وجود

... loading ...

وجود
وجود

سرحدی مودی

پیر 25 جنوری 2021 سرحدی مودی

سالگرہ کا کیک بھی اگر غیر منصفانہ انداز میں کاٹ د یا جائے تو تقریب کے شرکاء کینہ توز نگاہوں سے کیک کاٹنے والے کو گھورنا شروع کردیتے ہیں اور کبھی کبھارنوبت ہاتھا پائی تک بھی جاپہنچتی ہے۔ یعنی لوگ جب ایک کیک کے ٹکڑوں کے چھوٹا ،بڑا ہونے پر آپس میں اُلجھ پڑتے ہیں تو پھر اَب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ کسی بھی ملک کے نزدیک سرحدوں کی تقسیم کتنا حساس اور نازک معاملہ ہوسکتاہے۔اس چھوٹی سی بات کا ادراک اگر ہمیں ہے تو یقینا لارڈ ماؤنٹ بیٹن ، سر کریک اور مارٹیمر ڈیورنڈ کو بھی ضرور ہوگا۔ لیکن اگر پھر بھی برطانوی حکمرانوں نے برصغیر پاک و ہند کی سرحدی تقسیم کسی کیک کی مانند کرنے کی کوشش تو اس تاریخی حادثہ کو اگر حکومتِ برطانیا کی دانستہ ’’سیاسی بدنیتی‘‘ پر محمول نہ کیا جائے تو پھر اس حادثہ تاریخ کو اور کیانام دیا جائے؟۔حیران کن طور پر دنیا بھرمیں اس وقت جتنے بھی سرحدی تنازعات موجود ہیں ،اُن میں سے نوے فیصد سابقہ سلطنت ِ برطانیا کی ہی دین ہیں۔ کہنے کو تو برطانیا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ممالک کو اپنے استبداد سے آزادی دینے کا کڑوا گھونٹ مسکراتے ہوئے پی لیا تھا لیکن درحقیقت انگریزوں نے کمال سیاست سے بے شمار ممالک کی آزادی کو سرحدی تنازعات کی چار دیواری میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پابند سلاسل کردیا تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان بھی اُن ممالک میں ایک ہے ،جسے برطانوی حکومت نے آزادی کے ہمراہ کئی سرحدی تنازعات بھی ہمراہ لف کرکے دیئے تھے۔ جن میں سے ایک پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی لکیر ڈیورنڈ لائن بھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی رو سے یہ ایک مستقل سرحد ہے جو پاکستان کے مغربی جانب افغانستان کے ساتھ ملحق ہے ۔ جسے عالمی براداری بھی ایک بین الاقومی سرحد تسلیم کرتی ہے۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعداسے پاکستان کی مستقل سرحد کی حیثیت دے کر ڈیورنڈ لائن کا مردہ دفنا دیا گیا تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ افغانستان جب کمزور حالت میں ہوتا ہے تو ڈیورنڈ لائن کا ذکر نہیں کرتا جب کچھ مضبوط ہوتا ہے تو اس کا ذکر شروع کر دیتا ہے لیکن عالمی قوانین کے مطابق افغانستان کا کیس بہت کمزور ہے اور یہ بات افغانستان کا ہرحکمران بخوبی سمجھتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی جانب سے زبانی طور پر تو بات ہوتی ہے لیکن کبھی عالمی عدالت انصاف یا اقوام متحدہ میں یہ معاملہ لے جانے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ عالمی برادری کے نزدیک عالمی نقشہ پر ڈیورنڈ لائن اَب سرے سے موجود ہے ہی نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان صرف ایک سرحد ہے۔

مگر افغانستان میں موجود چند گروہ اور پاکستان میں موجود بھارت نواز کچھ سیاسی شخصیات ہمیشہ سے ہی ڈیورنڈ لائن کو دو ممالک کے درمیان ایک مستقل سرحد تسلیم کرنے سے یکسر انکاری رہی ہیں ۔ ماضی میں ایسے مذموم نظریات رکھنے والے اقلیتی طبقہ کے رہنما خان عبدالغفار خان ہوا کرتے تھے، جنہیں پاکستانی قوم سرحدی گاندھی کے نام سے جانتی ہے جبکہ آج کل جو سیاسی رہنما ڈیورنڈ لائن کے نام لے کر زہرافشانی میں صبح و شام مصروف ہے۔ وہ موصوف محمود خان اچکزئی ہیں ،جنہیں آپ حال کا ’’سرحدی مودی ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں ۔سرحدی مودی کا استدلا ل ہے کہ’’ ڈیورڈ لائن کوئی باقاعدہ سرحد نہیں ہے ،یہ صرف ایک لکیر ہے ،جس کی ذریعے ماضی میں پشتون آبادی کو الگ الگ کرنے کی کوشش کی گئی تھی‘‘۔واضح رہے کہ یہ وہ بودا سا،غیر عقلی استدلال ہے جسے قانونی ، تاریخی ،سیاسی غرض کسی بھی لحاظ سے کہیں بھی ثابت نہیں کیا جاسکتاہے مگر چونکہ اس استدلال کا سہولت کار بھارت ہے اور بھارت نواز لبرل گروہوں کی اس نظریہ کے حق میں چلنے والی تحریک کو زبردست حمایت حاصل ہے۔ شاید اسی لیے سرحدی مودی کے پاؤں گزشتہ چند ماہ سے پاکستانی سرزمین پر ٹکنے میں نہیں آرہے اور وہ بیرونی امداد کی ہوا ؤں کے دوش پر اُڑتے ہوئے کبھی کراچی اور کبھی لاہور میں ریاستِ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور زہرافشانی کر کے ڈیورنڈ لائن کے مردہ کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔

انگریزوں کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کھینچے جانے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے ،تاریخ کے اوراق میں درج ہے کہ جس وقت دنیا بھر پر برطانوی راج قائم تھا عین اُس خطے میں دوسری بڑی سیاسی و عسکری طاقت روس کی صورت میں بھی موجود تھی۔برطانیااور روس کے درمیان اچھے سفارتی تعلقات ہونے کے باوجود بھی نہ جانے کیوں انگریزحکمرانوں کو ہر لحظہ ڈر اور خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں روس کبھی افغانستان کے راستے سے اُن پرحملہ نہ کر دے۔اپنے اسی خوف کو دور کرنے کے لیے اس وقت برطانوی سفارت کار مارٹیمر ڈیورنڈ نے افغانستان کے امیرعبدالرحمان سے بذریعہ خط وکتابت رابطہ کیا اور سرحدی حدبندی کرنے کی تجویز پیش کی، کچھ روز بعد انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا۔چند ملاقاتوں اور کچھ نقد لے دے کے بعد آخر کار 12 نومبر 1893 میں یہ حد بندی قائم کر دی گئی جس کا نام مارٹیمر ڈیورنڈ کے نام کی مناسبت سے ڈیورنڈ لائن رکھا گیا جس کی لمبائی 2640 کلومیٹر تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بھی اسے جوں کا توں برقرار رکھا گیااور اسے مستقل پاکستانی سرحد کی حیثیت دے دی گئی ،جس کی توثیق اقوام متحدہ سمیت دنیا کے ہر ملک کی جانب سے بھی فرمادی گئی ۔مگر ماضی کی پاکستانی حکومتوں کی جانب سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے کبھی اس سرحد کی نگہانی کے لیے وہ سخت حفاظتی اقدامات اُٹھانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی جو کہ پاکستان اپنے مشرقی سرحد پر کیا کرتا تھا ۔پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے روا رکھی جانے والی سرحدی نرمیوں نے سرحد کی دوسری جانب رہنے والوں کا دماغ خراب کردیا اور وہ سمجھنے لگے کہ وہ جس طرح ڈیورنڈ لائن کو آزانہ نقل و حمل کے لیے بلا کسی روک ٹوک کے استعمال کرتے ہیں ۔عین اسی طریق پر وہ سرحد پار سے دہشت گردی بھی پاکستان میں منتقل کرسکتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا۔ سچی بات تویہ ہے کہ کچھ برس تک تو انہوں نے واقعی ایسا کیا بھی اور بھارت کی معاونت سے پاکستان کو اپنی دہشت گردکارروائیوں کا نشانہ بناتے بھی رہے اور افغانستان سے دہشت گردی اور دہشتگردوں کو تھوک کے حساب سے امپورٹ و ایکسپورٹ کرتے رہے۔ تاآنکہ پاکستان نے مشکل ترین فیصلہ کرتے ہوئے تن تنہا،وسائل کی کمی،سخت موسم ،سرحد پار سے فائرنگ ،حملے اور طنز و تضحیک کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پوری سرحد پر باڑ کی تنصیب مکمل کر کے اسے ملک دشمن قوتوں کے لیے ناقابلِ رسائی نہ بنادیا۔

واضح رہے کہ پاکستان نے مغربی سرحد پر باڑ لگانے کے لیے بہت مشکلات جھیلی ہیں اوراس کی تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اَن گنت جاں باز جوانوں کا لہو اور پسینہ وافر مقدار میں بہایا ہے۔اس لیے یہ باڑ پاکستان کے لیے سرحدی باڑ سے بڑھ کر بھی بہت کچھ ہے ۔ اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ اس باڑ کی اونچائی 11 فٹ ہے اور یہ دہری باڑ ہے۔ ان دو باڑوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے اور باڑ کے اوپری حصہ پر کانٹے دار تاروں کے گچھے لگا دیئے گئے ہیں۔ یعنی 2640 کلومیٹر طویل علاقے پر باڑ لگا کر پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو بھی اَب دنیا کی کسی عام سرحد کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ و مامون بنادی گیا ہے۔ چونکہ یہ ریاست پاکستان کو حاصل ہونے والی ایک بہت کامیابی ہے ،اس لیے یہ آہنی باڑ اَب ملک دشمن قوتوں اور اُن کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح کھیلنے والوں کو ایک آنکھ نہیں بھارہی ۔ شاید اپنی اسی ہزیمت اور ناکامی کو چھپانے کے لیے سرحدی مودی کے منہ سے ریاست مخالف بیانیہ تسلسل کے ساتھ سننے کو مل رہا ہے۔ ویسے تو جس طرح تاریخ کے کوڑے دان میں سرحدی گاندھی کے نظریات و خیالات پڑے گل سڑ رہے ہیں ، اُسی طرح وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی و افغان عوام مل کر سرحدی مودی کے مذموم عقائد کو بھی تاریخ کے کوڑے دان کی نذ ر کردیں گے۔ مگر افسوس اور شرم کی بات یہ ہے کہ سرحدی مودی جس سیاسی اسٹیج اور سیاسی اتحاد کے پلیٹ فارم کو ریاست پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے لیے استعمال کررہاہے ، اُسے بنانے اور وہاں بیٹھنے والے اپنے ہیں۔ مگر اِن اپنوں کو ذرہ برابر بھی یہ احساس نہیں کہ ایک سرحدی مودی کے منہ سے پاکستان عوام پر دشنام طرازی کروانے سے و ہ ریاست ِ پاکستان کی سالمیت کو سنگین خطرے میں ڈالنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
جہاں تک بات ہے پاکستان اور افغانستان کے سفارتی تعلقات کی تو یقینا باڑ کی تعمیر اور پاکستان کی مغربی سرحد محفوظ ہو جانے سے اِن دونوں ممالک کے تعلقات بھی مستقبل میں مزید مضبوط سے مضبوط تر ہونے کی قوی اُمید باندھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ سرحد پر باڑ بن جانے کے بعد دونوں اطرف موجود کسی بھی دہشت گرد گروہ کے لیے ممکن نہیں رہا ہے کہ وہ بھارتی ایما پر کسی بھی ملک کو اپنی دہشت گردانہ کارروائی یا تخریف کاری کا آسان ہدف بناسکے۔ نیز اَب افغانستان عوام کو یہ گمراہ کن سبق بھی نہیںپڑھایاجاسکے گا کہ اُن کے ملک میں ہونے والی دہشت گردی سرحدپار سے ہوتی ہے۔دراصل گزشتہ تہتر برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب ریاست پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کا قضیہ نمٹانے کے لیے کوئی مخلصانہ کاوش کی اور خوش قسمتی سے وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ اگر ناکامی اور شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے تو وہ اُن چند لوگوں کو جو کل سرحدی گاندھی کا طوق اپنے گلے میں ڈال کرگلی گلی میں گھومتے تھے اور آج سرحدی مودی کی کالک اپنے چہرے پر مل کردنیا بھر سے سامانِ رسوائی سمیٹ رہے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر