وجود

... loading ...

وجود
وجود

مودی کا 56انچ سینہ اور کسان تحریک

جمعرات 28 جنوری 2021 مودی کا 56انچ سینہ اور کسان تحریک

کسانوں نے پڑوسی ملک میں محروم طبقات کے لیے امید کی ایک جوت جگادی ہے۔ مودی کے تکبر کو پاؤں تلے روند دیا ہے۔ بھارتی کسانوں کی زبردست مزاحمت کا ولولہ انگیز پراؤ 26/ جنوری کو دہلی تھا۔ بھارتی آئین سال 1950ء میں اسی تاریخ کو منظور ہوا تھا،جس کے بعد یہ ایک قومی دن کے طورپر منایا جانے لگا۔ یوم جمہوریہ کے طور پر اس دن فوجی پریڈہوتی ہے اور بھارتی وزیراعظم دہلی کے لال قلعہ سے خطاب کرتے ہیں۔

بھارتی کسان زرعی اصلاحات کے نام پر متعارف کرائے گئے قوانین کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ قوانین زرعی اجناس کی فروخت، قیمت اور اُسے ذخیرہ کرنے کے مروجہ طریقہ کار کو تبدیل کردیتے ہیں۔ کسان ان نئے قوانین کے بعد آزاد منڈیوں کے رحم وکرم پر ہوں گے جہاں اُنہیں سفاک اور بے رحم سرمایہ دار، منڈی کے من مانے چلن سے بھگتائیں گے۔ کسان سمجھتے ہیں کہ ان نئے قوانین کے بعد وہ زمین پر اپنی گرفت کھودیں گے۔ بیج اور زمین کا فطری رشتہ ختم ہوجائے گا۔ پھر منڈی کے بے رحمانہ طریقوں سے کسان سرمایہ دار کی طلب سے اپنی زمینوں پر ہل چلاسکے گا۔ کسان ان قوانین کو خود اپنی زندگی سے دستبردار ہونے کے مترادف سمجھ رہے ہیں۔ بھارت کے متکبر وزیراعظم نریندر مودی کی پوری سیاست بے رحم اور سفاک سرمایہ داروں کی مرضی کے تابع رہی ہے۔ چند سفاک سرمایہ دار ان نئے قوانین کی پشت پر ہیں جو بھارت کی پوری زرعی معیشت کو اب کنٹرول کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی گردن اُن کے آگے جھکا دی ہے مگر اپنے 56/ انچ سینے کو کسانوں کے سامنے پھلائے بیٹھے ہیں۔ کسانوں کی ستمبر 2020ء سے جاری احتجاجی تحریک مختلف مخالفتوں اور رکاؤٹوں کو عبور کرکے انتہائی ارتکاز اور امتیاز کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت سے درجن بھر مذاکرات کے ادوار کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا راستا نہیں نکل سکا جو بھارتی کسانوں کو مطمئن کرسکے۔ چنانچہ اُنہوں نے بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر فوجی پریڈ کے مقابل ٹریکٹر پریڈ کی اور دہلی میں داخل ہوگئے۔ کسانوں کے وفورِ احتجاج میں ایک موقع ایسا بھی آیا جب اُنہوں نے لال قلعہ پر سکھ مذہب کا ”نشان صاحب پرچم“لہرادیا۔ احتجاج کے باعث 56 انچ سینے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی لال قلعے سے خطاب نہیں کرسکے، اور اُنہیں فوجی پریڈ سے سیدھے گھر پہنچا دیا گیا۔

تاریخ کے یہ دونوں حوالے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اب بھارت کی درسی کتابوں سے مغلیہ دور کے سنہری واقعات حذف کیے جارہے ہیں۔ مگر لال قلعہ اسی مغلیہ سلطنت کے دور کی یادگار ہے۔ یہی وہ قلعہ ہے جہاں موجود تختِ طاؤس پر بیٹھ کر مغل بادشاہ کوسِ لمن الملک بجاتے تھے۔ کبھی ا س قلعے کی دیواروں سے دریائے جمنا کا پانی بغلگیر ہوتا تھا۔ اب پانی اور اقتدار دونوں نے اس قلعے سے کچھ فاصلہ پیدا کرلیا ہے۔ مگر لال قلعہ دہلی کے اقتدار اعلیٰ کا علامتی اظہار اب بھی کرتا ہے، جہاں بھارت کا قومی پرچم ہر وقت لہراتا ہے۔ کسانوں کی تحریک کے غیر معمولی لمحے میں وہ وقت آیا جب اُنہوں نے اسی پرچم کے ساتھ سکھ مذہب کا ”نشان صاحب پرچم“لہرادیا۔ کسانوں نے متعدد مقامات پر زعفرانی رنگ کے مذہبی اور کسان جدوجہد کے پرچم لہرائے۔اگرچہ سوشل میڈیا کے سیلاب میں ابتدائی طورپر یہ سمجھا گیا کہ کسانوں نے لال قلعہ پر دراصل سکھ علیحدگی کی خالصتانی تحریک کا پرچم لہرایا ہے۔ درحقیقت ایسی کوئی بھی کوشش مودی کی دلی خواہش کو پورا کرتی جو کسانوں کی پرامن اور ولولہ انگیز تحریک کو پرتشدد اور خالصتان تحریک سے جوڑ کر اپنے مذموم کھیل کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ مودی اپنے ان ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے لیے کسانوں کی تحریک میں ایسے ”عناصر“ کو داخل کرنے کی متعدد کوشش کرچکے ہیں جو کسانوں کو انتہا پسند اور تشدد پسند ثابت کرنے کا باعث بنتے۔ کسانوں نے غیر معمولی ذہانت سے اب تک ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنایا ہے۔”نشان صاحب پرچم“ کا پیغام بھی کوئی معمولی نہیں۔ مغل بادشاہ جہانگیر کے حکم پر سکھ روایت کے پانچویں گرو،ارجن دیو کو قتل کیا گیا تھا، مگر اس سے قبل ارجن دیو نے اپنے جانشین بال ہر گوبند کو ایک پیغام بھیجا تھا۔ اس پیغام کے تحت نئے سکھ گرو ہر گوبند نے ایک تخت بنایا تاج، اور فوج بنائی تھی۔ اسی گرو نے تب مغل بادشاہ سے اپنی آزاد حیثیت کو ایک علامتی جھنڈے سے ظاہر کیا تھا جسے اب یہی”نشان صاحب پرچم“کہا جاتا ہے۔ دہلی کے لال قلعے پر خالصتانی پرچم تو نہیں لہرایا گیا، مگر تاریخ کے تناظر میں نشان صاحب پرچم کا پیغام اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

لال قلعہ پر پرچم لگانے کے پیغام کی شدت وحدت کو بھارت کے اندر باہر پوری طرح محسوس کیا جارہا ہے۔ شاید اسی لیے امریکی خبررساں ادارے اے پی نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں کسانوں کی احتجاجی تحریک ملک گیر بغاوت میں بدل سکتی ہے۔ بھارت میں 26/ جنوری کے قومی دن کی تمام سرگرمیوں اور تقریبات کو کسانوں نے اپنے ٹریکٹر پریڈ اور لال قلعہ پر جھنڈا لگا کر پس منظر میں دھکیل دیا۔ کسان دوماہ سے دارالحکومت کا گھیراؤکرکے بیٹھے ہیں۔ 26/ جنوری کی شام کسانوں نے ٹریکٹر پریڈ ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر دوماہ سے زائد عرصے سے جاری تحریک کو جاری رکھنے کا عزم بھی ظاہر کردیا۔ نریندر مودی کے اقتدار کو کسانوں کی احتجاجی تحریک نے ایک انتہائی سنجیدہ نوعیت کا چیلنج دیا ہے۔ اگرچہ وسیع پیمانے پر جاری اس تحریک کی اصل مراکز دو ریاستیں یعنی پنجاب اور ہریانہ ہیں۔ مگر اس تحریک کے اثرات نے بھارت بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس تحریک سے بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کے اُتھل پتھل ہونے کا خطرہ جنم لے چکا ہے۔ ذات پات میں تقسیم انتہا پسند بھارتی سماج میں جاری خلقی معاشی عدم مساوات کے خلاف کسانوں کی احتجاجی تحریک نے سماج کے تمام پچھڑے طبقات کو ایک ہمت دی ہے۔ نریندرمودی کی پوری سیاست مسلمانوں کے خلاف اور سخت گیر انتہاپسند ہندو مقاصد سے وابستہ رہی ہے۔ اُنہیں آج تک جس نوعیت کے احتجاج کا سامنا رہا، اُس میں ایک مذہبی عنصر کے باعث ہندو انتہاپسندی ڈھال کے طور پر اُن کے کام آتی رہی۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے لے کر کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے تک ہر جگہ برہمن نفسیات اُن کی معاون رہی۔ شہریت کے متنازع قانون میں بھی وہ انتہاپسند ہندو نظریات کے پیچھے دبکے رہے۔ دہلی کے شاہین باغ میں طویل عرصے تک مسلمان مردوخواتین کے دھرنے پر مودی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ مگر کسانوں کا غیر معمولی احتجاج مودی کے 56 انچ سینے کو سیکڑ رہا ہے۔ کسانوں کے مسلسل اور غیر لچکدار احتجاج کے باعث مودی کی سیاسی حمایت بھی رفتہ رفتہ تحلیل ہونے لگی ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی اُن کی اتحادی جماعت اکالی دل حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے۔ بھارت کے محروم طبقات کسانوں کی احتجاجی تحریک کو اپنے مستقبل کے مستقل بدلاؤ کے لیے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جس کی چنگاڑیوں میں متکبر مودی کے خرمنِ اقتدار کو جلانے کی صلاحیت موجود ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر