وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہزارہ محنت کشوں کی موت،قاتل نا معلوم نہیں

جمعرات 07 جنوری 2021 ہزارہ محنت کشوں کی موت،قاتل نا معلوم نہیں

3جنوری2021ء کو کوئٹہ کے جنوب میںتقریباً60کلومیٹر کی دوری پر ’’مچھ‘‘ کے علاقے میں انسانیت دشمنوں نے کوئلہ کانوں میں محنت مزدوری کرنے والے کانکنوں کے خون سے ہولی کھیلی ۔مزدوروں کونیم شب گہری نیند سے اُٹھا کر ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اُتار دیاگیا۔ سفاک دہشتگردوں نے اس حرام و مذموم مقصد کے لیے قومی شاہراہ پر مچھ شہر کو ملانے والے مقام سے کچھ آگے دائیں طرف ’’ گشتری‘‘ کے مقام پر پہاڑوں کے اندر کوئلہ کانوں کے پاس مقیم مزدوروں کا انتخاب کیا۔ یہ سب افراد کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون کے باسی تھے۔ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے تھے۔ دن بھر کی محنت و مشقت سے تھکے ماندے یہ محنت کش گہری نیند سورہے تھے ،کہ مسلح گروہ کے کارندوں نے محاصرہ کرلیا۔ نیند سے بیدار کیا، آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پائوں باندھ کرتیز دھار آلے لیے بڑی بے دردی سے ذبح کردیا۔ صبح ہی مقامی لیویز اور قومی شاہراہوں پر موجود فرنٹیئر کور کو دلدوز واقعہ کی اطلاع ہوئی۔ ہزارہ عوام نے مچھ قومی شاہراہ پر پہلے پہل میتیں رکھ کر احتجاج کیا۔ کچھ دیر میں مرد و خواتین نے کوئٹہ کا مغربی بائی پاس بند کرکے صدا ئے احتجاج بلند کیا۔ ذمہ داری داعش گروہ نے تسلیم کر لی ۔تحریک طالبان پاکستان ، داعش ہوں یا لشکر جھنگوی افغانستان سے آپریٹ ہورہی ہیں۔ یہ گروہ کوئٹہ اورصوبے میں مختلف علاقوں میں کئی بھیانک عملیات کرچکی ہیں۔ہزارہ عوام تین دہائیوں سے نشانے پر ہیں۔ سینکڑوں مرد ، خواتین و بچے پیوند خاک ہوچکے ہیں۔ چناں چہ یہ المناک خونی واردات بھی ان کی شناخت مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یقینا عوام کو تحفظ کی فراہمی ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ کس کی کتنی ناکامی و نا اہلیت ہے،سے قطع نظر یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ملک، دہشتگردی کے مختلف النوع صورتوں کا سامنا کیے ہوئے ہے۔ متواتر آپریشنز اورآپریشن ضرب عضب کے بعد یہ گروہ افغانستان فرار ہوئے ہیں۔

جون 2017ء میں کوئٹہ سے اغوا کیے گئے دو چینی باشندو ں کی بازیابی کے لیے مستونگ کے علاقے’’ اسپلنجی ‘‘ کے پہاڑی سلسلے میں داعش کے کیمپ کے خلاف آپریشن ہوا۔یہ داعش کا بلوچستان سندھ اور پنجاب کا مرکزی کیمپ تھا۔ یہاں ان کے بارہ لوگ مارے گئے ، گرفتاریاں بھی ہوئیں ، کچھ فرار ہوکر افغانستان چلے گئے۔ اس کیمپ کا چینی جوڑے کے اغوا ء کے بعد ہی انکشاف ہوا تھا ۔جن کے صرف ہڈیوں کے ڈھانچے ملے۔ مچھ گشتری میں مزدوروں کا قتل انہی مفرور افراد نے کیا ہے۔ یہ علاقہ’’ اسپلنجی‘‘ سے ملحقہ ہے۔ بلاشبہ بلوچستان کے اندر ان کے خلاف کئی کامیاب آپریشن ہوئے ہیں۔ کمین گاہیں اور تربیتی مراکز مسمار کیے جاچکے ہیں۔کئی کارندے پکڑے جاچکے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ماری جاچکی ہے۔مگر جب تک افغانستان کے اندر ان کا تحفظ اور وجود رہے گا ،تب تک ایسے سانحات کے خطرات آئندہ بھی منڈلاتے رہیں گے۔ افغانستان کے اندر امن مذاکرات کامیاب ہوں گے، تو یقینا نئے منظر نامے میں ان گروہوں کے لیے مزید ٹھکانہ نہ رہے گا۔ ایک بلوچ عسکریت پسند تنظیم (بی ایل اے )کے افغانستان میں موجود سربراہ نے ہزارہ مزدوروں کے قتل کو ریاست پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔حالانکہ یہ اور اس سوچ کی دوسری تنظیمیں خود اس نوعیت کی کئی سنگین کارروائیوں کی مرتکب ہیں۔دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد علی الخصوص پنجاب اور خیبر پشتونخوا کے باشندوں کی بڑی تعداد ان کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے ۔جولائی 2012ء میں اسی تنظیم نے کوئٹہ سے متصل’’ سورینج‘‘ کے علاقے میںخیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے سات کانکنوں کواغوا کے بعد گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔مزدور تنظیم نے لاشیں بلوچستان ہائی کورٹ کی عمارت کے سامنے رکھ کر لا کر احتجاج کیا۔ اُس وقت سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں تب کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری بلوچستان میں لاپتہ افراد اور امن کے حوالے سے کیسوں کی سماعت کر رہے تھے۔ اسی طرح ان مسلح تنظیموں نے تعمیراتی کمپنیوں کے کیمپوں پر حملہ کرکے مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔مسافر بسوں سے اتار اتار کر شناخت کے بعد بیک وقت کئی کئی بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ ریل گاڑیوں پر چھوٹے اور بڑے خود کار اسلحہ سے حملے کیے۔ اس مچھ شہر پر پہاڑوں سے راکٹ برسائے ہیں۔یعنی ان کے ہاتھوں سینکڑوں بے گناہوں کا خون ناحق ہوچکا ہے۔

دوئم انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ مسلح تنظیمیں افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایسا اور انڈین جاسوس ادارے ’’را ‘‘کے کہنے اور ا اشتراک سے کیا گل کھلارہی ہے۔داعش گروہ کابل اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں کئی بہیمانہ کارروائیاں کرچکی ہے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں ، سیاسی و عوامی اجتماعات پر حملے کرچکی ہے۔وہاں ہزارہ عوام پر کئی حملے کرچکی ہے ۔اور خود ’را‘ کی شہ پر گزشتہ چند دنوں میں پانچ صحافی قتل ہوچکے ہیں۔ سماجی کارکن اور علماء کا ہدفی قتل ہوا۔ حملے داعش بھی قبول کرچکی ہے ۔ ان صحافیوں،علماء اور سماجی کارکنوں کے موت پر حقائق کے برعکس ،کابل کی حکومت اپنے اور بھارتی مفادات کے لیے الزامات بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھاافغان طالبان پر عائد کرتی ہے۔ افغانستان کے شہریوں کی طرح ایک جاپانی ماہر اور سماجی کارکن ڈاکٹر ناکامورا کا قتل ہوا ۔تاکہ اس کے لیے افغان طالبان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ مگر افغان عوام اس تخریبی سیاست سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کابل حکومت کو ناگوار ہے کہ امن کے قیام کے بعد ان کی حکمرا نی نہیں رہے گی۔ نئی دہلی اس لئے تخریب کی کو ششیںکررہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کابل اس کا اہم مورچہ بن چکا ہے۔چناں چہ اس گھنائونے اور سیاہ کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔جس میں معصوم و بے گناہ تختہ مشق بنائے جاتے ہیں۔گویا کابل ا ور نئی دہلی مجرم ہیں جو اپنے سیاسی او تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے دہشتگردوں کو پال رہے ہیں۔یہاں ہزارہ عوام کا یہ احتجاج برحق ہے۔ ان کے پاس اپنے تحفظ کو یقینی بنانے اور شنوائی کے لیے کوئی اور راستہ نہیں۔لیکن خیال رہے کہ ان کی مظلومیت اور بے بسی ،کوئی اور اپنے گروہی مفادات کے لیے استعمال نہ کرے۔دھرنے کے شرکاء سے صوبائی و وفاقی حکومت کے نمائندوں نے جاکرمذاکرات کیے۔ ۔ مگر دھرنا کی منتظم جماعت نے صوبائی حکومت کے مستعفی اور وزیراعظم عمران خان کے کو ئٹہ آمد کی شرط رکھی ۔صوبائی حکومت کے استعفے کا مطالبہ میں معقولیت نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ صوبے میں حکومت فورسز سمیت کئی طبقے دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں۔فوج، عدالتوں ،پولیس تربیتی کالج ،پولیس دفاتر ،مسیحی برادری کے گرجا گھروں ،مساجد و مدارس پر حملے ہوئے ہیں ۔جنوری2013ء میں علمدار روڈ خودکش حملے کے بعد 86 میتیں سڑک پر رکھ کردھرنا دیا گیا ۔ وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو ذمے دار قرار دے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی۔ دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ ہوا ۔مگر اسی گورنر راج میں ہزارہ ٹائون میں ایک اورخود کش حملے میں 100سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔نہ واقعات اورحملے آئندہ تھمے ۔یقینی طورآصف علی زرداری ، صوبے کی چند سیاسی جماعتوںاور سیاست میں در پردہ دخیل بعض دوسرے حلقوں نے اس دھرنے سے اپنے اہداف پانے کی کو شش کی ۔ دیکھا جائے تومعروضی حقیقت یہ ہے کہ خود نواب اسلم رئیسانی اور ان کے خاندان کو خطرات کا سامنا ہے ۔ نواب اسلم وزیراعلیٰ تھے تواُن پر کوئٹہ میں بم حملہ ہوا ۔ پھر مستونگ میں ان کے جواں سال بھتیجے حقمل رئیسانی کو بی ایل اے نے بم حملے میں قتل کردیا ۔ اور پھر 2018ء کے انتخابی مہم کے ایک جلسہ میں، مچھ میں ہزارہ مزدوروں کے قتل میں ملوث نیٹ ورک یعنی دا عشی گروہ نے ان کے چھوٹے بھائی نوابزادہ سراج رئیسانی کو خودکش حملہ کرکے قتل کر دیاجس میں کئی لوگ جاں بحق ہو گئے۔لہذا کابل کے اسٹیج پر ہونے والی مکروہ سیاست حتی کہ ان کے پاکستان میں بھی موجود کار پردازوں و چیلوںکے خلاف ہر سطح سے آوازیں اُٹھنی چاہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر