وجود

... loading ...

وجود
وجود

پریشرکا دباؤ،کرکٹ اورسیاست

هفته 06 مارچ 2021 پریشرکا دباؤ،کرکٹ اورسیاست

ایک زمانہ تھا، بلکہ اب بھی شاید وہی زمانہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ’’پریشر ‘‘ برداشت نہیں کر پاتے تھے ۔اور اُن، بالز پر بھی آؤٹ ہوجاتے تھے ، جن بالز کوخود پتا بھی نہیں ہوتا تھا کہ وہ آؤٹ کرنے کیلئے پھینکی گئی ہیں ،یا چھکا کھانے کیلئے ۔ پریشرلینے کی یہ نفسیاتی عادت کرکٹرز کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں ، اداروں اور قوم میں بھی سرایت کرگئی۔

پی ایس ایل منسوخ کرنے کا پی سی بی کا فیصلہ ہی لے لیں۔کورونا نے پی سی بی کو ایسا پریشر میں لیا کہ وہ ٹورنامنٹ ہی ملتوی کرڈالا،جس کیلئے لاکھوں ڈالر داؤ پر لگا چکا تھا بلکہ کراچی کے دسیوں لاکھ عوام کوبھی عزاب میں ڈال چکا تھا۔عوام اس خیال میں تھے کہ تیزی سے دن گزریں اورعلاقے میں کرفیو جیسی صورتحال سے جان چھوٹے ۔ لیکن ان کے ذہن پر اب یہ بوجھ طویل کردیا گیا ہے کہ ، پی ایس ایل ابھی مکمل ہونا باقی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کورونا پازیٹو کھلاڑیوں کو سائیڈ لائن کردیا جاتا اور ٹورنامنٹ جاری رکھاجاتا ۔کیونکہ کورونا تو اب ہمیشہ ساتھ ساتھ ہی رہے گا۔ چاہے آپ ٹورنامنٹ جاری رکھیں ، یا ایک ماہ بعد کرائیں یا ایک سال بعد،آپ کی تمام پریکٹس اب کورونا سے جڑی ہی رہے گی۔کھیل سے پہلے ، کھیل کے درمیان اور کھیل کے بعد ٹیسٹ کراتے کراتے ہی آپ خود نفسیاتی مریض نظر آنے لگیں گے۔ کیونکہ کورونا اب بیماری تو اپنی جگہ ہے لیکن اب یہ بیماری سے ذیادہ وہم کی شکل اختیار کرگئی ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ کورونا اب اتنا خطرناک نہیں رہا۔جتنا کہ اس کا پریشر لیا گیا۔پی سی بی نے اپنے ہی سجائے گئے پی ایس ایل میلے کو اجاڑ کر عوام کو شدید کوفت سے دوچار کیا۔حالانکہ ان پر کوئی خاص عالمی یا عوامی دباؤ بھی نہ تھا۔اسے کہتے ہیں نفسیاتی دباؤ سے بلاوجہ متاثر ہوجانا۔

نفسیاتی دباؤ پر یاد آیا کہ ڈسکہ الیکشن میں بیس پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج میں مبینہ دھاندلی کے خدشے پر ، الیکشن کمیشن نے پورے حلقے کا ہی نتیجہ منسوخ کرڈالا۔اس معاملے میں الیکشن کمیشن بھی پی سی بی کی طرح پریشر کے شدید دباؤ میں نظر آیا۔اس دباؤ کا تعلق بھی نفسیاتی ہی زیادہ لگتا ہے کہ کیونکہ اس بارے میں میڈیا پر شور و غوغا اس قدر تھا کہ لگتا ہے یہ ادارہ اس سے متاثر ہوگیا۔کیا کریں کہ اب ادارے اپنے کام کے بجائے اس شور و غوغے کی روشنی میں فیصلے ذیادہ کرتے ہیں۔مزے کی بات یہ ہے ڈسکہ کے حلقے این اے 75 میں ٹوٹل پولنگ اسٹیشنز 360 تھے ، جب کہ دھاندلی کے الزامات صرف 20 پولنگ اسٹیشنز پر عائد کئے گئے تھے ، باقی 340 میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔لیکن پھر بھی تمام تر حلقے کے نتیجے کو کالعدم قراردے دیا گیا، جو الیکشن کمیشن کے بظاہر کسی دباؤ سے متاثر ہونے کا ہی ثبوت تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے پریشر کا دباؤ لینے کی ایک اور بڑی مثال اس وقت سامنے آئی، جب سپریم کورٹ نے رائے دی کی سینیٹ الیکشن کا انتخاب بھلے خفیہ ہو لیکن ووٹ دینے والے ارکان کی شناخت کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے ۔تاہم الیکشن کمیشن نے آئین کو آڑ بناتے ہوئے تمام معاملات کو جوں کا توں رکھا اورسینیٹ الیکشن پرانے قوانین کے تحت ہی کرادیئے ۔نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔
نتیجہ تو ایک اور بھی آیا ، جس کے نتیجے میں کئی بڑے نتائج نکلنے کی امید کی جارہی ہے ۔یعنی گیلانی کی سینیٹ میں فتح کی کہانی۔ یہ کہانی جس نے بھی لکھی، کرداروں نے اپنے کردار کے ساتھ خوب انصاف کیا۔اس کے آفٹر افیکٹس نے بھی فریق مخالف پر نفسیاتی وار کیا۔اور عمران خان جیسا بندہ بھی پریشر کے دباؤ میں آگیا۔اسی دباؤ میں انہوں نے فوری اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کرڈالا۔کپتان ایک طرف تو سینیٹ میں پیسہ چلنے پر افسوس کا اظہار کررہے تھے ، اور گیلانی کی کامیابی کیلئے اپنائے گئے حربوں کو غیر اخلاقی قرار دے رہے تھے تو دوسری ان غیر اخلاقی حربوں کے جواب میں اعتماد کے ووٹ لینے کا اعلان کرنا بھی نفسیاتی دباؤ کی شکل کے طور پر نظر آیا۔ ورنہ تو صاف کہہ دیتے کہ کہ نہیں لیتا اعتماد کا ووٹ ، کوئی اخلاقیات نہیں دکھانی تم جیسے غیر جمہوری لوگوں کو۔ جاؤ کرلو جو کرنا ہے ۔اور نتیجہ بھی کیا نکلا اس اخلاقی اعلان کا؟ مخالفین نے سراہنے کے بجائے الٹا بغلیں بجائیں اور کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا ڈراما نہ کرو اور ڈائریکٹ کرسی چھوڑو۔ تو یہ ہوتی ہیں اخلاقیات۔ اور پریشر کا دباؤ لینے کا الٹا نقصان۔

یہ پریشر کا دباؤ میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے لیکن خود میڈیا ارکان بھی کئی طرف سے اسی دباؤ سے دبے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں کوئی بھی عمل چاہے وہ کتنا بھی برا یا اچھا کیوٍں نہ ہو اسکرین پر آکر فوری ہی پس پردہ چلا جاتا ہے ۔اور دوسرا کھیل اس کی جگہ لے لیتا ہے ۔مثال کے طور پر جب سندھ میں جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے تو زرداری خاندان اور پوری پیپلز پارٹی بیک فٹ پر چلی گئی، اور جب کیسز کی سماعتیں شروع ہوئیں تو ملزمان کو ٹی وی اس قدر ٹائم ملا کہ کیس ہی پیچھے چلا گیا اور ملزمان سیاسی طور پر پھر قوی ہوتے چلے گئے ۔اور پھر بعد میں سیاسی اتحاد بنتے گئے اور اصل معاملہ سیاست میں چھپتا گیا۔ بات کیونکہ پریشر کے دباؤ کی ہورہی ہے تو سندھ کے صحافی بھی پریشر کے دباؤ سے محفوظ نہیں، سندھ ہی کیا، پورے پاکستان میں یہی حال ہے ،کراچی میں جب صحافی وزرا سے سوال کرتے ہیں تو سوال ستائشی ہوتا ہے حالیہ انتخابی معاملے میں کسی صحافی نے مختلف ایونٹس کے دوران وزرا سے ناصر شاہ کی آڈیو کی بابت سوال نہ کیا۔اسی طرح جب بلاول سے صحافیوں کا سامنا ہوتا ہے تو کبھی جعلی اکاؤنٹس کے منظم نیٹ ورک پر سوال نہیں کیا جاتا۔

یہی صورتحال ملک کے دیگر حصوں میں بھی ہے ۔صحافی خاص طور پر ان رہنماؤں کو زیادہ مقدس گائے کے طور پر لیتے ہیں ، جن پر مقدمات ہوں۔ تو جناب یہ ہیں دباؤ کی کچھ مثالیں ، جن کا ہمارا معاشرہ ،گروہ اور ادارے شکار نظر آتے ہیں۔لیکن کیا کیجئے اس دباؤ سے نکلنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ایک معاملے کے بعد دوسرا معاملہ سامنے آکر اس پریشر میں اضافہ ہی کرتا رہتا ہے ۔ رہے نام اللہ کا ۔۔
٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر