وجود

... loading ...

وجود
وجود

قدرتی گیس کے وسائل

اتوار 24 جنوری 2021 قدرتی گیس کے وسائل

(مہمان کالم)

یاسریاکس

صدر طیب اردوان نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ بحیرہ اسود میں 2100میٹر کی گہرائی سے 320ارب کیوبک میٹرز گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ بیرات البیراق جو کہ صدر اردوان کے داماد بھی ہیں، نے گیس کے ذخائر کی دریافت کو ترکی کیلئے ایک اہم خبر قرار دیا جو کہ خطے میں ’’گیم چینجر‘‘ ثابت ہو گی۔ انہوں نے گیس کے مزید 2ذخائر کی دریافت کا بھی عندیہ دیا، جن کی تصدیق میں ابھی وقت لگے گا۔ اس لیے ذخائر کے مجموعی حجم اضافے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترکی جیسا ملک جو کہ اپنی ضرورت کی 98فیصد گیس درآمد کرتا ہے، اس ذخیرہ کی دریافت اس کے لیے بہت اہم ہے۔ ترکی کی گیس کی سالانہ کھپت 50ارب کیوبک میٹرز کے لگ بھگ ہے، جس کیلئے سالانہ 13 ارب ڈالر ادا کیے جاتے ہیں۔ بحیرہ اسود کی گیس سے ترکی کا توانائی کا مسئلہ کچھ حد تک حل ہو جائیگا، تاہم اسے ’’گیم چینجر‘‘ خیال کرنا حقیقت پر مبنی ہرگز نہیں۔

گیس کے ذخائر کو چھوٹے، درمیانے، بڑے یا پھر عظیم الجثہ کے خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بحیرہ اسود کے نئے ذخیرے کو ’بڑا‘ قرار دے سکتے ہیں، مگر دنیا کے دیگر عظیم الجثہ ذخائر سے موازنہ کر کے اس کے اصل سائز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ روس کے قدرتی گیس کے ذخائر کا حجم ایک اندازے کے مطابق 620 کھرب کیوبک میٹرز ہے، ایران کے ذخائر 440کھرب کیوبک میٹرز جبکہ قطر کے ذخائر کا اندازہ 320 کھرب کیوبک میٹرز لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ترکی کے نئے ذخائر قدرتی گیس کے روسی ذخائر کا تقریباً 0.5فیصد، ایران کے ذخائر کا تقریباً 0.7فیصد جبکہ قطر کے ذخائر کا تقریبا ایک فیصد ہیں۔

بحیرہ اسود کے قدرتی گیس کے ذخیرے کا حجم 320ارب کیوبک میٹرز ہونے کی اگر تصدیق ہو جاتی ہے، اس سے صرف چھ سال تک ترکی اپنی گیس کی ضرورت پوری کر سکے گا۔ مزید براں، اس گیس کو صارفین تک پہنچانے کے لیے کس قدر سرمایہ کاری کرنا پڑے گی، اس کا ابھی تک اندازہ نہیں لگایا گیا۔ دریافت قدرتی گیس کو صارف تک پہنچانے کا عمل کئی مرحلوں پر مشتمل ہے۔ سب سے پہلے ذخائر کی حقیقی مقدار کے تعین کے لیے کئی ٹیسٹ کرنا پڑتے ہیں؛ دوسرے مرحلے میں گیس نکالنے کے لیے کئی پلیٹ فارم تعمیر کیے جاتے ہیں۔ بحیرہ اسود اپنی تند و تیز لہروں کی وجہ سے کافی بدنام ہے۔ قدرتی گیس تلاش کرنیوالی ترکش نیشنل پٹرولیم کمپنی کے کئی پلیٹ فارم ان لہروںکی نذر ہو چکے ہیں۔ امید ہے کہ کمپنی نے اپنے تلخ تجربے سے کافی سبق سیکھے ہوں گے۔

گیس کے ذخیرہ کی 3500میٹر کی گہرائی بھی ایک چیلنج ہے کہ وہاں سے گیس نکالنے کے لیے ایک تیرنے والے پلیٹ فارم کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت رائل ڈچ شیل کا تیرتا ہوا پلیٹ فارم خلیج میکسیکو میں 2438 میٹر کی گہرائی سے گیس نکال رہا ہے، اس پلیٹ فارم کی تعمیر پر 3 ارب ڈالر سے زائد کی لاگت آئی تھی۔ ایک اور تیرتا ہوا پلیٹ فارم 2600میٹرز کی گہرائی سے گیس نکال رہا ہے۔ سادہ الفاظ میں ایسا پلیٹ فارم جو کہ 3500میٹر کی گہرائی سے گیس نکال سکے، اسے ابھی تیار کرنا ہو گا۔ اگر 2 متوقع ذخائر سے بھی گیس دریافت ہو گئی، غالب امکان ہے کہ ان کی گہرائی 3500میٹرز سے زیادہ ہو گی۔ گیس فیلڈ جتنا گہرا ہو گا، گیس نکالنے کی لاگت اسی قدر بڑھ جائے گی۔ نئے دریافت شدہ ذخیرہ سے گیس نکالنے کی لاگت کا اندازہ 5 سے 6 ارب ڈالر تک لگایا گیا ہے۔ ترکی کے لیے اس وقت قومی بجٹ میں اتنی بڑی رقم مختص کرنا ممکن نہیں، لامحالہ اس منصوبے کے لیے عالمی فنانشل مارکیٹ سے قرضہ حاصل کرنا پڑے گا۔

ترکی نے ملکی ضروریات پوری کرنے کیلئے کئی ملکوں کے ساتھ گیس کی خریداری کے معاہدے کر رکھے ہیں، ان میں تین ملک روس، الجزائر اور نائیجریا کے ساتھ معاہدوں کی میعاد اگلے سال ختم ہو جائے گی۔ ان ملکوں کے ساتھ گیس خریداری کے لیے بات چیت ایسے وقت میں ہوئی تھی جب ترکی کو گیس کی سخت قلت کا سامنا تھا۔ بحیرہ اسود میں گیس کی دریافت کے بعد تینوں ملکوں کے ساتھ خریداری کے نئے معاہدے کے حوالے سے ترکی قدرے مضبوط پوزیشن میں بات کر سکے گا۔ نئی دریافت نے صدر اردوان کو ترکش عوام کے ساتھ یہ وعدہ پورا کرنے کا موقع دیا ہے کہ وہ جدید ترکی کے قیام کی ایک صدی مکمل ہونے سے قبل ہر ترک صارف کو گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ ترکی کا اگلا صدارتی انتخاب جو کہ شیڈول کے مطابق 2023ء میں ہو گا، اس سے قبل صدر اردوان گیس منصوبے کی تکمیل یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

دیکھا جائے تو قدرتی گیس کی دریافت سے ترکی کچھ حد تک اپنے وسائل سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا، تاہم اس دریافت کو ترکی کے گوناگوں سنگین معاشی مسائل کے حل کا نسخہ کیمیا ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر