بھی چین کے ساتھ اپنے دفاعی تعاون تعلقات آخری حد تک لے جانے کے لیئے کمر کس لی ہے۔ نیز پاکستان کے عسکری اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں معاونت کے علاوہ چین نے پاک چین معاشی راہداری (سی پیک) کے ذریعے اسے باقی کی دنیا سے ملانے کیلئے منصوبہ بندی کے ذریعے پاکستان کی اہمیت کو ازسرنو اجاگر کیا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان جو پہلے ہی سے مختلف قسم کے معاشی مسائل میں جکڑا ہوا ہے ۔ اَب اُس کے لیئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ امریکا بہادر کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر سی پیک سے جڑے ترقی کے امکانات سے ہاتھ دھو نے کی حماقت کرگزرے۔علاوہ ازیں سی پیک نہ صرف پاکستانی معیشت کیلئے بلکہ مجموعی طور پر پورے جنوب ایشائی خطے کیلئے ناگزیر ہے۔

بظاہر امریکا نے سی پیک کے متبادل عنقریب ایک بڑا عالمگیر تجارتی منصوبہ شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ لیکن عالمی ماہرین معیشت کی اکثریت سمجھتی ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی بھی نئے اور موثر عالمگیر تجارتی منصوبہ شروع کرنے میں امریکا نے بے حد تاخیر کر دی ہے۔اس لیے غالب امکان یہ ہی ہے کہ امریکا کی جانب سے سی پیک کے مخالف کوئی بھی تجارتی منصوبہ شروع کرنا وقت، پیسہ اور دیگر وسائل کے ضیاع کا باعث ہی ثابت ہوگا اور اس سے چین کی بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی اثرو نفوذ پر کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں امریکا کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیئے تجارت کے علاوہ کسی دوسرے میدان کا انتخاب کرنا ہوگا۔ ہمارے خیال میں امریکا چین کے خلاف بالکل ویسی ہی سرد جنگ شروع کرنے کا اراد ہ رکھتا ہے ،جیسی سرد جنگ ماضی میں اُس نے روس کے خلاف لڑی تھی ۔ مگر امریکا کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ چین کو اپنے علاقے میں بھارت کے علاوہ کم و بیش تمام پڑوسی ممالک کی بھرپور حمایت اور اعانت حاصل ہے ۔جبکہ امریکا کو ابھی تک اس خطے میں چین کا مقابلہ کرنے بھارت کے لیے کوئی دوسرا ملک بھی دستیاب نہیں ہوسکا۔ اَب امریکا کی پوری کوشش ہے کہ چین کے خلاف جلد ازجلد پاکستان کی حمایت حاصل کرلی جائے ۔مگر مسئلہ پھر وہی ہے کہ امریکا کے پاس جواب میں پاکستان کو دینے کے لیے کچھ بھی ایسا نہیں ہے ،جس کی عوض وہ پاک چین دوستی کو سودا کرسکے ۔ جہاں تک بات امریکی دھمکیوں اور دباؤ کی ہے تو پاکستان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ پاکستان امریکا کی رَگ رَ گ سے واقف ہے اور اگر پاکستان کو زیادہ تنگ کیا گیا تو وہ جواب میں امریکا کو رگیدنے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ کیسے ؟یہ ہی تو اصل سرپرائز ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر