وجود

... loading ...

وجود
وجود

سفاک بھارت پھر بے نقاب

بدھ 20 جنوری 2021 سفاک بھارت پھر بے نقاب

گرفتار ٹی وی اینکر ارنب گوسوامی اور بی اے آر سی کے سربراہ کے پیغامات منظرِ عام پر آنے سے سفاک بھارت پہلی بار بے نقاب نہیں ہوابلکہ اکثر وبیشتر بھارتی چالبازیوں کا پردہ چاک اور سفاکیت بے نقاب ہوتی رہتی ہے پاکستان کے خلاف بنائی گئیں جعلی ویب سائٹس کا ای یو ڈس انفولیب نے بھانڈاپھوڑاجس سے بھارت کے جھوٹ،مکروفریب اورسازشی کردار کی حقیقت کھلی اب پلوامہ حملے کی سچائی طشت ازبام ہونے سے بھارتی ساکھ مزید مجروح ہوئی ہے لیکن ہمارے لیے بھی کچھ کرنے کاکام ہے اگر کلبھوشن جیسے دہشت گرد کی گرفتاری سے ہم سفارتی سطح پر کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے توسوال یہ ہے کہ کیا بھارت داعش،الاحرار،بی ایل اے،ٹی ٹی پی کے گٹھ جوڑ سے آئندہ بھی دہشت گردانہ کاروائیاں کرتا رہے گا تخریب کاروںکی سرپرستی ،قریبی روابط، اور مالی معاونت سربستہ راز نہیں جن کی گزشتہ برس اکتوبر میں امریکی جریدہ فارن پالیسی مفصل تفصیل شائع کرچکاہے بھارتی کمپنی سری واستوگروپ کی قائم سینکڑوں ویب سائٹس اور این جی اوز کے بے نقاب ہونے کے بعد مودی حکومت کے غیر اعلانیہ ترجمان ارنب گو سوامی کے نکشافات دل دہلا دینے والے ہیں اپنے فوجیوں کو نچلی ذات سے تعلق ہونے کی بناپر مار دینا اور پاکستان پر الزام لگانا بھارتی فطرت ہے جس کے خلاف عالمی سطح پر ایک مربوط اور منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

پلوامہ حملے کی پاکستان نے مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر بھارت کے پاس شواہد ہیں تو پیش کرے کاروائی کریں گے نیز مشترکہ تحقیقات کی بھی پیشکش کی لیکن بھارت کی جنونی قیادت نے ہوش وخُرد کے ناخن لینے کی بجائے پیش کی گئی تجاویز کو رَد کرتے ہوئے بدلہ لینے کے اعلان کردیا لیکن پاکستان نے کوئی ایسی حرکت کرنے گریز کیا جس سے خطے کا امن دائو پر لگتا حالانکہ بھارت نے بات چیت کے دروازے بند کرنے اور بدلہ لینے کے سوا کچھ بھی تسلیم کرنے پرآمادہ نہ تھا بھارتی اینکر ارنب گوسوامی اور براڈ کاسٹ آڈیئنس ریسرچ کونسل کے سربراہ پراتھوداس گپتا کے درمیان ہونے والی واٹس ایپ لیک ہونے سے دنیا پر حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ کیسے نچلی ذات کے چالیس فوجیوں کو قتل کرانے کا ڈرامہ کیا گیا اور پھر پاک بھارت جنگ کی فضا بنائی گئی، سچ سامنے آنے پر بھارت کورسوائی ، شرمندگی اورہزیمت کا سامنا ہے ایسا کسی اور ملک میں واقعہ ہوتا تو اب تک لوگ سڑکوں پر ہوتے اور اپنی قیادت کا محاسبہ کررہے ہوتے لیکن بھارتی حکومت کی طرح عوام بھی جنونی ہے کیونکہ ذات پات کی تقسیم مذہب میں شامل ہے اِس لیے نچلی ذات کا خون بہانے میں عار محسوس نہیں کیاجاتا لہذا یہ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ پلوامہ میں اپنے فوجی مارنے اور پھر مگر مچھ کی طرح آنسو بہانے کا مودی ڈرامہ دنیا کوبتائے کیونکہ دونوں شخصیات کی گفتگو سے بھارتی کاکے سیاہ کردار میں ابہام نہیں رہا یہ اِس امر کا بین ثبوت ہے کہ پاکستان ایک ایسی امن پسند ریاست ہے جو کسی ملک میںعدم مداخلت کی پالسی پر کاربند ہے اور کسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا ضرورت اِس امر کی ہے کہ سفارتی محاز پر فائدہ اُٹھانے کے لیے مستعدی وفراست سے لائحہ عمل بنا کر کام کیا جائے اور یہ جو ترجمانوں کی فوج ہے اُسے اپوزیشن کے لتے لینے کی بجائے ملکی مفاد ات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جائے۔

کیا اِس میں کسی کو شک ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت ٹکرائو کی پوزیشن پر آگئے تھے مگر پاکستان کی امن پسندی اور تحمل سے ٹکرائو کی نوبت نہ آئی، بھارتی طیاروں نے نہ صرف پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی بلکہ بالاکوٹ میں خیالی دہشت گردی کے مراکز تباہ کرنے کی غرض سے حملہ کیا مگر پاکستان کی فضائیہ نے بروقت حرکت میں آکر نہ صرف بھارت کے جنگی جہازوں کو راہ فراراختیار کر نے پر مجبور کر دیا بلکہ اگلے ہی دن بھارت کی حساس تنصیبات کے قریب بمباری کرکے ایسا دندان شکن جواب دیا جس سے نہ صرف دنیا کو پاکستان کی جنگی مہارت کا اندازہ ہوابلکہ دولڑاکاطیارے تباہ ہونے اور ایک پائلٹ ابھی نندن کی گرفتاری سے بھارت کو سُبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

مادہ سانپ زیادہ ترنوزائیدہ سنپولیے کھا جاتی ہے ارنب گو سوامی پلوامہ حملے کے بعد گفتگو میں دعویٰ کرتا ہے کہ ہم جیت گئے ہیں حالانکہ چالیس فوجی مارے گئے اپنے فوجیوں کی جان جانے کو بھلا کوئی فتح کہہ سکتا ہے؟علاوہ ازیں بی اے آر سی کے سربراہ سے بات چیت کرتے ہوئے 23 فروری کو ارنب گوسوامی پاکستان کے حوالے سے بڑی خبر کی اطلاع دیتا ہے واضح طور پر لکھتا ہے کہ 26 فروری 2019کو پاکستان کے خلاف بھارت معمول سے کچھ بڑھ کر کاروائی کرنے والا ہے اُسے آرٹیکل 370 کی منسوخی کا بھی پیشگی علم تھایہ بات چیت گھٹیا بھارتی سوچ کی عکاس ہے اور اِس بات کی تصدیق ہے کہ مادہ سانپ تو اپنے سنپولیے کھاتی ہے لیکن بھارت ایسا ملک ہے جو اپنے محافظوں کو بھی نہیں بخشتا اور اُن کی جان لے لیتا ہے پلوامہ حملے میںپنہاں پیغام یہ ہے کہ جو ہندو قیادت انتخابی کامیابی کے لیے اپنے محافظوں کی سفاکی سے جان لے سکتی ہے اُس کے شر سے کوئی ملک یا قوم محفوظ نہیں رہ سکتی ۔

بھارت بلاشبہ ہندو ریاست بننے کا سفر بڑی تیزی سے طے کرتا جارہا ہے اُس کے اِدارے اورایجنسیاں بھی بدمعاشی کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے یہ ایسا ملک ہے جو اپنی عوام کی غربت دور کرنے اور انھیں سہولتیں دینے کی بجائے خطے کا امن برباد کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے بی جے پی بزور ہندو راج قائم کرنے پر یقین رکھتی ہے اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنانے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے مگر دنیا نے ریاستی بدمعاشی کی کچھ ذیادہ مذمت نہیں کی بلکہ عملاََ چشم پوشی اختیارکر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ نریندرمودی کی فاشسٹ حکومت بلاخوف و خطر مذموم منصوبوں پر عمل پیرا ہے لیکن ہندوراج سے چشم پوشی کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2017 میں نئے سال کی تقریبات کے آغاز پر ترکی کے کلب پر ہونے والے حملے میں نہ صرف بھارتی شہریوں کے ملوث ہونے کی تصدیق ہو چکی بلکہ اسی برس نیو یارک سمیت اسٹاک ہوم حملوں میں بھی بھارتی شہری ملوث پائے گئے 2019 میں ایسٹر کے موقع پر سری لنکا میں ہونے والے بم دھماکوں کی تحقیقات میں بھی بھارتی ہاتھوں کی کارستانی کی تصدیق ہوچکی لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ دنیا بھارتی خطرے اورسیاہ کاریوں کا نہ صرف ادراک کرے بلکہ سدِ باب کے لیے نتیجہ خیز لائحہ عمل ترتیب دے چین سے تجارتی جنگ کے لیے بھارت کو بطور مُہرہ استعمال کرنے والے امریکی بھی رویے پر نظرثانی کریں کہیں ایسا نہ ہو تاخیر سے دنیا کے امن کوایک مہیب خطرہ لپیٹ میں لے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر