وجود

... loading ...

وجود
وجود

زیر زمین دنیا کا ایک افسانوی کردار۔سیٹھ عابد، ہیرو یا اسمگلر

جمعرات 14 جنوری 2021 زیر زمین دنیا کا ایک افسانوی کردار۔سیٹھ عابد، ہیرو یا اسمگلر

کہا جاتا ہے کہ جب امریکی حکومت نے پاکستان پر ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ درآمد کرنے کے خلاف مہم چلائی تو فرانس نے اس کے دباؤ پرگھٹنے ٹیک دیئے۔اور پاکستان سے اپنا معاہدہ منسوخ کردیا۔ ایسے میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لیے مشینری کی خفیہ درآمد اور پاکستان منتقلی میں اہم کردار جس شخصیت نے ادا کیا ، وہ سیٹھ عابد حسین مرحوم تھے۔یہ کہانی سچ ہے یا جھوٹ اس کی تصدیق آج تک نہیں ہوسکی۔تاہم بعض معتبر شخصیات اتنی تصدیق ضرور کرتی ہیں کہ سیٹھ عابد کی پاکستان کی سلامتی کے لیے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
سیٹھ عابد کے حوالے سے ایک اور دلچسپ کہانی بھی مشہور ہے وہ یہ کہ کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک زمانے میں ان سے 5 کروڑ روپے پیپلز پارٹی کے لیے بطور فنڈ طلب کیے۔ تاہم سیٹھ عابد نے انکار کردیا۔ جواب میں ان کے خلاف کارروائیاں شروع کردی گئیں۔ لاہور میں سیٹھ عابد کی اکلوتی بیٹی نصرت شاہین کی گرفتاری عمل میں آئی۔ لیکن جوابی وار بھی کرارا ہوا۔ اور ادھرلندن میں زیر تعلیم بے نظیر بھٹو کو اغوا کرلیا. گیا۔ بعد میں سمجھوتے کے تحت دونوں لڑکیوں کی رہائی عمل میں آئی۔تاہم یہ واقعہ بھی سینہ بی سینہ چلنے والی داستانوں میں سے ایک ہے۔اس میں حقیقت کتنی ہے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

سونے کے بعد سیٹھ عابد نے غیر ملکی کرنسی کی اسمگلنگ کا کام شروع کیا۔ بعد میں وہ دیگر کاروباروں خصوصاً ریئل اسٹیٹ سے وابستہ ہوئے۔۔

شیخ عابد حسین کا آبائی تعلق پنجاب کے ضلع ’قصور‘ سے تھا۔ ان کے والد کاروبار کے سلسلے میں کراچی منتقل ہو گئے تھے۔ سیٹھ عابد کے والد بھی سونے اور چاندی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ ان کا خاندانی کاروبار تھا۔
کاروبار سے منسلک سیٹھ عابد کو اسے بام عروج پر پہنچانے کی دھن تھی۔ اپریل 1958 میں لاہور جانے والے ایک مسافر کو کراچی ایئرپورٹ پر روکا گیا تو ان کے پاس سے 3100 تولہ سونا برآمد ہوا۔ کراچی کسٹم حکام نے جب پریس ہینڈ آؤٹ میں بتایا کہ انھوں نے 2000 تولے سونا ضبط کیا ہے تو پولیس کی تحویل میں موجود اس مسافر نے ان کی تصحیح کی کہ یہ 2000 نہیں 3100 تولے سونا تھا۔یہ مسافر سیٹھ عابد تھے۔

کہا جاتا ہے کہ ان ہی دنوں سیٹھ عابد پارٹنر کے ساتھ خلیج کے کسی ملک سے سونا اسمگل کر کے پاکستان لا رہے تھے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کر دیا. دونوں نے مل کر بحیرہ عرب میں کہیں سونے کو چھپا دیا۔ بعد میں پارٹنر کا انتقال ہوگیا تو سونا سیٹھ عابد کی ملکیت میں آگیا۔۔

لاہور سے نکلنے والے ایک اخبار نے سنہ 1977 میں اس شخص کو کچھ ایسے بیان کیا ’گولڈن مفرور، ایک غیر معمولی شخص، بھیس بدلنے کا ماہر اور لومڑی جیسا چالاک۔

سیٹھ عابد پاکستان کے علاوہ دنیا کی کئی ملکوں کی پولیس کو مطلوب تھے،ان کا نام انٹرپول کی فہرست میں بھی شامل تھا اور یہ اکثر دلی، دبئی اور لندن کا سفرکرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ لندن، دلی اور دبئی میں رابطوں کے ساتھ سیٹھ عابد نے 1950 سے 1980 کے دوران سونے کی اسمگلنگ پر اجارہ داری قائم کرکے خطے میں بھارتی اسمگلروں کا نیٹ ورک تباہ کردیا تھا۔ 1963 میں ٹائمز آف انڈیا نے لکھا کہ پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ کے بھارت میں ’روابط‘ ہیں،ان کے بہنوئی کو دلی میں سونے کی 44 اینٹوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔برٹش ایئرویز میں کام کرنے والے چارلس میلونی کو سیٹھ عابد کا برطانیا میں ’سہولت کار‘ کہا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سیٹھ عابد کے خلاف کئی دیگر کارروائیاں بھی ہوئیں۔ 1974 میں لاہورمیں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر پولیس کے چھاپے میں پاکستانی کرنسی جس کی اس وقت مالیت تقریباً 12.5 ملین تھی برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس لاکھ مالیت کا سونا، 20 لاکھ مالیت کی سوئس گھڑیاں بھی برآمد ہوئیں۔ وزیر اعظم بھٹو نے ’سیٹھ عابد انٹرنیشنل ا سمگلنگ کیس‘ کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ تاہم سیٹھ عابد ٹریبونل کے سامنے کبھی پیش نہ ہوئے۔ملک کے طول و عرض میں ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جاتے رہے۔

تاہم ستمبر 1977 میں سیٹھ عابد نے ضیا حکومت میں سرنڈر کیا،اس کے بعد ان کے معاملات بہتر ہونے لگے۔ان دنوں سیٹھ عابد نے فلاحی کاموں کے لیے بھی پیسہ لگانا شروع کیا۔خصوصاً اسپتالوں کے لیے انہوں نے بڑے عطیات دیئے۔

اخبارات نے انھیں ہمیشہ ’ پاکستانی سونے کے اسمگلر‘ کی حیثیت سے پیش کیا۔سیٹھ عابد کو اس پر گلہ رہا۔ اپنے وڑن کو واضح کرتے ہوئے سیٹھ عابد نے لاہور کے ایک اخبار کے ایڈیٹر کو بتایا: ’مجھے سونے کا اسمگلر کیوں کہا جاتا ہے؟ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے لیے سستا سونا فراہم کرتا ہوں۔ میں معاشرے اور ریاست کے لیے بھی عمدہ خدمات انجام دے رہا ہوں۔مگر کسی بھی تعریف اور پہچان کی بجائے میں بدنام ہوچکا ہوں۔نومبر 2006 میں سیٹھ عابد کو گہرے صدمے کا سامنا کرنا پڑا ، جب ان کے بیٹے حافظ ایاز کو ان کے گارڈ نے لاہور میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔سیٹھ عابد کے دو بیٹے اور بھی ہیں تاہم وہ معذور ہیں۔وزیراعظم عمران خان کا سیٹھ عابد کے بارے میں کہنا ہے کہ سیٹھ عابد نے شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے بھی بہت مدد کی تھی۔

چوہدری شجاعت حسین کے مطابق بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہوںگے کہ سیٹھ عابدکی پاکستان کے تحفظ وسالمیت کے لیے بہت سی خدمات ہیں۔میں ذاتی طورپرجانتا ہوں کہ سیٹھ عابدنے جوقومی خدمات اداکیں وہ بہت ہی کم لوگوں کونصیب ہوتی ہیں۔سیٹھ عابد حسین علالت کے بعد نو جنوری 2021 کو 85 برس کی عمر میں کراچی کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے۔انہیں شہر قائد کے ماڈل کالونی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر