وجود

... loading ...

وجود
وجود

خانہ جنگی کی طرف بڑھتا افغانستان

هفته 09 جنوری 2021 خانہ جنگی کی طرف بڑھتا افغانستان

(مہمان کالم)

ڈیوڈ زکینو

چار عشروں پر محیط شدید خونریزی کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے حالیہ امکان سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ تشدد کا یہ دور ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا مگر یہ سنگِ میل ابھی بہت دور ہے۔ بات چیت کا تازہ ترین سلسلہ‘ جو ستمبر میں شروع ہوا تھا‘ معمولی نوعیت کے ایشوز پر افسر شاہی کی رکاوٹوں اور مہینوں سے جاری طویل بحث و تمحیص کی نذر ہو گیا ہے۔
اگرچہ ان مذاکرا ت کے نتیجے میں اصولوں اور پروسیجرز پر ایک معاہدہ ہو گیا تھا جو اگلے امن مذاکرات کے لیے رہنمائی فراہم کرے گا مگر اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ ایک طرف دونوں فریق دوحہ میں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور دوسری جانب افغان شہروں میں خونریزی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ نئے مذاکرات پانچ جنوری کو ہونا طے ہیں مگر یہ واضح نہیں ہے کہ آئندہ مذاکرات کن موضوعات پر ہوں گے۔ اگرچہ فریقین کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ کے مذاکرات کے حوالے سے اپنی ترجیحات کی فہرست قبل از وقت نہیں دیں گے؛ تاہم تجزیہ کاروں، سکیورٹی ایکسپرٹس، ریسرچرز اور حکومتی عہدیداروں کے نزدیک ان کی ترجیحات اور راستے میں حائل رکاوٹیں درج ذیل ہوں گی۔ اول یہ کہ ان کے آخری اور حتمی مقاصد کیا ہیں؟ مذاکرات کا حتمی مقصد ایک حکومت کی تشکیل کے لیے ٹھوس سیاسی روڈ میپ وضع کرنا ہے۔ حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ معصوم سٹنک زئی نے بتایا ہے کہ جنگ بندی میرے وفد کی اولین ترجیح ہو گی۔ افغان طالبان‘ جنہوں نے سکیورٹی فورسز پر حملوں کو حکومت پر دبائو ڈالنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے‘ چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی جنگ بندی سے پہلے اسلامی قوانین پر مبنی ایک حکومت قائم کرنے کا معاملہ طے کیا جائے مگر ان بنیادی ایشوز کو طے کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ فریقین ابھی تک جنگ بندی اور اسلامی حکومت جیسی بنیادی اصلاحات کے مفہوم کے تعین میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے ابھی تک یہ وضاحت کرنے سے انکار کیا ہے کہ اسلامی حکومت سے ان کی کیا مراد ہے اور حکومت کے اسلامی جمہوریہ کے قیام پر اصرار بھی ابھی تک تشریح طلب ہے۔ افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے ایک رکن عبدالحفیظ منصور کہتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی حکومت چاہتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ کس قسم کی اسلامی حکومت کیونکہ ہر اسلامی ملک کا اس حوالے سے اپنا الگ الگ تصور ہے۔

جنگ بندی کی کئی اقسام ہوتی ہیں؛ مستقل، قومی سطح کی، جزوی یا مشروط جنگ بندی؛ تاہم فروری میں امریکا اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے مطابق افغانستان سے امریکی فوج کا مکمل انخلا ہو گا مگر ا س کے کوئی خدوخال ابھی تک واضح طور پر طے نہیں ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ تو افغانستان سے فوج نکالنے میں عجلت کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے مگر صدر بائیڈن کے آنے سے اب فوری طور پر امریکی فوج کا مکمل انخلا ممکن نہیں ہو سکے گا۔

مذاکرات کی اگلی رکاوٹ طالبان کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام طالبان جنگی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی سے ستمبر میں ہونے والے مذاکرات کی راہ ہموار ہو گئی تھی مگر صدر اشرف غنی نے مزید قیدی رہا کرنے سے انکارکر دیا ہے۔ دونوں فریقوں نے دوحہ مذاکرات میں ایک دوسرے پر دبائو ڈالنے کے لیے تشدد کا غیر ضروری استعمال کیا مگر حکومت کے مقابلے میں طالبان کے حملے زیادہ جارحانہ شدت کے حامل ہیں۔ ایک آزاد تجزیہ کار‘ ابراہیم باحث کہتے ہیں کہ طالبان دوطرفہ حکمت عملی پر عمل کر رہے ہیں؛ تشدد اور مذاکرات۔ ان کا مقصد حکومت پر قبضہ اور ایک مخصوص طرز کی حکومت کا قیام ہے۔ وہ اسے مذاکرات کے ذریعے حاصل کریں یا جنگ کے ذیعے‘ وہ دونوں کے لیے تیار ہیں۔

دوم یہ کہ امریکا کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ اگرچہ طالبان نے فروری سے امریکی افواج پر براہِ راست حملے کم کر دیے ہیں مگر طالبان نے مقامی سکیورٹی فورسز کا محاصرہ کر کے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں توسیع کر لی ہے۔ جن علاقوں میں افغان فوجی طالبان کے شدید حملوں کی زد میں تھے‘ امریکا نے وہاں ان پر فضائی حملے شروع کر رکھے ہیں۔ اس موسم خزاں میں صوبہ ہلمند اور قندھار میں پھنسے افغان فوجیوں کو امریکی ایئر فورس کے فضائی حملوں کی مدد سے ہی نکالا گیا جس سے افغان فوج اور فضائیہ کی کمزوریاں کھل کر سامنے آگئیں۔ اسی باعث وہ مسلسل طالبان حملوں کی زد میں ہیں۔ اعلیٰ امریکی حکام کے مطابق‘ افغان فورسز کے گرتے ہوئے مورال نے افغانستان میں امریکا کے زیرِ قیادت مشن کے سربراہ جنرل آسٹن ملرکو خاصی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
دوسری جانب افغانستا ن میں متعین امریکی فوج کی کل تعداد‘ جو فروری میں بارہ ہزار فوجیوں پرمشتمل تھی‘ معاہدے کے مطابق جنوری کے وسط تک کم ہوکر صر ف ڈھائی ہزار تک رہ جائے گی اور اگر دوحہ معاہدے پر پورا عمل ہوا تو مئی کے آخر تک ساری امریکی فوج افغانستان سے نکل جائے گی۔ اسی بنا پر افغان حکام بے یقینی کا شکار ہیں کہ امریکی فوج کے جانے کے بعد ان کی فورسز اپنا زمینی قبضہ کس طرح برقرار رکھ سکیں گی؟

مذاکرات کے اس دور کی کامیابی اور اہمیت کا اندازہ امریکی حکومت کو نومبر میں اس وقت ہوا تھا جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے دوحہ کا دورہ کیا تھا اور مذاکرات کاروں سے ملاقاتیں کی تھیں اور پھر دسمبر کے وسط میںچیئرمین جائنٹ چیفس جنرل مارک اے ملی نے بھی دوحہ کا دورہ کیا تھا۔ امریکی وزارتِ دفاع نے پنٹاگون سے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جنرل ملی نے افغان طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ افغانستان میں جاری تشدد اور خونریزی میں فوری طور پر کمی کریں۔ امریکی حکام نے تشدد کی یہ اصطلاح متعدد بار استعمال کی ہے جس کی کچھ بھی تشریح کی جا سکتی ہے۔ امریکی حکام کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح میدانِ جنگ میں ایک تواز ن قائم کیا جائے۔

تجزیہ کار ابراہیم باحث کا کہنا ہے کہ بعض امریکی ارکان کانگرس کی تجویز کے مطابق‘ اگر نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن جونیئر مئی 2021ء تک افغانستان میں متعین باقی ماندہ امریکی فوجیوں اور انسدادِ دہشت گردی فورسز کو معاہدے کے مطابق نکالنے سے انکار کر دیتے ہیں تو طالبان نے پوری طرح یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ بھی 29 فروری 2020ء کو دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے کو منسوخ کر دیں گے۔ کئی تجزیہ کار تو اس سے بھی زیادہ سنگین نتائج برا?مد ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کے ایک سابق مشیر طارق فرہادی کہتے ہیں ’’ایک بات پوری طرح واضح ہے کہ اگر معاہدے پر عمل نہ ہو سکا تو ہم ایک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے ہیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر