وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں دینی مدرسوں کو ختم کرنے کا قانون منظور

پیر 11 جنوری 2021 بھارت میں دینی مدرسوں کو ختم کرنے کا قانون منظور

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دینی مدارس ہندوستان میں اسلام کی بقاء اور تسلسل کا واحد ذریعہ ہیں۔ان مدرسوں سے دینی تعلیم کی جو شمعیںجلی ہیں، انھوں نے پورے برصغیر کو روشن کیا ہے۔ملک کے چپے چپے پر موجود ان مدرسوں سے فارغ ہونے والے علمائے کرام اور مفتیان عظام نہ صرف دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں بلکہ اسلام کے پرچم کو بلند رکھنے میں بھی مدد گارہوتے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ اس ملک میں اسلام کے فروغ میں ان مدرسوں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی توسیع واشاعت سے خوفزدہ فرقہ پرست اور فسطائی عناصر ایک زمانے سے ان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور انھیں مٹانے کے درپہ ہیں۔جب سے بی جے پی مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے تب سے اس قسم کی کوششوں نے رفتار پکڑ لی ہے اور وہ اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کی جان توڑ کوششیں کررہے ہیں۔نجی خرچہ اور چندے پر چلنے والے مدرسوں پر تو حکومت کا زور نہیں چل رہا ہے مگر اب حاکمان وقت نے ان مدرسوں اور مکتبوںکو ختم کرنے کی کارروائی شروع کردی ہے جو سرکاری امداد سے چلتے ہیں۔ اس سلسلہ کا پہلا قدم سب سے زیادہ مسلم آبادی والی ریاست آسام میں اٹھایا گیا ہے۔گزشتہ ہفتہ آسام اسمبلی میں ایک ایسا بل پاس کیا گیا ہے جس کے تحت سرکاری امدادیافتہ مدرسوں کو ایک جھٹکے میں ختم کردیا گیا ہے اور انھیں اسکولوں میں تبدیل کرنے کے احکامات دے دئیے گئے ہیں۔

صوبائی وزیر تعلیم ہمانتا بسواشرما نے اس بل کو اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ان کے ایجنڈے اور ذہنیت کو پوری طرح واضح کرتا ہے۔انھوں نے سرکاری مدرسوں کو عام اسکولوں میں تبدیل کرنے کا بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’سبھی مدرسے ہائی اسکولوں اور مڈل اسکولوں میں تبدیل ہوںگے۔‘‘انھوں نے کہا کہ ’’ ہمیں ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم منہ بھرائی نہیں کرتے۔ اس فرقہ سے ہمارا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ ہم سیاست سے اوپر اٹھ کر اس فرقہ کو ترقی یافتہ بنانا چاہتے ہیں۔ جب بچے ان اسکولوں سے ڈاکٹر اور انجینئر بن کر نکلیں گے تب آپ کو اندازہ ہوگا۔‘‘آسام کے وزیرتعلیم ہمانتا بسوا شرما کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ انتہائی فرقہ پرست ذہنیت کے حامل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں جب شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کا معاملہ چل رہا تھا تو آسام میں نام نہاد گھس پیٹھیوں کو ملک بدر کرنے یا انھیں ڈٹینشن سینٹروں میںبھیجنے سے متعلق سب سے زیادہ اشتعال انگیز بیان وہی دیاکرتے تھے۔

یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر آپ مسلمانوں کو ڈاکٹر اورانجینئر بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے مسلم بستیوں میں نئے اسکول اور کالج کیوں نہیں کھولتے ؟ ان مدرسوں کو فنا کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں ، جو مسلمانوں کی دینی ضرورتوں کو پورا کررہے ہیں۔جس وقت یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس پر کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف نے اسمبلی سے واک آئوٹ کیا۔ انھوں نے اس بل کو سلیکشن کمیٹی کے پاس بھیجنے کا مطالبہ کیا ،جسے مسترد کردیا گیا۔اسپیکر نے اس بل کو صوتی ووٹ سے پاس کرانے کا فیصلہ کیا۔ زبردست ہنگامے کے درمیان بل کو اکثریت سے پاس کردیا گیا۔بی جے پی کی حلیف پارٹیوں آسام گن پریشد اور بوڈو لینڈ پیوپلز فرنٹ نے سرکار کے اس قدم کا ساتھ دیا۔ وزیرتعلیم ہمانتا بسوا شرما نے مزید کہا کہ’’ وہ کسی فرقہ کے مخالف نہیں ہیں۔ بنیاد پرستی کی مخالفت کرنا اسلام کی مخالفت کرنا نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ مسلم بچوں کو ڈاکٹر اورانجینئر بنانا کبھی اسلام دشمنی نہیں ہوسکتا۔انھوں نے اس موقع پر آئین ہند کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر کا بھی حوالہ دیاکہ نصاب میں مذہبی ہدایات کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونا چاہئے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے خرچہ پر قرآن کی تعلیم نہیں دی جاسکتی۔ ان مدرسوں میں بھگوت گیتا، بائیبل اور دیگر مذہبی کتابوں کی تعلیم نہیں دی جارہی ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ بل کسی فرقہ سے دشمنی کی بنیاد پر نہیں لایا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد معاشرے کے ایک پسماندہ اور استحصال زدہ طبقہ کو اوپر اٹھانا اور ان کی پسماندگی کو دور کرنا ہے۔‘‘

 

بظاہر مسلم طلباکو ڈاکٹر اور انجینئر بنانے کی بات اتنی دلکش اور دلنشین ہے کہ کوئی بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا، لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کی دینی تعلیم کا نظام ختم کرکے ہی انھیں ڈاکٹر اور انجینئر کیوں بنانا چاہتی ہے۔اس کام کے لیے پسماندہ مسلم بستیوں میں جدید تعلیم کے اسکول کھول کر اس ضرورت کو پورا کیا جاسکتا۔درحقیقت ماڈرن تعلیم کی آڑمیں ان مدرسوں کو ختم کرنے کا مقصد ملک میں دینی تعلیم کے نظام کو تہس نہس کرنا اور مسلمانوں کو اپنے مذہب سے بیگانہ بنانا ہے جس کی شروعات سرکاری مدرسوں سے کی گئی ہے۔ اس کے بعد پورا اندیشہ ہے کہ اب ان مدرسوں پر ہاتھ ڈالا جائے گاجو سرکاری گرانٹ حاصل کرتے ہیں۔ ایسے مدرسوں کی تعداد بھی ملک میں کچھ کم نہیں ہے۔ ہر صوبے میں ایسے مدرسے موجود ہیں ، جو مدرسین کی تنخواہیں حکومت سے لیتے ہیں اور یہ تنخواہیں اس لیے دی جاتی ہیں کہ یہ دینی مدرسے محدود وسائل کے اندرناخواندگی دور کرنے کے سرکاری مشن کو پورا کررہے ہیں۔ہندوستان میں ناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہے اور اگر کہیں بھی کوئی اسے دور کرنے کی کوشش کررہا ہے تو وہ سرکاری امدادپانے کا مستحق ہے۔ اس معاملے میں مدرسوں کا کردار بڑا مثبت اور تعمیری ہے۔کسی سرکاری انفرااسٹرکچر کے بغیر بنیادی تعلیم کو عام کرنا ایک بہت بڑا کام ہے جو پورے ملک میں دینی مدرسے انجام دے رہے ہیں۔ ملک میں کسی دوسرے فرقہ کے پاس اس قسم کی تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کئی سرکاری رپورٹیں مدرسوں کی اس بیش بہاخدمت کو خراج تحسین پیش کرچکی ہیں۔آسام کا نیا قانون دو موجودہ قوانین کو منسو خ کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ان میں 1995 کا آسام مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ اور 2018کا مدرسہ ملازمت سے متعلق ایکٹ شامل ہے۔ آسام میں فی الحال سرکاری سطح پردو قسم کے مدرسے چل رہے ہیں۔ ان میں بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے ماتحت چلنے والے189 مدرسہ ہائر سیکنڈری اسکول ہیں۔ ان کے علاوہ542 مدرسے اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ماتحت ہیں ، جو پری سینئر،سینئر اور عربک کالج کہلاتے ہیں۔صوبائی حکومت نئے قانون کے تحت اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو تحلیل کرنے جارہی ہے۔ ان مدرسوں میں جو اساتذہ مذہبی تعلیم دے رہے تھے ، انھیں دوسرے مضامین پڑھانے کی تربیت دی جائے گی اور اب وہ قرآن وحدیث پڑھانے سے باز رہیں گے۔اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے کے لئے حکومت نے اتنا ضرور کیا ہے کہ صوبے میںچل رہی سنسکرت پاٹھ شالائوں کو اب اسٹڈی سینٹر، ریسرچ سینٹر کہاجائے گا۔ البتہ ان کا نصاب اور مقصد برقرار رہے گا۔

مدرسوں کے بارے میں حکمراں بی جے پی کی جوسوچ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔حکمراں جماعت کے لوگ ان مدرسوں کو دہشت پھیلانے کے اڈے اور مسلمانوں کو بنیاد پرست بنانے کی آماج گاہیں قرار دیتے رہے ہیں۔اس بے ہودہ پروپیگنڈے کا واحد مقصد مدرسوں کو بدنام کرکے ان کے وجود کو مٹانا ہے۔اس کے پیچھے جوخطرناک سازش کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ کسی طرح اس ملک سے اسلام کا نام ونشان مٹایا جائے۔ مدرسوں کو چونکہ اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے اس لیے انھیں مسمار کرکے جدید تعلیم کے اسکولوں میں بدلنے کا کام شروع کیا گیا ہے۔ یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ آرایس ایس کی ذیلی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ میں مدرسوں کی نگرانی کرنے والی ایک شاخ موجود ہے، جسے مدرسہ شکشا بورڈ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ شاخ ان مدرسوں پر گہری نگاہ رکھتی ہے جو کسی بھی شکل میں سرکاری امداد حاصل کرتے ہیں۔ راشٹریہ مسلم منچ کے پاس ملک بھر کے مدرسوں کی فہرست موجود ہے اور یہ تنظیم نہایت باریک بینی کے ساتھ اپنے مشن پر کام کررہی ہے۔ آسام میں سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کو ختم کرنے کا کام اسی تنظیم کے ایماء پر کیا گیا ہے۔یہ اہل مدارس کے لیے بیدار ہونے کا سب سے صحیح وقت ہے کیونکہ دینی مدرسوں کو موجودہ نصاب کے ساتھ قائم رکھنا بے حد ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر