وجود

... loading ...

وجود
وجود

پرنس ہیری کا انٹرویو اور برطانوی بادشاہت

هفته 13 مارچ 2021 پرنس ہیری کا انٹرویو اور برطانوی بادشاہت

(مہمان کالم)

ہیملٹن نولان

آپ پرنس ہیری کا حالیہ انٹرویو تو سن چکے ہوں گے جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح برطانوی بادشاہت غیبت اور نسل پرستی کا گہوارا بن چکی ہے۔ اس حقیقت پر کس کو شک ہوگا؟ یہ تسلیم کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ اشرافیہ کا عکاس یہ ادارہ کس طرح انسانیت سے عاری ہو چکا ہے۔ ان ناخوشگوار انکشافات کے بعد عوام میں یہ تاثر بہت پختہ ہو گیا ہے کہ ہمیں اپنی بادشاہت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے مگر! نہیں بالکل بھی نہیں! آپ زہر کی بوتل میں جتنا مرضی رس گھولتے رہیں‘ اسے کسی صحت افزا مشروب میں تبدیل نہیں کر سکتے۔ ان انکشافا ت کے بعد ظاہر ہونے والے عوامی ردعمل سے ہم نے یہ بات ضرور سیکھ لی ہے کہ برطانیا کے تمام شہریوں کو متحد ہو جانا چاہئے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی بادشاہت کے گرد گھیرا ڈالنا چاہئے اور پھر بادشاہت کے اس مجسمے کو پاش پاش کر دینا چاہئے۔ اس دوران اپنے جذبے کو جوان رکھنے کے لیے ’’سویٹ کیرولین‘‘ کا نغمہ بھی الاپتے رہنا چاہئے۔ پھر شاہی خاندان کے افراد کو چاہئے کہ وہ رسمی طور پر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں۔ بادشاہت کا وجود اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ حکومت عوام کا خیال رکھ سکتی ہے نہ رکھتی ہے اور نہ اس میں عوام کے سلگتے مسائل کو حل کرنے کی استطاعت موجود ہے۔ اس کے برعکس یہ ماضی کی گئی گزری شان و شوکت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔ محض ایک خاندان کی پْرتعیش اور آرام دہ زندگی کو پریوں کی کسی کہانی کی طرح بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور دکھانا بہت آسان کام ہے جبکہ ایک پْرمشقت مگر شائستہ اطوار روز مرہ زندگی گزارنے والی سنگل فیملی کو اعلیٰ معیار کی عزت اور احترام دینا ایک مشکل کام ہے۔ ایک عام آدمی اس اشرافیہ کے لائف ا سٹائل کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی کمائی میں سے فنڈز اور وسائل فراہم کرتا ہے جس کی وہ مستحق نہیں ہے حالانکہ ہونا تو اس کے بالکل برعکس چاہئے۔ کوئی بھی قوم جو اکیسویں صدی میں بھی بادشاہت کا جھمیلا پالے ہوئے ہے‘ درحقیقت اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ ہمارے پا س ابھی تک انقلابی سمجھ بوجھ اور فہم و فراست کا کس قدرفقدان ہے۔

 

امریکا انسانیت کے خلاف اپنے کئی گھنائونے جرائم پر شرمندگی محسوس کرتا ہے مگر اس ایک معاملے میں ہم نے وقت پر ہی اپنی سمت درست کر لی تھی۔ ہمارے صدر کئی مرتبہ پوری قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں مگر ہمیں اس طرح کے داغ نہیں دھونے پڑتے اور نہ ہی ایسی اشرافیہ کے آگے اپنا سرنگوں کرنا پڑتا ہے جو اس بنا پر اپنی عظمت اور برتری کا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کے بیٹے کے بیٹے کے بیٹے ہیں جو صدیوں پہلے اس قوم کا سب سے بڑا لٹیرا تھا۔ معروف لوگوں کے ساتھ ہمارے اپنے نفسیاتی مسائل ہیں مگر بادشاہت تو ایک الگ نوعیت کی مسخ شدہ شکل ہے۔ بش فیملی، کارڈیشین فیملی اور فال ویلز فیملی‘ سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی جعلی یا کوئی اور شہرت جڑی ہوئی ہے مگر انجام کار یہ کسی نہ کسی استعماری حوالے کے ساتھ ہی منسلک نکلتی ہے۔ اگر عدم مساوات پر مبنی یہ پرستش نہ ہو تو بادشاہت کے پاس کیا بچتا ہے؟ اس کے احترام کی بنیاد کسی اخلاقیات پر نہیں بلکہ ایک اتفاقیہ وراثتی تعلق پر استوار ہے جس میں لوگوں کا ایک چھوٹا سا گروہ عوام کے اکٹھے کیے ہوئے پیسوں کی مدد سے ایک پْرتعیش زندگی گزارتا ہے اور ان کی دیوتائوں کی طرح پرستش کی جاتی ہے۔ اس کے بدلے میں ان کی ڈیوٹی صرف اتنی ہے کہ عوام میں اپنا خوشگوار امیج برقرار رکھیں اور اس میں بھی وہ برائے نام حد تک ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔

 

غربت کی چکی میں پسنے والے چھ کروڑ عوام کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ ان کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج اور نفرت کا اظہار کرنے کے بجائے اظہارِ الفت کریں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ یہ سوچ کر ہی خوش ہو لیا کریں کہ اگر وہ نہیں تو کم از کم کوئی تو ہے جو ان کی ڈریم لائف گزار رہا ہے۔ انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ سب کے لیے مساوات پر مبنی زندگی کا مطالبہ کریں۔ اگر آپ کارل مارکس کی کوئی کتاب پڑھنے کے بجائے اپنا وقت اس شو کو دیکھنے میں گزاریں گے تو بادشاہ یا ملکہ آپ کے اس اقدام کو تحسین کی نظرسے دیکھے گا۔ یہ پلان کامیاب بھی نظر آتا ہے۔

 

ہر پانچ میں سے چار برطانوی شہری ملکہ کے بارے میں ایک مثبت رائے رکھتے ہیں۔ ملکہ کے فینسی ہیٹس کی محبت پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس بے کیف شو کے ستارے ایک نہ ایک دن ضرور بدلیں گے۔ نئے شہزادے اور شہزادیاں پیدا ہوں گی، رئیسانہ شادیاں ہوں گی۔ لاڈلے شہزادوں کو اپنی باری آنے پر ایک نرم اور گداز تخت پر براجمان ہونے کا موقع ملے گا۔ یہ سارا نظام محض عوام کی توجہ کھینچنے کے لیے وضع کیا گیا ہے مگر یہ اس گھونسلے کو لگی دیمک سے زیادہ کچھ نہیں جس کے اوپر بادشاہت براجمان ہے۔ یہ عوام کے وسائل سے اپنا پیٹ بھرتی ہے اور پھر اپنے ہی لیے اسے اپنے محل میں اگل دیتی ہے۔ اس بادشاہت کا خاتمہ کوئی مشکل یا پیچیدہ مرحلہ نہیں ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے ان کے محل ضبط کر لیے جائیں پھر ان کی دولت اور آخر میں ان کے ٹائٹل یا خطابات چھین لیے جائیں۔ یہ سب کچھ عوام کی ملکیت ہے جس پر یہ لوگ عرصے سے قابض ہو کر عیاشی کر رہے ہیں۔

 

شاہی خاندان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ملکی معیشت پھر سے اپنے پائوں پر کھڑی ہو رہی ہے۔ کوئی عملی تجربہ نہ ہونے کے باوجود انہیں ملازمتیں تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ وہ ٹیسکو مارکیٹ میں کوئی باعزت روزگار ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ان کے لیے یہ کس قدر عالیشان موقع ہے کہ وہ اپنی زندگیوں میں جائز رزق کما اور کھا سکیں گے۔ جیساکہ ہمارے بڑے ہم سب کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ محنت میں عظمت ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس طرح وہ اپنی زندگی کے سب سے خوشگوار دن گزاریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر