وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان ،سینیٹ انتخابات اور قبیح روایات

جمعرات 18 فروری 2021 بلوچستان ،سینیٹ انتخابات اور قبیح روایات

ایوا ن بالا کے مارچ2021ء کے انتخابات کی تیاریاںبدنامی اور بد عنوانی کے قصے لئے شروع ہوچکی ہیں۔ نئی کہانیاں سامنے آئی ہیں۔ کہانیاںآئندہ بھی متوقع ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار کو نامزد کرچکی ہیں۔ عجیب یہ ہوا کہ تحریک انصاف نے ایک غیر معروف کاروباری عبدالقادر کو جنرل نشست پر ٹکٹ دے کر کوئٹہ انتخاب جیتنے کے مشن پر بھیج دیا تھا۔ یہ شخص اگرچہ کوئٹہ کا رہائشی رہا ہے ۔ تاہم لمبے عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہے۔ وہیں تعمیراتی شعبے میں کاروبار کررہا ہے۔یعنی دولت مند ہے ۔ مارچ2018ء کے سینیٹ انتخابات میں بھی حصہ لینے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ تکنیکی وجہ کی بناپر کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے تھے۔ اس وقت بھی انہیں ن لیگ کے ان منحرف ارکان کی حمایت حاصل تھی ۔جو بعد میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں اکٹھے کر دیے گئے ۔ عبدالقادر نے ’باپ ‘سے تعلق بنا رکھا تھا ،اور تحریک انصاف سے قربت پیدا کرلی ۔ تحریک انصاف کے بعض افراد نے انہیں عمران خان اور دوسرے سرکردہ پارٹی رہنمائوں سے بالمشافہ متعارف کرایا۔ یہاں تک کہ انہیں کوئٹہ سے سینیٹ ٹکٹ دلوانے میں کامیاب ہوئے۔ باز گشت ہے کہ آغاز میں ایک دو حکومتی شخصیات پر بھاری نوازشات بھی کر چکے ہیں ، جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ دونوں اس وقت ایوان بالا اور ایوان زیریں میں کلیدی عہدوں پر موجود ہیں۔ بلوچستان کے اندر پی ٹی آئی کے مختلف سطح کے ذمہ داران نے پارٹی قیادت کے طرز عمل پر خفگی کا اظہار کیا۔ تو وزیراعظم عمران خان نے فیصلے سے رجوع کرتے ہوئے اس شخص سے ٹکٹ واپس لے کر پارٹی کے ایک دیرینہ کارکن ظہور آغا کو ٹکٹ سونپ دیا۔ان پر عمران خان کا فیصلہ بجلی بن کر گرا ۔ تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند اور دوسروں پر برسے۔ چناں چہ پی ٹی آئی کی جانب سے ٹکٹ واپس لیے جانے کے بعد بھی عبدالقادر پیچھے نہیں ہٹے، اور آزاد حیثیت سے نئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اس بار حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ )کے اراکین اسمبلی سکندر عمرانی اور لیلیٰ ترین ان کے کاغذات نامزدگی کے تجویز اور تائید کنندہ بنے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صاحب نہایت ہی پراعتماد اور اطمینان کے ساتھ کوئٹہ آئے ہیں ۔ا سے باپ کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔یقینا یہ حمایت کسی نظریے اور سیاسی اقدار کی بنیاد پر نہیں بلکہ نوازشات اور دولت کے بل بوتے پر کی جارہی ہے۔ موصوف نے اپنے بارے میں رائے عامہ ہموار رکھنے کی خاطر بعض صحافیوں کو بھی خوش کئے رکھا ہے ۔پی ٹی آئی کے لیے عبدالقادر کی وجہ سے مشکلات بنی ہیں ۔ جبکہ مشکل پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے بھی بیٹے سردار خان رند کوآزاد حیثیت سے امیدوار لاکر پیدا کردی ہے۔ گویا پی ٹی آئی کے اپنے امیدوار ظہور آغا کی شکست کے آثار واضح ہیں ۔ایسا ہوا تو یقینا تحریک انصاف بالخصوص وزیراعظم پاکستان عمران خان کو سبکی اٹھانی پڑے گی۔عجب یہ بھی ہوا کہ خیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والی ستارہ ایاز کو بھی بلوچستان سے ٹکٹ دلوادیا گیا ہے۔ستارہ ایاز کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا۔2015ء میں پشاور سے سینیٹر بنی تھیں۔ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی اور بعد ازاں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق پارٹی فیصلوں سے بغاوت کرکے مقتدرہ کی آغوش میں چلی گئیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے انہیں اکتوبر2018ء میں پارٹی سے خارج توکردیاالبتہ ڈی سیٹ نہ کیا ۔خاتون کی بھرتی باپ پارٹی میں کرائی گئی ۔اُس وفاداری کے صلے میں ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ بلوچستان میںجمہوری اقدار کی پامالی کی یہ قبیح نظیریںہیں ۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بھی ہر گز شفافیت سے منتخب نہ ہوئے ہیں، بلکہ دولت کی ریل پیل کا کرشمہ ہے۔ملک کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی کے مالک احمد خان خلجی کا منتخب ہونا بھی دولت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی نے جنرل نشست پر چھ امیدواروں میر سرفراز احمد بگٹی،منظور احمد کاکڑ، اورنگزیب جمالدینی، ستارہ ایاز ، آغا عمر احمد زئی ، کیپٹن ریٹائرڈ عبدالخالق اچکزئی کو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ اورنگزیب جمالدینی باپ پارٹی کی جانب سے ایک اور غیر معروف انٹری ہے۔خواتین اور ٹیکنو کریٹس پر سعید احمد ہاشمی، منظور احمد کاکڑ، ڈاکٹر نواز ناصر، نوید کلامی، اقلیتی نشست پر ایم پی اے دھنیش کمار، خلیل بھٹو ، خواتین کی نشست پر شانیہ خان ، ثمینہ ممتاز شہری اور کاشفہ گچکی کو نامزدکیا ہے۔

صوبائی حکومت کی اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے اسمبلی میں چار اراکین ہیں ۔ان کا امیدوار نوابزادہ عمر فاروق کاسی ہے۔ اتحادی جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے فقط خواتین کی نشست پر عاطفہ صادق کو نامزد کیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے اسمبلی میں محض دو ارکان ہیں۔ تیسرے رکن سید احسان شاہ نے پارٹی سے راہیں جدا کرکے پاکستان نیشنل پارٹی کے نام سے الگ جماعت بنائی ہے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت جے یو آئی نے مولانا عبدالغفور حیدری، مولانا خلیل احمد بلیدی ،کامران مرتضیٰ، آسیہ ناصر اور ہیمن داس کو نامزد کر رکھا ہے۔ حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل نے سینئر پارٹی رہنماء قانون دان ساجد ترین ایڈووکیٹ ، قاسم رونجھو ، حسین واڈیلہ، طاہرہ احساس جتک،شمائلہ اسماعیل اورسنیل کمارکو ٹکٹ دے رکھا ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا اسمبلی میں ایک رکن ہے۔ آزادرکن نواب اسلم رئیسانی بھی اپوزیشن اتحاد کا حصہ ہیں۔سردست حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے پوری طرح کام کریں گی۔ جمہوری وطن پارٹی کے ایک ممبر اسمبلی گہرام بگٹی باپ پارٹی کے سرفراز بگٹی کو ٹکٹ دینے پر معترض ہے ۔ ثناء اللہ زہری کی ن لیگ سے وابستگی نہیں رہی ہے۔غرض اس منظر نامے میں بلوچستان عوامی پارٹی اور تحریک انصاف کے ارکان بارے نسبتا زیادہ شبہات پائے جاتے ہیں ۔ تحریک انصاف بلوچستان کے ـصدر سردار یار محمد رند اپنے بیٹے سردار خان رند کو پارٹی ٹکٹ دلوانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ سردار یار محمد رند دراصل اپنے ارکان اسمبلی پر اثر و رسوخ نہیں رکھتے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان نے انہیں خاطر خواہ اہمیت نہیں دی ہے ۔ سینیٹ ٹکٹوں کے حوالے سے بننے والے پارلیمانی بورڈ تک میں انہیں نہیں لیا گیا تھا۔ حالاں کہ پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کو مشاورت میں شامل کیا جانا دستوری و تنظیمی لحاظ سے بھی لازم تھا۔ معلوم نہیں کہ سردار یار محمد رند اس سلوک پر خاموش کیوں ہیں! ۔ خلاصہ یہ کہ بلوچستان کے اندرحزب اختلاف کی جماعتوں سے ہٹ کربعض جماعتوں اور ارکان پر’’زور ‘‘اور’’ زر‘‘ غالب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر