وجود

... loading ...

وجود
وجود

علاقائی طاقت کے حالات

بدھ 07 اپریل 2021 علاقائی طاقت کے حالات

بھارت کی وسطی ریاست چھتیس گڑھ میں مائونواز باغیوںنے فورسزپر پہلی بار حملہ نہیں کیابلکہ یہاں فورسز پر حملے اورجانی نقصان معمول ہے لیکن تین اپریل جیسا بڑا حملہ آٹھ برس کے وقفے کے بعد ہوا ہے 2010 میں موجودہ حملہ آور گروپ نے 76سیکورٹی اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اُتاراجبکہ 2013کے دوران کانگرس کے محو سفر قافلے پر حملہ کیا اور پوری ریاستی قیادت مارڈالی مغربی بنگال کی تحصیل نکسل کی مناسبت سے مائوزنوازمسلح تحریک کو نکسل باٖغی بھی کہا جاتا ہے یہ لوگ خود کو ہندوقوم سے الگ سمجھتے ہیں لیکن ہندو ایسا نہیں سمجھتے حکومت کا خیال ہے کہ اِس تحریک کے نیپالی جرائم پیشہ تنظیموں سے روابط ہیں مائوزے تنگ سے عقیدت کی بنا پر چین کا ہاتھ بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن برسرے عام تذکرہ نہیں کیا جاتا1967سے جاری اِس تحریک کے پھلنے پھولنے کی ایک وجہ سماجی عدم مساوات بھی ہے پن بجلی کے زخائر اورمعدنیات کی دولت سے مالا مال جنگلات وپہاڑیوں میں گھرا یہ علاقہ مائو نوازوں کا مرکز ہے یہاں باغی ترنگا نہیں لہرانے دیا جاتا اسی لیے سرکاری عمارتوں پرصرف تقریبات کے دوران پرچم لہرایا جاتا ہے یہاں سرکاری ملازمین تک حریت پسندوں کے ہم نوا ہیں مائو نواز باغیوں کے پاس لڑنے کے لیے جو اسلحہ ہے وہ ذیادہ تر یا تو فوج سے چھینا گیا ہے یا پھر فوجی بھگوڑوں سے خریدا گیا ہے یہ گوریلا جنگ کے ماہر ہیں اچانک حملہ کرتے ہیں فورسز کو نقصان پہنچاتے اور پھر جنگلات یاپہاڑوں میں روپوش ہوجاتے ہیں ۔

چھتیس گڑھ میں تین اپریل ہفتہ کی دوپہر ہونے والے حملے کے دوران دوبدولڑائی ہوئی جو چارگھنٹے سے زائدجاری رہی حیران کُن بات یہ ہے کہ علاقائی طاقت ہونے کے دعویدار بھارت کے دوہزارفوجی ایک مخبرکی جھوٹی اطلاع پر محض اِس وجہ سے نکل پڑے تاکہ پیپلز لبریشن آرمی کی بٹالین ایک کے کمانڈر چالیس سالہ ہدما کے سر کی قیمت چالیس لاکھ حاصل کی جا سکے مگر گھات لگائے چار سو کے لگ بھگ باغی چڑھ دوڑے اِس اچانک حملے میںفوجیوں نے مقابلے کی بجائے بھاگنے کی حکمتِ عملی اپنائی تبھی مرنے والوں کی تعداد تیس اور زخمیوں کی تعداد پچاس سے تجاوزکر گئی اگر فرار کی بجائے فوجی مقابلہ کرتے تو نقصان اِتنا نہ ہوتا نہ ہی باغی اسلحہ اور گاڑیاں چھین کر لے جاتے واقعہ کا مزید حیران کُن پہلو یہ ہے کہ بھاگتے ہوئے بزدل فوجیوں نے مرنے والے ساتھیوں کی لاشیںاُٹھانے کی بھی زحمت نہ کی بے بسی سے مرنے والے فوجیوں کی بکھری لاشوں کو رپورٹرز نے ٹی وی کے ذریعے پورے ملک کو دکھاکر علاقائی طاقت کی قلعی کھول دی دوہزار تربیت یافتہ فوجیوں پرچارسو غیرتربیت یافتہ لڑاکوں کا حاوی ہونا فورسزکی ناقص اور پست کارکردگی کو عیاں کرتا ہے اور ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ بھارتی فوج اندرونی اور بیرونی محازوں کا سامنا کرنے کے قابل نہیں حکومت کی بے بسی دیکھیے حالیہ تصادم کا الزام پلوامہ ،پارلیمان ،پٹھانکوٹ اور اڑی حملوں کی طرح کسی ہمسائے پر بھی نہیں لگا سکتی اگر اقلیتوں سے شناخت چھیننے پر نظرثانی نہیں کی جاتی اورعدم مساوات جیسے مسائل حل نہیں کیے جاتے تو بھارت کے بکھرنے کا عمل ختم نہیں ہوگا۔

اہلیت نہ ہونے کے باوجودبھارت علاقائی طاقت بننے کے لیے کوشاں ہے لیکن بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے ذیادہ علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں بدامنی پر قابو پانے سے قاصر اور بددلی کے گرداب میں پھنسی فوج کے باوجود جب جنونی اور انتہاپسند بھارتی قیادت علاقائی طاقت یا منی سُپرپاور کے دعوے کرتی ہے تو کوئی تسلیم نہیں کر سکتا کیونکہ کشمیر سے لیکر چھتیس گڑھ تک بھارت میں علیحدگی پسند سرگرم ہیں جنھیں کچلنے کی استعداد سے نہ صرف بھارتی فوج محروم ہے بلکہ فوجی پیشہ وارانہ سرگرمیوں سے بددل ہیں اسی لیے خودکشیوں میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے بلکہ فرار ہونے والے فوجیوں کی شرح بھی بڑھ گئی ہے فوج میں خوراک ،آرام اور چھٹیوں میں بھی مذہبی ،لسانی ،علاقائی اور قومیت کی بنیادپر تفریق کی جاتی ہے جس کاادراک کرتے ہوئے آرمی چیف اعتراف کر چکے ہیں کہ بھارت بیک وقت اڑھائی جنگیں نہیں لڑ سکتا پاکستان اور چین سے ہونے والی جھڑپوں میں تو وقفہ بھی آتا رہتا ہے لیکن ملک میں جاری آدھی جنگ تو بغیر کسی وقفے کے جاری ہے جس میں وقت کے ساتھ کمی آنے کی بجائے اب مزید تیزی آرہی ہے جس کی وجوہات میںانسانی حقوق کی پامالی ہے وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے وہ تو کانگریس کی طرح زبانی کلامی مذہبی آزادی کی بھی روادار نہیں اسی لیے اقلیتیں اپنی شناخت کی بحالی کے لیے مسلح جدوجہد کی طرف گامزن ہیں مائو نواز باغی بھی اسی بنا پر علیحدگی کی روش اپنانے پر مجبور ہوئے ہیں ۔

بھارت امن پسند ریاست نہیں بلکہ ہمسایہ ممالک کے بارے جارحانہ عزائم رکھتا ہے تبت کے دلائی لامہ کی پشت پناہی کے سبب چین سے اختلافات کی خلیج پیدا ہوئی پاکستان میں بھارتی مداخلت تو روزِ روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے نیپال ،سری لنکا،بھوٹان اور ما لدیپ تک تمام ممالک بھارتی مداخلت پرخفا ہیں بنگلہ دیش جسے پاکستان سے الگ کرنے کے لیے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور بے گناہ بنگالیوں کوقتل کرنے کے بعد پاک فوج کو ذمہ دار قراردینے کے بہتان لگائے آج اُسی بنگلہ دیش میں بھارت کے بارے نفرت عروج پر ہے جس کا مظاہرہ نریندرمودی کی ڈھاکہ آمدسے دارالحکومت سے لیکرآسام ،سہلٹ اور چٹاگانگ تک ہونے والے مظاہروں میں دیکھنے کو ملا عوام میں یہ نفرت اتنی شدید ہے کہ بنگالیوں نے ڈیڑھ درجن جانیں تک گنوا دیں اِن حالات میں علاقائی طاقت کادعویٰ بھلاکون تسلیم کر سکتا ہے یہ درست ہے کہ بھارت کو امریکی پسندیدگی کا درجہ حاصل ہے کیونکہ وہ چین کا گھیرائو کرنے کے لیے بھارت ،جاپان ،آسٹریلیا سے مل کر کوشاں ہے مگر امریکی ترجیحات حاصل کرنے کے لیے بھارت موزوں نہیںکیونکہ ڈوکلام سے لیکر لداخ تک بھارتی فوج کی پٹائی اِس امر کی شاہد ہے کہ دعوے اور حقیقت میں بہت فرق ہے کشمیر ،آسام ،تری پورہ ،جھاڑ کھنڈ،اتر پردیش،مہاراشٹر ،بہار،آندھراپردیش اور مغربی بنگال میں کئی علاقوں میں آج بھی بھارت کی رَٹ نہیں بلکہ باغیوں کا حکم چلتا ہے لوگ بھارتی ترنگالہرانے سے قاصر ہیں یہ صورتحال کسی علاقائی طاقت کے نہیں بلکہ حصوں بخروں میں تقسیم ہوتی ریاست کے ہی ہو سکتے ہیں۔

ایٹمی ہتھیاروں ،میزائلوں ،ٹینکوں اور طیاروں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جنگیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں جس کا بھارتی فوج میں فقدان ہے دو برس قبل فروری میں ہونے والی فضائی جھڑپ کے دوران یہ حقیقت سب پر آشکار ہوچکی نہ صرف بھارت نے منہ کی کھائی بلکہ دوطیاروں کا نقصان تک برداشت کرنا پڑا مگر نریندرمودی کی ڈھٹائی ملاحظہ کریں شکست کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر فرانسیسی رافیل جنگی طیارے ہوتے تو حالات مختلف ہوتے اب بھی وقت ہے کہ انتہاپسند جنونی بھارتی حکمران ریشہ دوانیاں چھوڑ کر خطے میں امن قائم کرنے کے لیے کشمیر جیسا دیرینہ مسلہ حل کرنے میں سنجیدگی اختیار کریںاور ملک میں وسائل کی تقسیم میں مساوات سے کام لیں تو نہ صرف بھارت ٹوٹنے و بکھرنے سے بچ سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی خرید پر ضاعء ہونے والا اربوں روپیہ عوام کی ترقی وخوشحالی پر لگانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے لیکن بھارتی قیادت کے اطوار سے ہویدا ہے کہ وہ ملک میں جنونیت کی فضا سے اقتدار میں رہنے کو ہی عزیز تصور کر تی ہے لیکن اِس طرح غربت وبے روزگار ی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ ہی تیز ہو سکتی ہے جس سے علاقائی طاقت بننے کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر