وجود

... loading ...

وجود
وجود

لاک ڈاؤن کی اصل قیمت

جمعه 01 جنوری 2021 لاک ڈاؤن کی اصل قیمت

(مہمان کالم)

زیدایم ۔بلباگی

آئی ایم ایف نے اس سال عالمی سطح پر وبائی امراض پر اخراجات کا تخمینہ 28 ٹریلین ڈالر لگایا ہے، جبکہ لگاتار لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں کمی سے معیشتوں میں 33 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ کاروبار اور تجارت پر وبائی امراض کے غیر معمولی اثرات اگرچہ دستاویزی شکل میں ہیں۔ تاہم، یہ مطالعات ایک زیادہ اہم نقصان کو نظر انداز کرتے ہیں، جو انسانی زندگیوں کا ہے۔ بزرگوں پر تنہائی، گھروں تک محدود رہنے والوں کے لیے ذہنی صحت کے مسائل، خودکشیوں اور بچپن اور تعلیم کے لازمی پہلوؤں میں بڑی اور سنگین تبدیلیاں گزشتہ سال کے المناک انسانی نقصانات میں شامل ہیں۔دنیا بھر میں انفیکشن کی شرح میں اضافے کا براہ راست اثر معاشی نمو پر پڑا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث حیرت انگیز طور پر تیز ا سٹاک مارکیٹ کے باوجود، انسانیت اس کی زد میں ہے۔

ہفتہ کی شام، برطانیا نے آج تک کے اپنے سب سے زیادہ سخت لاک ڈاؤن کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے پہلے ہی مشکلات کا شکار عوام، جن کی سکت پہلے ہی کووڈ۔19 کے مضر اثرات کے باعث ختم ہو چکی ہے، شدید پریشان ہیں۔ یہ صورتحال بیشتر یورپی ممالک میں موجود ہے، بین الاقوامی سطح پر بھی ویکسین کی بہت زیادہ خبروں نے لاک ڈاؤن کے بے نتیجہ اور مسلسل مسائل کو کم کرنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔ آمرانہ حکومتوں میں جیسا کہ سرکاری معاملات کو سربستہ راز رکھا جاتا تھا اور عوام کی معلومات تک رسائی محدود کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، یہی صورت حالات من مانے لاک ڈاؤن کے دوران محسوس کی گئی ہے، جو اکثر عوامی مشاورت یا پارلیمانی اور جمہوری بحث کے بغیر عائد کیا جاتا ہے۔

کورونا کے مریضوں کی بڑی تعداد کی صحت یابی کے باوجود، یہ خوفناک حقیقت ہے کہ متاثرہ افراد میں سے بہت سے افراد علامتی طور پر کچھ یا کوئی علامت ظاہر نہیں کرتے ہیں جو وبا کے متعلق اعداد و شمار خے حوالے سے بذات خود تشویشناک صورت حال ہے۔ انفیکشن کی تیزی سے بڑھنے کی اطلاعات اور اس سے ہونے والے نقصانات، حکومتوں کو بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل و حرکت اور اکٹھا ہونے پر عائد پابندیوں کو سخت تر کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔کورونا وائرس کے باعث قرنطینہ اختیار کرنے والے تقریباً نصف افراد نے تشویش، تناؤ یا تنہائی کے نتیجے میں منفی ذہنی صحت کے اثرات کی اطلاع دی ہے، ان لوگوں کے مقابلے میں جو اس پر یقین نہیں رکھتے۔ وائرس کے معاشی اثرات کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ اور پریشانی نے عوام میں ذہنی صحت کے مسائل کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ غیر یقینی صورتحال، دائمی تناؤ اور معاشی مشکلات کمزور آبادی میں افسردگی، اضطراب، مادے کی زیادتی اور دیگر نفسیاتی عوارض کی نشوونما اور آبادی میں اضافے کا باعث بنی ہیں، جن میں پہلے سے موجود نفسیاتی عارضے والے افراد اور ایسے افراد شامل ہیں جو کووڈ۔19 کی بلد شرح والے علاقوں میں رہتے ہیں۔

امریکا میں، جہاں وائرس کے حوالے سے حالات بدترین ہیں، واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں رپورٹ شائع کی ہے کہ وبائی مرض کے دوران اوسطاً چار میں سے ایک نوجوان خود کشی کا مرتکب ہو چکا ہے۔ اگرچہ خودکشی کی وارداتیں پچھلے برسوں کے مقابلے میں اتنی زیادہ نہیں، لیکن دیگر پریشان کن علامات بھی ہیں، جیسے بندوق کی فروخت میں تیزی سے اضافہ (خود کشیوں کی سب سے زیادہ کامیاب وارداتیں بندوق کے استعمال سے ہی کی جاتی ہیں) اور نسلی اقلیتی گروہ وبائی مرض کے باعث غیر متناسب اضطراب اور پریشانی سے سب سے زیادہ متاثر ہوائے ہیں۔جم اور کھیلوں کی سہولیات کی بندش کا دماغی اور جسمانی صحت پر بھی خاص اثر پڑا ہے۔ بندش کے نتائج کا جائزہ لینے کے لئے خاطر خواہ مطالعات کیے گئے ہیں اور سروے کے نتائج کے مطابق 54 فیصد افراد نے ذہنی صحت اور تندرستی پر منفی اثرات کی اطلاع دی ہے۔ ایسے بہت سے کھیل جو سماجی دوری برقرار رکھتے ہوئے اور بار بار ہاتھ دھونے ایسی پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے کھیلے نہیں جا سکتے، انہیں بند کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ جسمانی صحت پر اس کے اثرات ریکارڈ نہیں کئے گئے، تاہم مارچ کے بعد اس میں OHCAs (ہسپتال سے باہر کارڈیک گرفت) اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں اضافے پر کوئی شک نہیں ہے۔اس حقیقت کو تجربات سے تقویت ملی ہے کہ 2019 اور 2020 کے درمیان سینے کے امراض کے باعث اموات کے مجموعی واقعات میں فرق اور کووڈ۔19 کا شکار 1,00,000 باشندوں کے واقعات کے مابین ایک مضبوط اور شماریاتی لحاظ سے اہم باہمی تعلق ہے۔ لاک ڈاؤن کی نئی تازہ مثالوں کے پیش نظر، بڑھتے ہوئے موٹاپا کے اثرات بھی نوٹ کیے گئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وائرس عوامی صحت پر کہیں زیادہ طویل مدتی اثرات مرتب کرے گا۔ چونکہ بزرگ تنہائی کے اثرات برداشت کر رہے ہیں، نوجوان اور بچے بھی بچپن کی کھیل کود اور تعلیم کے اہم پہلوؤں سے محروم ہو گئے ہیں۔

یونیسکو کے مطابق، وبائی بیماری کے باعث ا سکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کی بندش سے عالمی سطح پر مجموعی طور پر 1.725 بلین طلبا متاثر ہوئے ہیں۔ یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ 192 ممالک نے ملک گیر بندش کا نفاذ کیا ہے، جس سے دنیا کی طلبا کی آبادی کا 99 فیصد متاثر ہوا ہے۔ صرف نصاب ہی محدود نہیں رہا، امتحانات کے نتائج کو اوسط کی بنیاد پر مرتب، کمرہ جماعت میں باقاعدہ حاضری کے ساتھ ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں اور ٹیوشن کی جگہ فاصلاتی تعلیم نے لے لی ہے۔ محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کے لیے ا سکولوں نے چھٹیاں دے کر گھر رہنے کی پالیسی ترتیب دی ہے، ایسے میں ترقی کی منازل کیوں کر طے کی جا سکیں گی۔گھر سے سیکھنے تک محدود، بہت سارے طلبا نے اپنی تعلیم کو شدید طور پر درہم برہم کر دیا ہے اور کچھ معاملات میں یہ کام مکمل طور پر بند ہے۔ سب سے اہم سیکھنے کا انداز جس میں طلبا لیکچر سننے یا تجربات دیکھتے اور جسمانی سرگرمیاں کرتے ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ صرف وقت ہی یہ بتائے گا کہ انسانوں کے باہمی میل ملاپ اور گروپ سرگرمی کی مستقل عدم موجودگی کا نوجوان نسل اور اس کے مطالعے پر کا کیا اثر پڑتا ہے۔

مغرب میں بہت سے لوگ اپنے خاندان کے اراکین اور دوستوں کے ساتھ موسم سرما کی تعطیلات مشترکہ طور پر مل جل کر منانے کی مختصر مہلت کے منتظر تھے، جن سے وہ کئی ماہ سے مل نہ پائے تھے۔ برطانیہ کی حکومت کے انفیکشن کی شرح کو کم کرنے کے لیے بندشیں عائد کیے جانے کے حالیہ اعلان نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ عوامی پذیرائی اور واقعتاً حکومتی پالیسیوں کی قبولیت کا خاتمہ ہونا شروع ہو چکا یوں یہ واضح نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن کس حد تک برقرار رہ سکتا ہے۔ تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے سال کے ذہنی اور جسمانی اثرات ایک طویل عرصہ تک باقی رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر