وجود

... loading ...

وجود
وجود

وعظ کی بدحالی

هفته 16 جنوری 2021 وعظ کی بدحالی

امریکا ایسا وعظ ہے جو مذہبی آزادی ،برداشت ،رواداری اور جمہوریت کی تلقین کرتا ہے لیکن حالیہ صدارتی الیکشن کے بعد اِس کا حال بہت بُرا ہے یہ بدحالی اُس کے عالمی کردار کو محدود کر سکتی ہے بدحالی نئے منتخب صدرسے عالمی تنازعات میں الجھنے کی بجائے اندرونی حالت بہتر بنانے کی متقاضی ہے چھ جنوری کے واقعات نے وعظ کی بدحالی دنیا پر آشکار کردی ہے لیکن یہ بدحالی ایجادات اور ترقی سے دور ہونے والی نہیں بلکہ معاشرے میں سرایت کرنے والی نسلی منافرت کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔

انتخابی مُہم کے دوران ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کر دیا تھا کہ شکست کی صورت میں نتائج تسلیم نہیں کریں گے اورجب حتمی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہواتو کہے پر عمل بھی کیامگر عدالتوں کے ذریعے نتائج رکوانے میں کامیابی نہ ملی ایسا لگتا ہے کہ شکست سے محسوس ہونے والی ذلت و رسوائی ابھی تک اُن کے ذہن پر سوار ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اگر انتخابی نتائج رکوانے میں چاہے کامیاب نہیں ہو سکے اور اُن کی صدارتی مدت میں محض چھ دن باقی رہ گئے ہیں تو نو منتخب صدر جوبائیڈن کی 20 جنوری کو منعقد ہونے والی حلف برداری کی تقریب میں ہی خلل ڈال دیں لیکن یہ رویہ صحت مندانہ جمہوری روایات کے مطابق نہیں کانگرس کی عمارت پر حملے کے بعد امریکیوں میں یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ جمہوریت خطرے میںہے ایک جائزے کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ77 فیصد ری پبلکن اور76فیصد ڈیموکریٹس سمجھتے ہیں جمہوریت کو خطرہ ہے جبکہ چھپن فیصد ووٹر ٹرمپ کو کیپٹل حملے کا ذمہ دار جبکہ بیالیس فیصد بری الزمہ قراردیتے ہیں یہ امریکی جمہوریت کی کمزوری ظاہرکرتی ہے اِس لیے جمہوریت ،رواداری اور برداشت کادرس دینے والے امریکا کے خود کچھ سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے ٹرمپ غیر جمہوری طریقے سے نہیں بلکہ کروڑوں امریکیوں نے ملک کو درپیش مسائل کا تدارک سمجھ کرصدر منتخب کیا اگر ٹرمپ کا لب و لہجہ درست نہیں یامتعصب ہیں تو اُنھیں منتخب کرنے والے کروڑوں لوگ بھی موجودہ صورتحال کے زمہ دارہیں جنھیںشائستہ بنانے کی تلقین لازم ہے۔

چھ جنوری کو امریکی جمہوریت میں پنپنے والے غیر جمہوری رویوں کا تماشہ ساری دنیا نے دیکھا ایک طرف اگر اتحادیوں نے مزمت کی تو کچھ ممالک نے سُکھ کا سانس لیا کیونکہ انھیں امریکا میں طاقت پکڑنے والے غیر جمہوری رویوں پر تنقید کا موقع ملا ہے دنیا کی واحد سُپر طاقت کے دارالحکومت پرتاریخ میں دوسری دفعہ ہونے والی چڑھائی کے دوران قانون سازاِدارے کے اراکین کو چُھپ کر جانیں بچانا پڑیں لیکن اِس بارطانوی فوجی چڑھائی کرنے نہیں آئے بلکہ دارالحکومت کو روندنے کا کام خود امریکیوں نے کیا جس کے بعدیہ سوال پھن پھیلائے کھڑاہے کہ کیاآئندہ دنیا کی واحد سُپر طاقت کسی ملک کے انتخابی نتائج کی شفافیت کی بابت وعظ کر سکے گی؟ موجودہ حالات میں ایسا کہنا مشکل ہے کیونکہ جس ملک کے صدر کے انتخابی نتائج بارے امریکی مخمصے میں ہیں وہ کسی اور ملک کو منصفانہ ،غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کی تلقین کاحق نہیں رکھتا روس ،چین ،ایران جیسے ممالک کے پاس اب جواب دینے کے لیے کافی مواد ہو گیا ہے اِ س لیے کسی سے شخصی آزادی کا مطالبہ کرنا خاصہ دشوار ہوگا کیونکہ جو ملک اپنے قانون ساز اِدارے کانگرس کے اراکین کو آزادانہ کام کرنے کا ماحول دینے کی سکت سے محروم ہو وہ کسی اور سے کیونکر مطالبات کا خلاقی جواز رکھتا ہے۔

جمہوریت کے درس دینے والے امریکا نے تیسری دنیا میں ہمیشہ غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار کی تبدیلی کی حمایت اور پارلیمنٹ کی بجائے آمریت کی حوصلہ افزائی کی پاکستان میں بھی جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر اقتدار چھننے والوں کی سرپرستی ہوتی رہی تاکہ سرپرستی کے عوض مطالبات منوائے جا سکیں ٹرمپ بھی شمالی کوریا کے آمر کم جونگ آن کی تعریف اور اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بنا کر تذلیل کرتے رہے علاوہ ازیں مذہبی آزادی کے علمبردار امریکا نے بھارت میں بدترین مذہبی تعصب اور کشیدگی سے آنکھیں بند رکھیں مگر ایسے ممالک کے بارے میں حقائق کے منافی رپورٹس جاری کیں جہاں مذہبی آزادی کی صورتحال کافی بہتر ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے اُسے مخالف بلاک سے شکایات کے سواکچھ کرنا نہیں آتا مگرجو کٹھ پتلی کے کردار پر رضا مند ہو اُس کی خامیاں نظرانداز کردیتا ہے ٹرمپ نے اقتدار کے دوران مذہبی آزادی کے منافی ایک سے زائد فیصلے کیے جن سے مسلم مخالف جذبات پروان چڑھے اور جمہوری قدروں کی مٹی پلید ہوئی ممکن ہے صورتحال میں عمر رسیدہ نئی قیادت بہتری لانے میں کامیاب ہو جائے مگر طویل عرصہ تک پیہم کوشش کرنا ہوگی عمررسیدہ قیادت کی طرح جمہوریت کو بھی بوڑھا اور ناکارہ سمجھ لیا گیااورسفید فام کی برتری اورنسلی پرستی کے جذبات کم نہ ہوئے تو اتحاد و یگانگت کی فضا پر نہایت منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

دنیا بھر میں امریکا تشدد کی روک تھام کا قائل ہے لیکن خود اندرونی طور پر اُسے تاریخ کے بدترین انتشار ،تقسیم اورنسلی تشدد کا سامنا ہے معاشرے میں رواداری اور برداشت کا عنصر کم ہوتا جارہاہے امریکی اِداروں میں بھی گورے اور کالے کی نسلی تفریق بڑھ رہی ہے جسے ٹرمپ نے مہمیز دی اسی کا عکس چھ جنوری کودنیا نے دیکھا ابھی تو چار اموات بھی ہوئیں مگر اسلحے کی بہتات والے معاشرے میں انتشار وتفریق سے نقصانات میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ کئی ریاستوں میں اسلحے کے لائسنس کا وجود تک نہیں کچھ علاقوں میں لوگ ڈرائیونگ لائسنس دکھا کر اسلحے کا پر مٹ حاصل کر سکتے ہیں دنیا بھر کے شہریوں کے پاس اگر پینسٹھ کروڑ ہتھیار ہیں تو اِن میں سے چالیس کروڑ کے لگ بھگ امریکیوں کے پاس ہے جو ددنیا بھر کے اسلحہ بردار شہریوں کا اِ کسٹھ فیصد بنتا ہے اِس لیے امریکی قیادت کو چاہیے کہ دنیا کو نصیحت کرنے کی بجائے ملک میں امن و آشتی کی فضا قائم کرنے کی طرف دھیان دے موجودہ صدارتی الیکشن کے نتائج نے صرف نسلی منافرت کو ہوا نہیں دی بلکہ ریاستوں میں بھی خلیج پیدا کر دی ہے دنیا کو وعظ کرنے والا امریکا خود کیسے درپیش حالات پر قابو پاتا ہے یہ جو بائیڈن کے ساتھ اِداروں کا امتحان ہے۔

ٹرمپ کو مدتِ صدارت کی تکمیل سے قبل دوسری بارمواخذے کی تحریک کا سامنا ہے ایوانِ نمائندگان کے تین ری پبلکن سینٹر کی حمایت سے223 مواخذے کی قراردار منظور کرلی ہے جبکہ مخالفت میں 205 ووٹ پڑے قراردار میں کہا گیا ہے کہ نائب صدر مائیک پینس اور کابینہ ٹرمپ کو نااہل قراردیکر اُن کو آفس سے بے دخل کرے لیکن نائب صدر ایسے کسی اقدام پر تیار نہیں جس سے بیس جنوری کو حلف برداری کی تقریب اور اقتدار کی منتقلی کے بارے شکوک وشبہات پیداہونا فطری امر ہے چاہے کیپٹل ہل حملہ کومحکمہ انصاف بغاوت کہے اور فوج آئین کے دفاع کرنے کا عزم دُہرائے امریکی معاشرے کو لگے زخم آسانی سے مندمل ہونے والے نہیں جب تک نسلی و مذہبی منافرت کا خاتمہ نہیں ہوتااور جمہوریں قدریں مضبوط نہیں ہوتیں ٹرمپ کے سوشل میڈیا اکائونٹ اور یو ٹیوب چینل بند کرنا کافی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر