وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاک روس خوشگوارتعلقات

هفته 10 اپریل 2021 پاک روس خوشگوارتعلقات

روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کے دورہ پاکستان کے حوالے سے اسلام آباد اور ماسکو دونوں پُرجوش ہیں روسی وزارتِ خارجہ نے پریس بریفنگ پاکستان کو خارجہ پالیسی میں ایک اہم شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور اِس کے اِداروں میں دونوں ممالک کے مفید اور ثمر آور روابط ہیں شاہ محمود قریشی نے بھی اِس دورے کو دوطرفہ تعلقات کا نیا رُخ کہتے ہوئے واضح کیا ہے بتدریج وسعت اختیار کرتی قرابت داری ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے مگر دونوں طر ف کے اچھے خیالات زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں ایکدوسرے کی طرف قدم بڑھاتے محتاط ہیں حالیہ دورہ ہی دیکھ لیں جو نو برس بعدممکن ہوا ہے ممکن ہے وجہ ماضی کی تلخیاں ہوں لیکن اب سرد جنگ کے کھلاڑی بدل رہے ہیں روس اور امریکا کی بجائے چین اور امریکا میں مقابلہ متوقع ہے جس کے لیے امریکا نے پیش قدمی کے طورپر مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان کی بجائے اپنی تو جہ بحرالکاہل کی طرف مبذول کر لی ہے اِس لیے بادی النظرمیں پاکستان امریکا کے لیے غیر اہم ہورہا ہے جس کا اظہار گزشتہ دنوں امریکی سفیر کیمرون منٹر نے بھی کیا امریکا کی روس کی بجائے توجہ چین کی بڑھتی طاقت کنٹرول کرنے پر ہے اِس لیے پاک روس تعلقات کو وسعت دیتے ہوئے اگر ماضی کو بھلا کر آگے بڑھیں تو ذیادہ سود مند ہوگاکیونکہ عالمی تنازعات پر دونوں کا نکتہ نظر ایک ہے روس کے پاس تونائی کے بے پناہ زخائر ہیں وہ یورپ کو گیس فراہم کرتا ہے جبکہ پاکستان میں کم ہوتے زخائر کی وجہ سے صنعتی وگھریلو صارفین کو طلب کے مطابق گیس کی فراہمی مشکل ترہورہی ہے اِس شعبے میں دونوں ممالک کا تعاون ترقی و خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔

سرد جنگ کے زمانے کے حریفوں میں تعاون کے امکانات کی تلاش جاری ہے چھ اپریل کو روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کی پاکستان آمد اسی سلسلے کی کڑی ہے مگرقرابت داری کی رفتار سُست ہے 2012 میںروسی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کادورہ کیا اُس کے بعداب سرگئی لاروف آئے پھر بھی یہ غیر معمولی اور خطے میں تشکیل پاتے نئے اتحاد کی نشاندہی ہے دونوں ملکوں کی طرف سے دورے کے حوالے سے کافی گرمجوشی کا اظہار ہو رہا ہے قریبی تعلقات کا مثبت اثرتجارتی شعبے میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے جہاں گزشتہ برس سے چھالیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آ اوریا باہمی تجارت کاحجم 790 ملین ڈالر ہو چکاہے لیکن روس کو برتری حاصل ہے ریلوے اور توانائی کے نظام میں بہتری لانے کے لیے دونوں ممالک میں گفتگو ہورہی ہے روسی سول ایئر کرافٹ کی فراہمی اور اسٹیل مل میں جدت لانے کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے پھربھی حالات ذیادہ حوصلہ افزا نہیں کیونکہ دفاعی اور انسدادِ دہشت گردی سمیت کئی امور پر اتفاق کے باجود تعاون محدود ہے روسی وزیرِ خارجہ کی سویلین اور عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقاتوں سے دوطرفہ تعلقات میں اضافے کی نئی راہیں تلاش کی جا سکتی ہے لیکن دونوں ملک ہنوزایک دوسرے سے محتاط ہیں جس کی وجوہات کئی ہو سکتی ہیں مگر بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستان سے تعلقات بہتر بناتے ہوئے رو س بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آج بھی وہ روسی اسلحے کا بڑا خریدار ہے روس عالمی برادری کا اہم ملک ہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رُکنیت ہونے کے ناطے وہ مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے مسلہ کشمیرکے نہ حل ہونے ایک وجہ روس ہی ہے جو استصواب رائے کے حوالے سے پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹوکرتا رہا پاکستان نے بھی امریکی کیمپ کا حصہ بن کر روس کی مخالفت کی اب اگر دونوں ملک ماضی کی تلخیاں بھلا کر روشن مستقبل کے لیے مل کر کام کریں تو ترقی و خوشحالی کا سفر آسان ہو سکتا ہے ۔

افغانستان میں جاری مصالحتی امن کے حوالے سے دونوں ملکوں کی سوچ ایک ہے بلکہ ماسکو اِس حوالے سے پاکستانی کوششوں کی تحسین کرتا ہے پھربھی محلِ وقوع اور بدلتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق جتنا قریب ہونا چاہیے تھا وہ صورتحال نہیں حالانکہ اٹھارہ مارچ کو افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ماسکو اجلا س کی کامیابی کے لیے پاکستان نے مخلصانہ کوشش کی ٹرائیکا اجلاس کی کامیابی میں پاکستان کا بڑاعمل دخل ہے پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ افغان امن عمل وسیع اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے دونوں ممالک کو مزید کام کی ضرورت ہے جس کے لیے بھارتی کردار میں کمی ضروری ہے کیونکہ بھارت کو افغانستان میں کردار دینا امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے خطے کو عدمِ استحکام کا شکار کرنے کی کی کسی کھلی چھوٹ کسی کے مفاد میں نہیں روس اور پاکستان میں ایک قدر اور مشترک ہے دونوں چین سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں مگر شک وشبہ سے دیکھنے کی روش ترک کرنا ہوگی ۔
پاکستان ایک امن پسند ملک ہے وہ کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا روس نے بھی جارحانہ طرزِ عمل ترک کر دیا ہے آزربائیجان جنگ میں الگ الگ موقف کے باجود پاکستان کریمیا کے روس سے الحاق کو جائز تصور کرتا ہے جوسردجنگ کے دوران پیداہونے والی رنجشیں کم کرنے کی کوشش ہے روسی ناراضگی ختم کرنے میں پہل تو پاکستان نے کی جب 2012 میں وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر اور آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس کا دورہ کیا اسی سال صدر آصف علی زرداری کی طرف سے روسی صدر پیوٹن کو بھی دورے کی دعوت دی گئی جو قبول بھی ہو گئی مگر چند وجوہات کی بنا پرطے شدہ دورہ منسوخ ہوگیا لیکن روسی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا جس کے دوران تعاون کے امکانات کا جائزہ لیا گیا اب نو برس کے وقفے کے بعد سرگئی لاروف کی آمد سے ماضی کی ناراضگی ختم ہوتی ہے یا نہیں حالات سے یہی تاثر ملتا ہے کہ دونوں ملک بغلگیر ہوتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں حالانکہ بدلتے مفادات کے تناظر میں عالمی طاقتیں جب تعلقات کا رُخ بدل رہی ہے تو یکساں نکتہ نظر کے حامل روس وپاکستان کو بھی ماضی کی تلخیاں بھلا کر سنجیدگی سے ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے ۔

پاک روس مراسم اِتنے بھی خراب نہیں رہے بلکہ دوستانہ اور تعمیری ہیں اگر امریکا نے افغان معاہدے پر نظرثانی کا عندیہ دے رکھا ہے اور طالبان و حکومت کے مزاکرات میں تعطل ہے لیکن روس پاکستان سے مل کر امن کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے 75ویں اجلاس میں روس کی پیش کردہ تمام قراردادوں کی حمایت کی لیکن معاشی ،تجارتی اور دفاعی شعبوں میں تعلقات اُس نہج تک نہیں جودو قریبی شراکت دار ممالک میں ہونے چاہئیں دروزبا یعنی دوستی اور عربین مون سون مشقیں محدود تعاون کی عکاس ہیں حالانکہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک رسائی کے لیے روس کی معاونت کر سکتا ہے لیکن روسی قیادت پر بھارتی اثرات میں کمی ضروری ہے عمران خان کی دعوت پر روسی صدر پیوٹن اگر پاکستان کا دورہ کرتے ہیں تو اِس سے دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں اور چین و روس قرابت داری میں پاکستان کا جگہ بنا نے میں کامیابی حاصل کر سکتاہے کیونکہ خراب معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے قرضوں کی بجائے چین وروس کے تعاون سے معیشت میں بہتری آئے گی پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر روسی وزیر خارجہ کا اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق بشمول کشمیر تنازعات کے حل پر اتفاق کرناکافی اہم پیش رفت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر