وجود

... loading ...

وجود
وجود

اور سبھی جیت گئے

هفته 10 اپریل 2021 اور سبھی جیت گئے

رنگ صحرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راناخالد قمر

حکومت اوراس کو لانے والی اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کی جماعتوں کے درمیان جاری میچ شروع میں تو یک طرفہ دکھائی دیتاتھا۔ نوازشریف کی مجھے کیوں نکالا سے ووٹ کوعزت دو تک کی مہم بھی خاطرخواہ نتائج دکھانے میں کامیاب نہ ہوئی توشہبازشریف کوآگے لایاگیا۔نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز سمیت جیل چلے گئے اس دوران پارٹی کی کمان میاں شہبازشریف کے ہاتھ میں رہی وہ اپنی ”طرز”کی سیاست کرتے رہے ان کے کسی فیصلے کو پارٹی یاخاندانی سطح پرکسی جگہ چیلنج نہ کیاگیا۔وہ قومی اسمبلی کے فلورپرایک آدھ جذباتی تقریرکرکے اپنے” سپورٹرز”کالہوگرماتے اوردادپاتے رہے وہ کبھی کبھار “اشاروں” کی زباں بھی بولنے لگتے جسے شہبازگل ‘فردوس اعوان جیسے مخالف سی وی پیش کرنے کی کوشش قراردیتے۔ حمزہ شہباز شریف بھی اپنے والدصاحب کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بہت محتاط گفتگوکرتے اوراگرکبھی کوئی رپورٹر اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے سوال داغ دیتاتوحمزہ شریف منہ”میچ”لیتے باپ بیٹے کی اس محتاط سیاسی اننگز کے باوجودکپتان اوراسکی ٹیم کے باؤلر ان دونوں کوباؤنسر کرانے سے بازنہ آتے یوں لگتا کہ جیسے عمران خان ان دونوں کواپنے لیے نوازشریف سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے اور وہ ان کے ”بندوبست”کے لیے جتن کرتے رہتے آخر کاروہ اس میں کامیاب ہوگئے پہلے بیٹاجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیااورپھر ابوجی کانمبربھی لگ گیا۔

شہبازشریف اورحمزہ کی جیل یاترا سے عمران خان کوقدرے سکون ملالیکن یہ بھی عارضی ثابت ہوا کہ مریم نوازشریف کاٹویٹراچانک فعال ہوگیا ساتھ ہی مریم نوازشریف نے سیاسی میدان کوبھی گرمانا شروع کردیا وہ وقتی ریلیف جوشہبازشریف کی جیل یاترا سے خان کوملاتھا وہ غارت ہوتادکھائی دیااسٹیبلشمنٹ کی شہبازشریف سے اسٹیبلشمنٹ کی ملاقاتوں بارے زرائع سے خبریں آنے لگیں کہ شہبازشریف کوفلاں پیشکش ہوئی۔ اب یہ مریم نواز کے فعال ہونے کا خوف تھا یا نواز شریف کا بیانیہ وجہ بنی یہ اللہ ہی جانتا ہے البتہ شہباز شریف کوڈرایا’دھمکایا اورلالچ بھی دیاگیا لیکن وہ ہمیشہ کے ضدی انسان کہاں ٹس سے مس ہونے والے تھے انہوں نے آنے والی ہرآفرکی منظوری کے لیے اپنے بڑے بھائی اورپارٹی قائد کی جانب ہی دیکھا کئی ماہ کی ”مشق”بھی ن لیگ کے صدر کو راضی نہ کرسکی اور یوں یہ پہلاراؤنڈ شہبازشریف جیت گئے۔ دوسری جانب عمران خان جو چوروں ‘ڈاکوؤں کوجیل بھیجنے کے نعرے سے اقتدارمیں آئے تھے وہ نیب کی مدد سے پنجاب کے ان دو”سورماؤں ”کوجیل بھیج کراپنے سپورٹرزکویہ باورکرانے میں کامیاب رہے کہ وہ جیت گئے ہیں اور اپنا وعدہ پورا کردیا ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جس کا ملکی سیاست میں ہمیشہ سے ہی کرداررہاہے اس نے جوسفرعمران خان کے ساتھ 2011 میں مینارپاکستان کے جلسہ سے شروع کیاتھا وہ انہیں اقتداردلانے تک کامیابی سے مکمل ہوالیکن یہ اس کامیابی کاپہلافیزتھا۔ 2018 ئ￿ کے الیکشن میں عمران خان کی جیت سے جودوسرافیز شروع ہوا وہ اس وقت دشوار ہوگیا جب مولانافضل الرحمان کی قیادت میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اپوزیشن اتحادسامنے آیا۔

یہ گذشتہ دو سال میں مقتدرہ کے لیے سب سے بڑاچیلنج تھا۔ ایک جانب تجربہ کارسیاسی قیادت تھی تو دوسری جانب وہ اسٹیبلشمنٹ جس کا ملکی سیاست کو قابو میں رکھنے کا 72 سال کا تجربہ ہے۔ سیاست کے اس میدان میں سیاسی داؤ بیچ چلنے کاآغاز ہواتو سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے گوجرانوالہ کے جلسے میں آرمی چیف اورڈی جی آئی ایس آئی کے نام لے کر انہیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
وہ اسٹیبلشمنٹ جسے اب تک کسی بڑے چیلنج کاسامنانہیں کرناپڑاتھا اسے خودساختہ جلاوطن نوازشریف نے دیوارکے ساتھ لگادیا۔ سیاست کا میدان چونکہ گرم ہو چکا تھا اس لیے سیاسی ”کھلاڑی” اپنی اپنی چالیں چلنے لگے کبھی پیادہ مارا جاتاتوکبھی وزیرکی باری لگ جاتی۔ نوازشریف اقتدارسے محرومی کے بعدووٹ کوعزت دو کابیانہ لے کرچلے تھے اپنی سیاسی چالوں اوراپنی بیٹی مریم نوازشریف کی سیاسی میدان میں زوردارانٹری سے وہ اپنا بیانیہ عوام سے منوانے میں کامیاب رہے لیکن سیاست کی بساط ابھی پلٹی نہیں تھی کہ مقتدرہ نے ایک بہت خطرناک چال چلی وہ عمران خان کے ذریعے سندھ حکومت پردباؤ بڑھانے لگی۔ اے جی مجید سے آصف علی زرداری تک سبھی کورٹ کچہریوں کے چکرکاٹنے لگے آصف علی زرداری بھی ”ماہر”کھلاڑی ہیں انہوں نے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے پی ڈی ایم کے فورم کوبھرپور اندازمیں استعمال کرنے کاپروگرام بنایا ادھرمولانافضل الرحمان ‘مریم نوازشریف اوردیگرقائدین حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پرچڑھائی کرتے ادھرآصف علی زرداری ایک قدم آگے بڑھ جاتے۔ وہ غیرمحسوس انداز میں پیش قدمی کرتے گئے اورپھر وہ دن آگیا جب سیاست کی شطرنج پرسب سے بڑی ”چال”چلی گئی آصف علی زرداری جو پی ڈی ایم میں اس لیے شامل ہوئے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ پچھاڑیں گے انہوں نے اس اتحاد کو ہی شہ مات دیدی جو عمران اور اس کے سر پرستوں کو ناکوں چنے چبوانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ ان کی ایک ہی چال سے پی ڈی ایم تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اورجوکام عمران خان ‘مقتدرہ مل کربھی تین سال میں نہ کرسکے تھے وہ آصف علی زرداری نے ایک ہی چال سے کردیا۔ اس طرح عمران خان ‘ آصف علی زرداری اور مقتدرہ مشترکہ طورپرجیت گئے۔ اس جیت سے بھی دو معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ ایک جانب اگر پی ڈی ایم کو وقتی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے تو دوسری جانب عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا ایک صفحہ بھی اب “ایک” نہیں رہا۔

اس صفحے پر اب عمران خان اکلوتے نہیں ہیں بلکہ آصف علی زرداری بھی “سوار” ہو چکے ہیں۔ اب اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں کہ اگر عمران خان۔ اسٹیبلشمنٹ اور آصف علی زرداری جیت چکے ہیں تو پھر شہباز شریف اور ان کے صاحب زادے کے ہاتھ کیا آیا کیا ان کو اپنے مفاہمتی بیانیے سمیت شکست ہوئی۔ جی نہیں ایسانہیں ہے شہبازشریف ‘حمزہ شہباز تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود اپنے قائد نوازشریف سے وفادار رہے۔ اس طرح وہ دونوں بھی جیت گئے۔ نوازشریف اور مریم نوازشریف جس بیانیے کولے کرچلے تھے وہ منوانے میں کامیاب ہوئے اس طرح وہ بھی جیت گئے ‘عمران خان جو نہیں چھوڑوں گا جیسے نعرے کے ساتھ اقتدارمیں آئے تھے وہ نوازشریف ‘آصف علی زرداری سے شہبازشریف اور حمزہ شہبازشریف تک تقریبا اپنے تمام مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے میں کامیاب ہوئے اس لیے وہ بھی جیت گئے۔ آصف علی زرداری اپنی سندھ حکومت بچانے اورآئندہ وفاقی حکومت کی یقین دہانی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اس طرح وہ بھی جیت گئے ‘ اسٹیبلشمنٹ کے لیے پی ڈی ایم دردسر بناہواتھا اس کا”مکو” ٹھپ دیا گیا۔ اسی بنیاد پر وہ عمران خان کی حکومت کوبچانے میں کامیاب ہوگئی اس طرح وہ بھی جیت گئی اگرہم ان تمام مرکزی کرداروں کی سیاسی چالوں اورداؤ پیچ کوغورسے دیکھیں توہم اس نتیجہ پرپہنچتے ہیں کہ ۔۔۔ اور سبھی جیت گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر