وجود

... loading ...

وجود
وجود

کووڈ کے بعد ورکنگ خواتین کی مشکلات

پیر 25 جنوری 2021 کووڈ کے بعد ورکنگ خواتین کی مشکلات

(مہمان کالم)

ڈایانے کوئل

سال ہا سال سے امریکا میں ملازمت پیشہ خواتین کی کہانی اگرچہ سست روی سے مگر مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی بیورو آف لیبر کی طرف سے ملازمت کی فراہمی سے متعلق مہیا کردہ اعداد و شمار کو دیکھ کر شدید صدمہ ہوتا ہے۔ اس سال صرف دسمبر میں 14400 ملازمتیں ختم ہو گئیں، جو موجودہ معاشی کساد بازاری کا تسلسل سمجھا جا سکتا ہے۔مگر ایک طرف مردوں کی ملازمتوں میں قدرے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، تو دوسری طرف 1 لاکھ 56 ہزار خواتین کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ان کا تعلق زیادہ تر ہوٹل انڈسٹری اور تعلیم کے شعبوں سے تھا۔ مگر حیران کن طور پر اس عرصے کے دوران سفید فام خواتین کی ملازمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کا زیادہ نقصان رنگدار یا سیاہ فام خواتین کو ہوا ہے۔

یہ سب کچھ کووڈ کی نحوست ہے۔ بدقسمتی سے یہ سارا نقصان ان لوگوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے جو اسے برداشت کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے؛ چنانچہ امریکی معاشرے میں صنفی، طبقاتی اور نسلی عدم مساوات کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔ حالیہ عشروں میں خواتین کی ورک فورس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا تھا۔ 1980کی دہائی کے اواخر میں مردوں کی تنخواہ کے مقابلے میں خواتین کی تنخواہ اوسطاً 62 سینٹ فی ڈالر سے 81 سینٹ فی ڈالر بڑھ گئی تھی۔ 1972ء میں ورک فورس میں خواتین کا حصہ 44فیصد تھا جو 2020ء میں بڑھ کر 50 فیصد ہوگیا تھا۔ 1970ء کے اوائل میں خواتین کی ورک فورس میں سیاہ فام خواتین کا حصہ 49 فیصد تھا جو اب بڑھ کر 59 فیصد ہو گیا ہے۔ اسی طرح 1970 میں ہسپانوی نسل کی خواتین کا ورک فور س میں 41 فیصد حصہ تھا، اب اس میں بھی اضافہ ہو گیا تھا مگر بے یقینی کا احساس ان فوائد کے لیے ہمیشہ ایک خطرہ ثابت ہوا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس بات کو سمجھنے کے لیے امریکی عوام کو چاہئے کہ وہ ورک فورس کی صنفی (Gender) نوعیت کا اچھی طرح سے جائزہ لیں۔

معاشی استحکام کے دور میں بھی خواتین کی ملازمتیں کم تر ا سٹیٹس اور کم تنخواہ کے زمرے میں آتی تھیں مثلاً تعلیم کے میدان میں خواتین کل ورک فورس کا تین چوتھائی حصہ ہیں۔ فوڈ سروسز میں بھی ان کی ہی اکثریت ہے۔ ان شعبوں میں دسمبر کے اعداد و شمار حیران کن ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں خواتین کی ملازمتوں میں 62ہزار 500 نشستوں کی کمی واقع ہوئی جبکہ فوڈ سروسز میں خواتین کی 3 لاکھ 72 ہزار ملازمتیں ختم ہوئیں۔ اس نقصان کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ دریں اثنا 2019ء میں انہی تنخواہوں یا کم سے کم معاوضے پر کام کرنے والی خواتین زیادہ تر فوڈ کی تیاری یا فوڈ سروسز میں ہی ملازمت کرتی تھیں اور بدقسمتی سے کووڈ نے سب سے زیادہ اسی شعبے کو متاثر کیا ہے۔
گزشتہ مہینے ملازمتوں سے محروم ہونے والی خواتین کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ تحقیق سے پتا چلاہے کہ سفید فام خواتین کے مقابلے میں رنگدار خواتین کے معاوضے سب سے کم ہیں اس لیے وہ بچت کرنے کے بجائے مزیدقرضوں کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ ملازمت کھو جانے یا کم تنخواہ کی وجہ سے انہیں سب سے زیادہ خطرہ گھروں سے بے دخل ہونے کا رہتا ہے۔سست رفتاری سے پیدا ہونے والا یہ بحران امریکا کے لیے نیا نہیں ہے۔ یونیورسل ہیلتھ کیئر اور مضبوط سیفٹی نیٹ کی عدم موجودگی نے اسے امریکا کے لیے مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ 2000ء کے معاشی بحران کے بعد سے کم یا درمیانی تنخواہ والے افراد کے معیارِ زندگی میں کوئی خاص بہتری دیکھنے میں نہیں ا?ئی۔ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والی رنگدار خواتین کے لیے معاشی سکیورٹی بمشکل دستیاب ہے۔ آئندہ برسوں میں جدید تعلیم سے آراستہ لوگ سافٹ ویئر انجینئرنگ، مالیاتی مہارت والے شعبوں یا نالج اکانومی کی طرف بھاگیں گے۔ زیادہ تر سفید فام مرد اربن سنٹرز میں رہنا پسند کریں گے تاکہ وہ معاشی زبان کی اصطلاح میں سپر ا سٹار آمدنی کے مواقع سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگر اعلیٰ تعلیم تک رسائی استحکام کا باعث بنتی ہے تو خواتین کے لیے اس کے نتائج کہیں زیادہ سنگین ثابت ہو ں گے۔ اگر چہ امریکا میں بیچلر ڈگری ہولڈرز کی کل تعداد میں تما م نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا حصہ پچاس فیصد ہے مگر کل گریجویٹ خواتین میں سیاہ فام خواتین کی تعداد محض 6فیصد ہے۔

امریکا اور دیگر امیر ممالک میں سماجی سائنس دان اس حقیقیت کو ’’میتھیو ایفیکٹ‘‘ کی اصطلاح میں بیان کرتے ہیں جو بائبل کے ایک حوالے میتھیو 25:29 سے مستعار لی گئی ہے۔ ’’جس کسی کے پاس بھی کچھ ہے‘ اسے مزید دیا جائے گا اور اس کے پاس اس کی اکثریت ہو جائے گی مگر جس کسی کے پاس کچھ نہیں ہے اس کے پاس جو تھوڑا بہت ہے وہ بھی لے لیا جائے گا‘‘۔

چنانچہ معیشت نے متمول لوگوں کو مزید خوش حال اور پسے ہوئے طبقات کو مزید مفلوک الحال بنا دیا ہے۔ آنے والے مہینوں میں جب لوگوں کو بڑے پیمانے پر کورونا ویکسین لگے گی تو ہماری معیشت پھرسے اپنے پائو ں پر کھڑی ہو جائے گی اور ہماری سماجی سرگرمیاں پھر سے نارمل طریقے سے شروع ہو جائیں گی مگر گزشتہ ایک سال کے عرصے میں کورونا وائرس نے امیر اور غریب میں، مرد و خواتین میں، سفیدفام اور رنگدار لوگوں میں حائل طبقاتی خلیج کو مزید وسیع کر دیا ہے۔

ہسپتالوںاور ٹرانسپورٹیشن جیسے لازمی سروسز شعبوں میں ملازمت کرنے والے افراد جذباتیت کا شکار ہو گئے ہیں مگر انہیں قابل تبدیل آلہ کار سمجھ کر ڈیل کیا گیا ہے۔ ایک ہی مہینے کے ڈیٹا کو بار بار ا سٹڈی کرتے رہنا بھی دانشمندی نہیں ہوگی؛ تاہم ورکنگ کلاس خواتین خاص طور پر سیاہ فام اور ہسپانوی نڑاد خواتین کے حالات میں سست رفتار مگر مسلسل بہتری آنے کا سلسلہ ایک حد پر آ کر رک گیا ہے۔

کسی بھی معاشرے پر اگر ہم مسلسل بوجھ ڈالتے رہیں گے تو ایک مرحلے پر پہنچ کر ہمیں یہ سوچنا پڑے گا کہ اس پر کس حد تک مزید بوجھ ڈالا جا سکتا ہے؟ تعمیر نو یا معاشی بحالی‘ خواہ وہ پہلے سے بہتر ہی کیوں نہ ہو‘ کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ اگر ملازمت کرنے والی خواتین کی پروگریس کمزور یا ریورس بھی ہو گئی ہو تو ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ آنے والے دنوں میں اس پر مختلف طریقے سے عمل کرنے کے بارے میں سوچ لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر