وجود

... loading ...

وجود
وجود

جو بائیڈن،ایران اور مشرق وسطی

پیر 22 فروری 2021 جو بائیڈن،ایران اور مشرق وسطی

(مہمان کالم)

مائیکل کرولے
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی ٹیم کا ایک سیشن منعقد کرایا تھا جس میں انہیں کسی خاص مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وزارتِ خارجہ اور دفاع کے محکموں کے سربراہوں اور انٹیلی جنس کی اہم پوسٹوں کو پْر کرنے کے لیے انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا اور نہ ہی ریپبلکن پارٹی کی طرف سے کوئی خاص مخالفت دیکھنے میں آئی تھی مگر جیسے ہی جو بائیڈن حکومت نے گزشتہ ماہ ایران کے لیے رابرٹ میلے کو اپنا نمائندہ مقرر کرنے ا اعلان کیا تو اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ رابرٹ میلے جو تنازعات کے حل کے لیے بہترین سفارت کار کی شہرت رکھتے ہیں‘ کے انتخاب نے واشنگٹن میں ایران کے بارے میں 2015ء میں ہونے والے جوہری معاہدے پر بھرپور بحث چھیڑ دی جسے ٹرمپ حکومت نے یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیا تھا۔ ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے اس معاہدے کو پھرسے بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تقرری نے اسرائیل کی حساس سیاست کے حوالے سے بھی ایک ایسا ہنگامہ برپا کر دیا جس نے بائیڈن حکومت کی فارن پالیسی ٹیم میں ترقی پسندوں کے اثر و رسوخ کے بارے میں اسے ایک ٹیسٹ کیس بنا دیا ہے۔ صدر بارک اوباما کے دورِ صدارت میں قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر بینجمن روڈز نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’رابرٹ میلے تو ہر چیز کی پراکسی ہے‘‘۔

اگرچہ حالیہ دنوںمیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ستاون سالہ رابرٹ میلے پر مشرق وسطیٰ کے بارے میں انتہائی خطرناک خیالات رکھنے جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں مگر اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی کشیدگی یا تنازعے کا باعث بنیں۔ وہ ایک نرم خو روڈزا سکالر ہیں جن کے پاس ہارورڈ سے قانون کی ڈگری بھی ہے اور وہ سابق صدور بل کلنٹن اور بارک اوباما کے دورِ حکومت میں وائٹ ہائوس میں ایک محنتی مشیر کے طور پر کئی سال گزار چکے ہیں، جہاں انہیں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر کے طور پر خوب پذیرائی حاصل تھی۔ وہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں ایک غیر معمولی انڈر اسٹینڈنگ رکھنے کے علاوہ اس تنازعے کے اہم ترین فریقوں کے ساتھ گہرے تعلقات بھی رکھتے تھے؛ تاہم رابرٹ میلے جو ایک عرب نڑاد یہودی کے بیٹے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ملوث تمام گروپوں اور حکومتوں کے معروف ایڈووکیٹ سمجھے جاتے ہیں‘ سال ہا سال سے حزب اللہ، حماس اور شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ایک تعلق رکھتے ہیں جنہیں عام طور پر امریکا اور اسرائیل کا حریف سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو اخلاقی طور پر ان کے ان دوستانہ تعلقات کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔

ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ رابرٹ میلے امریکا کی طاقت اور ہیبت کے حوالے سے کسی شک و شبہ میں مبتلا ہیں جبکہ وہ ایران اور فلسطین سمیت ان غیر ملکی ایکٹرز کے ساتھ غیر ضروری ہمدردی رکھتے ہیں جن کے مغربی ممالک کے ساتھ گہرے تنازعات چل رہے ہیں۔ ایران کے لیے جوبائیڈن کے نمائندے کے طور پر رابرٹ میلے کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں توسیع دینے سے باز رکھیں مگر ان کے ناقدین کو خدشہ ہے کہ وہ مصالحت کے نام پر ایران کو ایک ایسا نیا جوہری معاہدہ کرنے پر مجبور کریں گے جو وہاں کے مذہبی حکمرانوں کے لیے بہت زیادہ قابل قبول ہو گا۔ جب ایران سے مذاکرات کے نمائندے کے طور پر ان کا نام پہلی مرتبہ سامنے آیا تو آرکنساس سے ریپبلکن سینیٹر ٹام کاٹن نے اس تقرری پر ان الفاظ میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ’’رابرٹ میلے جیسے انقلابی‘ جو ایرانی حکومت کے ساتھ ہمدردی اور اسرائیل کے ساتھ دشمنی کا ایک طویل ریکارڈ رکھتے ہیں‘‘۔

ایران کے ساتھ مذاکرات کے دیگر مخالفین نے ان کے نام کے اعلان کے بعد قدرے نرم الفاظ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 2015ء میں ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو جائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کا نام دیا گیا تھا۔ فائونڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیمو کریسیز کے چیف ایگزیکٹو مارک ڈبووٹز‘ جو اس معاہدے کے بڑے مخالف سمجھے جاتے ہیں‘ کا کہنا ہے ’’رابرٹ میلے کی تقرری شاید اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جوبائیڈن حکومت کی ترجیح ایران پر امریکی طاقت کا دبائو ڈال کر ایک جامع معاہدہ کرنے کے بجائے اسی سابقہ معاہدے کی بحالی کی کوشش کرنا ہے جسے جائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کہا جاتا ہے کیونکہ رابرٹ میلے امریکی طاقت پر زیادہ یقین نہیں رکھتے‘‘۔ رابرٹ میلے کے ان حامیوں جنہیں سینیٹ سے اپنی تقرری کی توثیق کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ کا کہنا ہے کہ وہ امریکا اور اسرائیل سے تعلق رکھنے والے دائیں بازو کے عناصر کے لیے تنقیدکا ایک آسان ہدف ہیں اور وہ بائیڈن حکومت کو یہ وارننگ دینا چاہتے ہیں کہ 2015ء کے معاہدے کی طرح ایران کے ساتھ ویسا ہی ایک اور جوہری معاہدہ کرنے کی زیادہ کوشش نہ کی جائے جو صدر بارک اوباما کے دور میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک سنگین کشیدگی کا باعث بن گیا تھا۔

ایرون ڈیوڈ ملر‘ جو کئی امریکی صدور کے ادوار میں مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مذاکرات کار کے طور خدمات انجام دے چکے ہیں اور رابر ٹ میلے کے ساتھ بھی کئی سال تک کام کر چکے ہیں اور جن کا شمار ان کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے‘ کا کہنا ہے کہ رابرٹ میلے کی تقرری پر اپنا ردعمل دینے والے زیادہ تر افراد کا تعلق اس گروہ سے ہے جو انہیں اچھی طرح نہیں جانتے اور ان کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ انہیں امریکا کے قومی مفادات کا زیادہ ادراک نہیں ہے۔ دائیں بازو پر زیادہ تر گفتگو نہ کرنے کی وجہ سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ رابرٹ میلے جو بھی سیاسی سمجھ بوجھ اور فہم وفراست رکھتے ہیں وہ انہیں اپنے یہودی باپ سے ورثے میں ملی ہو جو مصر میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ تھے اور عرب قوم پرست کے طور پر پکے سیکولر اور صہیونیت کے سخت مخالف تھے۔ رابرٹ میلے نے 2008ء میں خود ہی اپنے ایک لیکچر میں بتایا تھا ’’یہ میرے والد تھے جنہوں نے میرے اندر اس ریجن کے بارے میں دلچسپی اور آگہی پیدا کی جہاں سے ان کا اپنا تعلق تھا‘‘۔ رابرٹ میلے نے اپنے والد کے بارے میں مزید بتایا تھا کہ ’’ سینئر رابرٹ میلے نے نو ممالک کی شہریت حاصل کی تھی جن میں ایک فلسطین کی اعزازی شہریت بھی شامل تھی اور وہ چھ مختلف میگزین کے بانی بھی تھے۔ وہ راسخ عقائد اور یقین کامل رکھنے والے انسان تھے اور نازک معاملات کا سامنا کرتے وقت ہمیشہ ایک مشکل میں گرفتار ہو جاتے تھے‘‘۔
(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر