وجود

... loading ...

وجود
وجود

فیصلہ اٹل ہے

منگل 06 اپریل 2021 فیصلہ اٹل ہے

فیصلہ ہوچکا کوئی تسلیم کرے نہ کرے اس کی مرضی ۔خدا اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو ،اب دنیا بھرکے ا سکالر، دانشور،مذہبی سیاسی رہنما ڈھنڈورا پیٹتے پھریں لاکھ دلیلیں دیں کوئی فرق نہیں پڑتا فیصلہ اٹل ہے۔درویش نے عقیدت مندوںکی طرف محبت سے دیکھا ،ان کے چہرے پر تبسم تھا انہوںنے کہا تبدیلی انسان کے اندر سے آتی ہے ،اب تو یہ چلن عام ہے کہ ہم خود کو درست قراردیتے ہیں اپنے ہر فعل کو درست سمجھنے لگے ہیں یعنی خود تبدیل نہیں ہونا چاہتے ،خواہش ہے کہ دوسرے تبدیل ہوجائیں اس خواہش نے کتنے مسائل پیدا کرکے رکھ دئیے ہیں اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کئی دن پہلے ایک صاحب یہاں تشریف لائے انہوںنے باتوں باتوںمیں جارج برنارڈ شاہ کا ایک قول دہرایا’’ تبدیلی کے بغیر ترقی ناممکن ہے اور جولوگ خود اپنی سوچ تبدیل نہیں کر سکتے وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے‘‘۔ حالانکہ اس کا انکشاف صدیوں پہلے آخری الہامی کتاب میں کردیا گیا تھا یہ خداکا فیصلہ ہے اس سے انکارکی کوئی گنجائش نہیں لیکن ایک بات ہے جو وقت ہم دوسروں پر تنقید میں گذاردیتے ہیں اگروہی وقت خود کو سنوارنے میںگذاریں تو کتنا بہترہے کسی کو تبدیل کرنا آپ کے اختیارمیں نہیں لیکن خودکو تبدیل کرنا آپ کے اپنے اختیار میں ضرورہے دنیا کو بدلنے کی کوشش عبث ہے دنیا کو نہ بدلیں خودکو بدلیں یقین جانیں سب کچھ بدل جائے گا دوسروںکو تبدیل کرنے کی خواہش درحقیقت قول و فعل کا کھلا تضادہے جو اکثرلوگوں کو نظرنہیں آتا۔۔تبدیلی نظر آتی ہے ۔تبدیلی نظر آنی چاہیے اس کے بغیر سب کھوکھلی باتیں ہیں اے لوگو!غور سے سنو درویش نے دائیں ہاتھ کی انگشت بلندکرتے ہوئے کہا اپنے آپ کو تبدیل کرنے کی خواہش اس بات کی علامت ہے کہ آپ اپنے موجودہ ماحول سے چھٹکارا چاہتے ہیں فقط باتیں کرتے رہنے سے تبدیلی نہیں آسکتی ۔

ہمارے پاس رہنمائی کے لیے اسلاف کی درخشندہ روایات ہیں جن پرفخرکیا جا سکتاہے جس طرح انصاف ہوتا نظر آناچاہیے اسی طرح تبدیلی بھی نظر آنی چاہیے اس کے بغیر کوئی مثال نہیں دی جا سکتی۔ فیصلہ ہوچکا کوئی تسلیم کرے نہ کرے اس کی مرضی ۔خدا اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو اب دنیا بھرکے ا سکالر، دانشور،مذہبی سیاسی رہنما ڈھنڈورا پیٹتے پھریں لاکھ دلیلیں دیں کوئی فرق نہیں پڑتا فیصلہ اٹل ہے۔درویش نے لوگو!غور سے سنو سمجھو گے تو احساس ہوگا تبدیلی کیا چیزہے تاریخ کا مطالعہ کیا کرو تاریخ تو آئینہ کی مانند ہوتی ہے ،یہ دونوں تاریخ اور آئینہ بڑے ظالم ہیں سب کچھ سچ سچ بتا دیتے ہیں کسی لگی لپٹی کے بغیر۔ ان کو ڈر بھی نہیں لگتا کہ کوئی ناراض ہوجائے گا۔ یہ الگ بات کوئی ان سے سیکھنا نہیں چاہتا۔۔ نبی ٔ آخرالزمان ﷺ نے جب نبوت کااعلان کیا عرب کی کیا حالت تھی سب پر آشکارہے جہالت کی انتہا تھی۔۔ بتوںکی پر ستش عام تھی۔۔ اکثر پھول جیسی بیٹیوںکو زندہ درگورکردیا کرتے آپ کی تعلیمات نے ایک وحشی اور جنگجو معاشرے میں انقلاب بپاکردیاآقا ﷺ کی عظیم قیادت کے طفیل مسلمان پوری دنیا پر چھا گئے تبدیلی اسے کہتے ہیں ۔تبدیلی ایسے آتی ہے۔

کئی مثالیں آپ بھی دے سکتے ہیں آپ کے علم میں بھی ہوگا ایک بات طے ہے تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کیا جائے اس کے لیے سب سے پہلے سوچ تبدیل کرنی ہوگا یہی نقطہ ٔ آغازہے اور ٹرننگ پوائنٹ بھی۔ہندوستان کو لے لیں مسلمانوںکی آمدسے پہلے یہاںکی تہذیب و تمدن کا مطالعہ کرلیں ہندو تنگ و تاریک گھروں میں رہنا پسندکرتے تھے شاید اسی لیے آج بھی تنگ نظرہیں دریا اورسمندر میں سفرکرنے کو گناہ سمجھا جاتا تھا۔ نچلی ذات کے لوگوںکے لئے مذہبی کتاب پڑھنے اور سننے پر پابندی تھی۔۔ خاوند مرجاتا تو بیوی کو آگ میں زندہ جلاکر ستی کردیا جاتا دوسری شادی ممنوع تھی۔ انتہا پسندی اور پرلے درجے کے متعصب ہونے کے باوجود اب بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ماضی جیسا تعصب نہیں ؎کیونکہ اس کے رہنمائوں نے بھارت پر سیکولر ازم کا لبادہ اوڑھ دیاہے مسلمان، سکھ عیسائی اور دیگر اقلیتیں اب بھی پریشان ہیں انتہا پسند ہندو آئے روز گل کھلاتے رہتے ہیں لیکن کھلم کھلا سرکار ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی دنیا کو دکھانے کے لیے مذمت کی جاتی ہے یہ منافقت ہندوئوںکا طرہ ٔ امتیاز ہمیشہ رہاہے لیکن آپ محسوس کریں ہندو معاشرہ میں پھر بھی بہت تبدیلی واقع ہوئی ہے کبھی پانی میں سفرکو گناہ سمجھنے والے ہندوشاید روشن خیال ؟؟ہوتے جارہے ہیں تبی اب انڈیا آبدوزیں تیارکررہاہے۔پسماندہ علاقوںمیں اب بھی بہت جہالت ہے عورت کو ستی کرنے کے واقعات کبھی کبھی سننے کو ملتے ہیں ۔

درویش نے کہا دور نہ جائیں جب قسطنطنیہ ،ترکی جیسے مسلم آبادی کے علاقے ترقی یافتہ تھے اس پیرس، نیویارک میں کیچڑ سے لتھڑی سڑکیں تھیں ۔ چین پاکستان سے بعدمیں آزادہوا اب اس کی ترقی نے جاپان،جرمن اور امریکہ کو مات دیدی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی ترقی تو جیسے کل کی بات ہو۔ یہ سب تبدیلی کے شاہکارہیں۔۔ اتنی ترقی ہم بھی کرسکتے ہیں یہ کوئی مشکل کام نہیں تبدیلی کا آغاز اپنے آپ سے کیا جانا لازم ہے اس کے لیے سب سے پہلے سوچ تبدیل کرنی ہوگا یہی نقطہ ٔ آغازہے اور ٹرننگ پوائنٹ بھی۔ ارادہ کرلیں تو دنیا کا کوئی کام ناممکن نہیں سفر100کوس کا ہو یا ایک کوس کا اسے طے کرنے کے لیے اقدم اٹھانا پڑتاہے پہلا قدم ہی سفرکی جانب آغازکا سبب بنتا ہے تو پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پہلا قدم اٹھائیں یہ قدم ترقی کی جانب تبدیلی کی جانب بڑھتا چلا جائے گا فیصلہ ہوچکا کوئی تسلیم کرے نہ کرے اس کی مرضی :خدا اس وقت تک اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک خود اس کو اپنی حالت بدلنے کا احساس نہ ہو اب دنیا بھرکے سکالر، دانشور،مذہبی سیاسی رہنما ڈھنڈورا پیٹتے پھریں لاکھ دلیلیں دیں کوئی فرق نہیں پڑتا فیصلہ اٹل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر