وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی میں کتنے آدمی ہیں؟

جمعرات 07 جنوری 2021 کراچی میں کتنے آدمی ہیں؟

پہلی جماعت کے ایک بچے کو کئی روزسے ایک سے دس تک گنتی بھی صحیح طرح سے یاد نہیں ہو پارہی تھی ۔ بالآخر اُستانی نے تنگ آکر بچے سے پوچھا ’’ کیا آپ کے گھر میں کوئی ایسے شئے ہے ،جو تعداد میں دس ہوں؟‘‘۔بچے نے اثبات میں سرہلاتے ہوتے ہوئے فوراًہی کہا’’جی ہاں مس! ہمارے گھر میں مرغی کے دس عدد چوزے ہیں ‘‘ ۔اُستانی نے بچے کو پیار سے پچکارتے ہوئے کہا’’پھر تو مسئلہ ہی حل ہوگیا، آپ اپنے چوزوں کے نام گنتی پر رکھ لو ،اس طرح تمہیں ایک سے دس تک گنتی بہت آسانی سے یاد ہوجائے گی‘‘۔ بچے نے کہا’’جی اچھا!‘‘اور پلٹ کر واپس اپنی کرسی پرجابیٹھا۔ اگلے روز اُستانی نے اُس ہی بچے کو اپنے سامنے کھڑا کر کے ایک سے دس تک گنتی سنانے کو کہا۔بچے نے بھی اُستانی کے حکم کے عین مطابق بھرپور اعتماد کے ساتھ فوراً ہی بلند آواز سے گنتی سنانا شروع کردی’’ایک، دو ،تین ،چار ،پانچ ،چھ ،نو اور دس ‘‘۔ بچہ جیسے ہی خاموش ہوا اُستانی نے غصے سے کہا’’سات اور آٹھ کہاںگئے‘‘۔ بچے نے منہ بسورتے ہوئے غمزدہ لہجے میں جواب دیا ’’مس! کل رات کو سات اور آٹھ کو بلی کھاگئی تھی ‘‘ ۔قارئین جس طرح پہلی جماعت کے بچہ کے دوعدد چوزوں کو بلی کھاگئی تھی۔ سیاسی حالات و واقعات دیکھ کر ہمیں بھی کچھ کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے حالیہ مردم شماری میں سے کراچی کی آبادی کو بھی کوئی ’’سیاسی بلی‘‘ کھا گئی ہے ۔بس اَب معلوم یہ کرنا ہے کہ وہ مردم خور ’’سیاسی بلی ‘‘تھی کس کی ؟۔جو مردم شماری میں کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی کو چٹ کرگئی ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان کا اصرار ہے کہ وہ بلی سندھ حکومت کی پالی ہوئی ہے جس نے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو اپنا لقمہ تر بنالیا ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کا اصرار بلکہ الزام ہے کہ مردم شماری کرنے والے ادارہ شماریات کے اہلکاروں کی’’انتظامی بلی ‘‘ نے کراچی ہی نہیں بلکہ سندھ کی بھی بہت سی آبادی کو اپنی خوراک بنا لیاہے۔

حیران کن طور پر سندھ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ محمد نعیم کا دعوی ہے کہ مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم سے کم دکھانے کے ’’سیاسی جرم ‘‘ میں ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی ہی نہیں بلکہ پاکستان تحریک انصاف بھی برابر کی شراکت دار ہے ۔ حافظ محمد نعیم کے مطابق تینوں جماعتوں کا سیاسی مفاد ہی اس با ت کو یقینی بنانے میں ہے کہ کسی طرح آئندہ کے بلدیاتی اور قومی انتخابات تک کراچی کی اصل آبادی کسی بھی صورت ظاہر نہ ہونے پائے کیونکہ اگر کراچی کی اصل آبادی سرکاری دستاویز میں ظاہر ہوجاتی ہے تو مذکورہ بالا تینوں سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات کو اپنی اپنی جگہ زبردست نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے ۔ بظاہر حافظ نعیم کا یہ سیاسی دعوی عجیب و غریب اور ناقابل یقین معلوم ہوتاہے۔لیکن اگر بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو ذرا سی بھی عقل و شعور رکھنے والے شخص کے لیے اُن کی بیان کردہ دلیل کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں بچتا ۔کیونکہ سچ تو واقعی یہ ہی ہے کہ کراچی کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سیاسی مفادات شہر کراچی کی آبادی کم دکھانے ہی سے وابستہ ہیں ۔مثال کے طور پر اگر کراچی کی آباد ی واقعی ایک کروڑ کے بجائے تین کروڑ تک نکل آتی ہے تو پھر تحریک انصاف کے لیے اگلے انتخابات میں اپنی انتخابی فتوحات کو برقرار رکھنا ناممکن ہوجائے گا۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اس لیے بھی کراچی کی آبادی کو حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار تک ہی محدود رکھنا چاہے گی کہ کراچی کی آبادی بڑھنے سے وزیراعلیٰ سندھ بننے کے لیے درکار نمبر گیم اس قدر بگڑ سکتی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا وزیراعلیٰ سندھ کے منصب تک پہنچنا مشکل سے مشکل تر ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوسکتا ہے۔

مگر یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر! ایم کیو ایم پاکستان کیوں چاہے گی کراچی کی آباد ی جتنی حالیہ مردم شماری میں ظاہر ہورہی ہے بس اُتنی ہی رہے ؟۔دراصل ایم کیوایم پاکستان سمجھتی ہے کہ کراچی کے جو حلقے اس وقت بنے ہوئے اُن میں،سابقہ سیاسی تجربے کی بنیاد پر اگلے انتخابات لڑنا زیادہ سہل ہوگا ۔جبکہ فوری طور پر ازسرِ نو مردم شماری منعقد ہونے سے کراچی کی آبادی کئی گناتک بڑھ جاتی ہے تو پھر کراچی کے پرانے انتخابی حلقے برقرار نہیں رہ پائیں گے ۔سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ کثیر تعداد میں نئے اور مختصر انتخابی حلقے وجود میں آجانے سے جماعت اسلامی ،پاک سرزمین پارٹی اور تحریک لبیک جیسی سیاسی جماعتوں کے بھی باآسانی بہت سی انتخابی نشستیں جیتنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ شاید ہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم پاکستان ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف ازسرنو مردم شماری کروانے میںغیر ضرور تساہل اور سیاسی لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں جبکہ جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی فوری طور پر نئی مردم شماری کروانے کے لیئے کافی مدت سے سیاسی جدوجہد ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ یہ دونوں جماعتیں مستقبل قریب میں ملک گیر سیاسی تحریک چلانے کا نیک ارادہ بھی رکھتی ہیں ۔

اہلیان کراچی کے لیے کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ عرو س البلاد میں گزشتہ چالیس برسوں سے اپنی سیاست چمکانے اور اقتدار کے مزے لوٹنے والی تمام سیاسی جماعتیں اہلِ کراچی کی بالکل درست گنتی بھی نہیں کرنا چاہتی ہیں ۔ شاید انہیں خوف لاحق ہے کہ اگر اہلیان کراچی تعداد میں زیادہ نکل آئے تو پھر انہیں مالی وسائل میں حصہ بھی زیادہ دینا پڑے گا اور اقتدار و اختیار میں سیاسی مناصب بھی زیادہ دینے پڑجائیں گے۔ سب سے بڑی ممکنہ سیاسی مصیبت تو یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ شہر کراچی پر اہلیانِ کراچی کا اپنا راج بھی قائم ہوسکتاہے۔ چونکہ اس طرح کی صورت حال اِس وقت کراچی شہر پر حکمرانی کرنے والوں کے اپنے مفاد میں ہرگز نہیں ہے ۔لہٰذا غالب گمان یہ ہی ہے کہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ ہے ،ہوسکتاہے کہ دو کروڑ ہویا یہ بھی امکان ہے کہ تین کروڑ ہو ۔بہرحال کراچی کی اصل آبادی چاہے جتنی بھی ہو مگر کروڑوں کی آبادی والے اس بدنصیب شہر میں قائد اور رہنما ایک بھی موجود نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر