وجود

... loading ...

وجود
وجود

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مودی کا خطاب

پیر 28 دسمبر 2020 علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مودی کا خطاب

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صد سالہ جشن میں وزیراعظم نریندر مودی کی بطور مہمان خصوصی شرکت اپنے آپ میں ایک سنسنی خیزخبر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتہ اس خبر نے میڈیا کی سب سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ اس موقع پروزیراعظم نے جو تقریر کی ، اس پر بھی خوب بحث ومباحثہ ہوا۔ حالانکہ یہ تقریر دوبدو نہیں تھی بلکہ انھوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ یونیورسٹی برادری کو خطاب کیا ۔ دراصل جب یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم نریندر مودی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صدسالہ تقریبات میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوںگے تو اسی وقت سے اس پر زوردار بحث شروع ہوگئی تھی اور کئی حلقوں نے اس کی مخالفت میں آوازیں بلند کیں۔مخالفت کرنے والوں میں یونیورسٹی طلباء یونین کے کئی سرکردہ سابق عہدیداران بھی شامل تھے ۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ حکمراں بی جے پی کے نشانے پررہی ہے اور اس پارٹی کے لوگوں نے اسے بدنام کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیاہے ۔ جس پارٹی اور پریوار نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر حملے کئے ہیں اور جس کی سرکار نے اقلیتی کردار کے خلاف سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیاہے ،آخر اس پارٹی کے لوگوں کو اس یونیورسٹی سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طبقہ کا خیال تھا کہ وزیراعظم چونکہ اس ملک کی مجموعی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں اور مرکزی حکومت کے ذریعہ ہی یونیورسٹی کو دوسو کروڑسے زیادہ کی سالانہ گرانٹ ملتی ہے ،اس لئے صدسالہ تقریبات میں وزیراعظم کی شرکت پراعتراض نہ کیا جائے اور اسے مثبت انداز میں قبول کیا جائے ۔ کہا جاتاہے کہ وزیراعظم نے ازخود اس تقریب میں شرکت نہیں کی بلکہ انھیں مدعو کرنے کے لئے وائس چانسلر کی طرف سے کئی مکتوب روانہ کئے گئے تھے اور ان کی خوشامد کی گئی تھی۔بہرحال اسی زوردار بحث ومباحثہ کے درمیان وزیراعظم نے یونیورسٹی کی صدسالہ تقریب سے خطاب کیا اور اس خطاب کے بعد بحث کا محور ان کی وہ تقریر بنی جس میں انھوں نے یونیورسٹی کو ’’ منی ہندوستان‘‘ سے تعبیر کیا۔یعنی ایک ایسا ادارہ جس میں ہندوستانی تہذیب وتمدن کی تمام نشانیاں نظر آتی ہیں۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ‘‘ اختلافات کے نام پرپہلے ہی بہت وقت ضائع کیا جاچکا ہے ۔ اب سبھی کو ایک ہدف سامنے رکھ کر خودکفیل ہندوستان کی تعمیر کرنی ہے ۔ طلباء برادری سے قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ سماج میں نظریاتی اختلافات ہونا فطری بات ہے ، لیکن جب بات قومی ہدف حاصل کرنے کی ہوتو ہر اختلاف کو درکنار کردینا چاہئے ‘‘۔

وزیراعظم نے اپنی 33 منٹ کی تقریر میں یونیورسٹی سے متعلق جو باتیں کہی ہیں ،وہ واقعی حوصلہ مندانہ قرار دی جاسکتی ہیں ، لیکن مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے ان کے قول وفعل میں جو تضاد پایا جاتا ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس تضاد پر ہم آگے چل کر گفتگو کریں گے ، آئیے پہلے یہ دیکھیں کہ انھوں نے اپنی تقریر دل پذیر میں یونیورسٹی کے تعلق سے اور کیا کچھ کہا ہے ۔انھوں نے کہا کہ‘‘ مسلم یونیورسٹی دیش کی طاقت ہے ، اسے نہ تو بھولنا ہے اور نہ ہی کمزور ہونے دینا ہے ۔ یہ یونیورسٹی ملک کی انمول میراث ہے اور اس میں منی انڈیا نظر آتا ہے ۔’’ انھوں نے کہا کہ ‘‘سرسید نے جن خوابوں کے تحت اس کو قائم کیا تھا، ان کی تعبیرمیں حکومت بھی مصروف ہے ۔ نئے ہندوستان کی تعمیر میں مسلم یونیورسٹی کی دوہری ذمہ داری ہے ۔’’ اپنی تقریر میںمودی نے مسلم یونیورسٹی کیمپس، کلچر،طلبائے قدیم اور لائبریری کی تعریف کی اوراسے کثرت میں وحدت کی سب سے مضبوط مثال بھی قراردیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ ملک کی انمول وراثت ہے ۔ مسلم یونیورسٹی سے پڑھ کرسینکڑوں ملکوں میں نام چمکانے والے لوگ صحیح معنوں میںہندوستان کے تہذیبی سفیر ہیں۔ وزیراعظم نے مسلم یونیورسٹی کی بانی چانسلر سلطان جہاں بیگم کا تذکرہ خواتین کو باختیار بنانے کے ذیل میں کرتے ہوئے سرسید کی ترقی پسند فکر کو خراج عقیدت پیش کیا اور اسی ذیل میں طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا کریڈٹ بھی لیا۔ اس موقع پر صدی تقریبات کے سلسلہ میں ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا۔لیکن یونیورسٹی کی مزید توسیع و ترقی کے ذیل میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

اس میں کوئی شبہ نہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستانی مسلمانوں کی تمناؤں اور آرزوؤ ںکا مرکزہے ۔ اس یونیورسٹی سے انھیں جو جذباتی لگاؤ ہے ،وہ کسی اور ادارے سے نہیں ہے ۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی کے مختلف میدانوں میں جن مسلمانوں نے ملک وقوم کا نام روشن کیا ہے ، ان میں سے بیشتر اسی دانش گاہ کے فیض یافتہ ہیں۔ مسلمانوں میں جدید تعلیم کی روشنی پھیلانے کا کام سب سے زیادہ اسی یونیورسٹی نے انجام دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس دانش گاہ جس پر جان ودل نثار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محسن قوم سرسید احمد خاں کے قائم کردہ اس ادارے کو آزاد ہندوستان میں جن آزمائشوں سے گزرنا پڑا ہے ،اس کی بھی ایک پوری تاریخ موجودہے ۔اس یونیورسٹی کے ساتھ کھلواڑ صرف فرقہ پرست اور متعصب عناصر نے ہی نہیں کیا بلکہ اس میں ان لوگوں کی کارفرمائی بھی کچھ کم نہیں ہے جو اپنی پیشانی پر ‘سیکولرازم ’ کا سائن بورڈ لگاکر مسلمانوں کے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالتے رہے ہیں۔

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سب سے پہلا حملہ اس وقت کیا گیا جب اقتدار کی باگ ڈور آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ہاتھوں میں تھی۔ جن لوگوں نے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے ملک گیر تحریک چلائی تھی، ان میں سے آج بھی کچھ لوگ بقید حیات ہیں اور آپ ان کے پیروں کے چھالے دیکھ کر اس تحریک کے خدوخال کا اندازہ کرسکتے ہیں۔یہ تحریک صرف ایک تعلیمی ادارے کے بقاء کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ اس ملک میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کی بقاء کا محاذ تھا جس میںعلی گڑھ تحریک کے جاں بازوں کو جزوی کامیابی ملی۔یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تلوار آج بھی لٹک رہی ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے ۔ منموہن سنگھ حکومت نے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں سپریم کورٹ میںجو حلف نامہ داخل کیا تھا ، اسے مودی سرکار نے واپس لے لیا ہے اور ایک نیا حلف نامہ داخل کرکے یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے خلاف رائے دی ہے ۔ہم نے مضمون کے آغاز میںجس تضاد کا ذکر کیا تھا ،وہ دراصل یہیں سے اجاگر ہوتا ہے ۔

یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ جب کبھی یونیورسٹی کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے توپورا سنگھ پریوار اس کی مخالفت میں صف آراء ہوجاتا ہے ۔ آج وزیراعظم نے جس یونیورسٹی کو ‘‘ منی ہندوستان ’’ سے تعبیر کیا ہے وہ سنگھ پریوار کی نگاہ میں ‘‘ منی پاکستان’’ ہے ۔پچھلے دنوں یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جو تحریک چلی اس میں ضلع انتظامیہ اور پولیس نے یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ دشمن ملک کے فوجیوں جیسا سلوک کیا۔آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں علی گڑھ سے منتخب بی جے پی ممبر پارلیمنٹ نے یونیورسٹی کے یونین ہال میں آویزاں محمدعلی جناح کی تصویر پر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا تھا اس کی دلخراش یادیں ابھی تک تازہ ہیں۔اس موقع پر یونیورسٹی کو ‘ بدی کی طاقت’ قرار دینے کا کوئی حربہ خالی نہیں چھوڑا گیا تھا۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں یونیورسٹی کی اولین چانسلر اور ریاست بھوپال کی فرمانروا سلطان جہاں بیگم کے ذیل میں طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا جو ذکرجو اپنی حصولیابی کے طور پر کیا ہے ، وہ دراصل مسلمانوں پر ایک ‘ ضرب کاری’ سے کم نہیں ہے ۔ اس قانون کے وجود میں آنے کے بعد مسلمانوں کی ازدواجی زندگی میں نئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اور انھیں ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے ۔سلطان جہاں بیگم کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ ایک باپردہ اور شریعت کی پابند خاتون تھیں اور انھوں نے پردے میں رہ کر ہی ریاست بھوپال کا کام کاج سنبھالا تھا۔بہرحال اگر وزیراعظم کو مسلم یونیورسٹی میں‘منی ہندوستان’ نظر آتا ہے تویہ ایک خوش آئند بات ہے اور انھیں یہ بات اپنے اس پریوار کو بھی بتانی چاہئے جو ہر وقت یونیورسٹی میں ‘ منی پاکستان’ ڈھونڈتا رہتا ہے اور علی گڑھ کو ‘ہری گڑھ’ بنانے پر کمربستہ ہے ۔ وزیراعظم کے قول وفعل میں جس دن مطابقت پیدا ہوجائے گی ، اس دن اس ملک کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے یونیورسٹی برادری کو الفاظ کے زیروبم سے مطمئن کرنے کی کوشش تو کی ، لیکن انھوں نے یونیورسٹی کے لئے کسی پیکیج کا اعلان کرنے سے گریز کیا۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت یونیورسٹی کے جو توسیعی کیمپس مختلف صوبوں میں چل رہے ہیں ، انھیں رقم کی شدید ضرورت ہے ۔ انھیں اپنا کام جاری رکھنے کے لئے اراضی درکار ہے اور ان کے پاس فنڈ کی زبردست قلت ہے ۔ یونیورسٹی کے 28ہزار سے زیادہ طلباء کواپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے کے لئے جن سہولتوں کی اشد ضرورت ہے ، ان کا مداوا صرف الفاظ سے نہیں ہوسکتا ، اس کے لئے عمل کی ضرورت ہے جس کا فقدان وزیراعظم کے خطاب میں صاف نظر آتا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر