وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹرمپ کا دورِ صدارت اور امریکا کے نقصانات

اتوار 27 دسمبر 2020 ٹرمپ کا دورِ صدارت اور امریکا کے نقصانات

بریٹ ا سٹیفنس

منصبِ صدارت چھوڑنے سے ایک دن پہلے صدر براک اوباما نے قدامت پسند رائٹرز کے ایک چھوٹے سے گروپ کو بات چیت کے لیے مدعو کیا۔ ان میں سے کوئی بھی ٹرمپ کا حامی نہیں تھا۔ سب لوگ وائٹ ہائوس کے روز ویلٹ روم میں بیٹھے تھے۔ ماحول اتنا خوشگورار نہیں تھا۔ براک اوباما ریپبلکن پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے متفکر تھے۔ کسی نے ٹرمپ کے دورِ صدارت میں ایک عالمی تھرمو نیوکلیئر جنگ چھڑنے کے امکان کا ذکر کیا۔ ٹرمپ کے چار سال گزر جانے کے بعد یہ مناسب ہو گا کہ ان کے دورِ صدار ت کے بارے میں جو پیش گوئی کی گئی تھی اور جو کچھ حقیقت میں ہوا‘ دونوں کا موازنہ کیا جائے۔پیشگوئی یہ تھی کہ ا سٹاک مارکیٹ کبھی دوبارہ سنبھل نہیں سکے گی۔ ہم شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ جنگ میں ملوث ہو جائیں گے۔ فری پریس کو جبر کاسامنا کرنا پڑے گا، ولادیمیر پیوٹن بلیک میلنگ کے ذریعے ٹرمپ پر حکمرانی کریں گے۔ ٹرمپ کے مقرر کیے ہوئے جج الیکشن کے بارے میں ہونے والے فیصلوں کو منسوخ کر دیں گے۔ ٹرمپ کبھی اپنا آفس نہیں چھوڑیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں کچھ ناخوشگوار باتیں ضرور ہوئی ہیں مگر اتنے بھی غلط کام نہیں ہوئے جنہیں عدالت کی مدد سے روکا نہ جا سکتا ہو (مثلاً ڈی اے سی اے پر وگرام کو روکنے کی کوشش) یا جنہیں کانگرس کی مدد سے روکنے کی کوشش کی گئی ہو (روس کے خلا ف پابندیاں نرم کرنے کی خواہش) یا اپنے ماتحتوں کی مدد سے نقصان پہنچانے کی کوشش (شام سے امریکی فوجیں واپس بلانے کی کوشش) یا پریس کے ذریعے ہونے والے انکشافات (تارکین وطن کو فیملی سے جدا کرنے کی پالیسی) سول سرونٹس کی مدد سے غلط فیصلوں کی درستی (کورونا وائرس کے بارے میں غلط انفارمیشن دینے کی کوشش) ووٹرز کی مدد سے انہیں مسترد کیا جانا (موجودہ صدارتی الیکشن) ان کے مقرر کردہ ججوں کی طرف سے ان کے ہی خلاف ہونے والے فیصلے (الیکشن کے حوالے سے کیے گئے چیلنجز) وغیرہ۔ ہاں! کووڈ کی آفت سے نمٹنے میں ان سے غلط فیصلے ہوئے ہیں مگر جو لوگ ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ کووڈ سے لاکھوں امریکیوں کی موت واقع ہوئی ہے انہیں کم از کم یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ یہ عالمی وبا جس بڑے پیمانے پر پھیلی‘ یہ کسی بھی صدر کے لئے ایک سنگین چیلنج ہوتا۔کووڈ سے امریکا میں ہونے والی اموات (ہر ایک لاکھ میں 91 اموات) فرانس کے مقابلے میں سنگین ہیں جہاں ہر ایک لاکھ میں 87 افراد کی موت واقع ہوئی مگر برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں کے مقابلے میں یہ شرح بہتر ہے۔ برطانیہ میں ہر ایک لاکھ میں سے97، ا سپین میں 102 اور اٹلی میں 107 شہریوں کی موت واقع ہوئی ہے حالانکہ وہاں سخت لاک ڈائون نافذ کیا گیا تھا اور پوری لیڈر شپ بھی اس وبا کے خلاف مہم میں شامل تھی۔ ٹرمپ کے ابتدائی مخالفین سمیت میرے بہت سے قدامت پسند ساتھی اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ ٹرمپ کے اقدامات میں بدنظمی کا عنصر تو شامل تھا مگر ان کی ذات اور طرزِ عمل کی مخالفت میں ایک جائز نفرت کے ساتھ ساتھ ان کی بدحکومتی کے نتائج کے حوالے سے بے جا خوف کا ملا جلا امتزاج شامل تھا۔ میرے ساتھیوں کی سوچ کے برعکس ٹرمپ مسولینی ثانی نہیں تھے۔ آپ انہیں ایک شیخی خور آرچی بنکر ثانی کہہ سکتے ہیں جسے ایک آئینی نظام کے ساتھ پابند کیا جا سکتا ہے مگرٹرمپ کے دورِ صدارت کی تباہ کاری ان کاموں سے نظرنہیں آتی جو وہ کھلے عام کرچکے ہیں۔ ان کا پہنچایا ہوا نقصان نظر نہیں آتا۔

ٹرمپ نے جو سب سے بڑی تباہی پھیلائی وہ سماجی عدم اعتماد تھا۔ اعتماد اور اعتبارکو کسی بھی کامیاب سوسائٹی کا طرہ امتیاز سمجھا جا تا ہے۔ مجھے اس بات کا ادراک اس وقت ہوا جب میں واشنگٹن پوسٹ میں سابق وزیر خارجہ جارج شلز کا ایک اہم آرٹیکل پڑھ رہا تھا۔ ان کی جوانی جنگ عظیم دوم لڑنے میں گزری، پھر وہ ا سٹیل پلانٹس میں لیبر مقدمات لڑتے رہے اور آخر میں سوویت یونین کے ساتھ امن کی راہ ہموار کی۔ ان کی زندگی کا حاصل پیغام یہ تھا کہ ’’جب کمرے میں اعتماد کی فضا پائی جاتی تھی خواہ یہ کمرہ کوئی بھی ہو‘ کوئی فیملی روم ہو یا سکول روم، کوئی لاکر روم ہو یا آفس روم، کوئی گورنمنٹ روم ہو یا کوئی ملٹری روم‘ تو ہمیشہ اچھی باتیں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں‘‘۔ جارج شلز مزید لکھتے ہیں ’’جب کمرے میں اعتماد موجود نہ ہو تو کبھی اچھی چیزیں دیکھنے کو نہیں ملتیں‘‘۔ جارج اپنے تجربے کی بنا پر جن باتوں کی تصدیق یا توثیق کرتے ہیں وہ ہمارے عظیم لٹریچر میں بدرجہ اتم مل جاتی ہیں۔ اعلیٰ اعتبار اور اعتماد کی حامل سوسائٹیز۔ کینیڈا یا سویڈن کو دیکھ لیں‘ لوگ ہمیشہ پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ جس سوسائٹی میں اس اعتماد کا فقدان پایا جا تا ہے وہاں ایسا نہیں ہوتا۔ ہمارے اداروں میں اس وقت جو اعتماد اور بھروسے کی کمی نظر آتی ہے اس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا قصور اتنا زیادہ نہیں ہے مگر پوری زندگی میں مجھے کوئی ایک بھی ایسا شخص یاد نہیں آ رہا جسے سیاسی عد م اعتماد کا اتنا بڑا مجسمہ قرار دیا جا سکتا ہو یا اور جو اتنے پْرجوش اور جارحانہ انداز میں اسے فروغ بھی دے رہا ہو۔

ٹرمپ نے اپنے حریفوں کو یہ سکھا دیا ہے کہ وہ ان کی زبان سے نکلے کسی لفظ پر بھی اعتبار نہ کریں اور اپنے حامیوں اور پورے ملک کو انہوں نے نصیحت کی کہ وہ کسی پر بھروسہ نہ کریں۔ انہوں نے بے اعتباری کا ایک ٹائم بم اس تہذیب کی بنیادوں میں رکھ دیا ہے جو سچ اور جھوٹ، ثبوت اور واہمے میں تمیز نہیں کر سکتی۔ انہوں نے لاکھوں کروڑوں افراد کی اس طرح تربیت کر دی ہے کہ وہ ہر حکم کو آنکھیں بند کر کے بجا لاتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ آپ جس بھی جھوٹ یا الزام سے بچ نکل سکتے ہیں‘ وہی سچ ہے۔ ان کے خیر خواہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسی باتیں تو دوسرے فریق میں بھی خاص طور بل کلنٹن میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ سچ ہے! مگر میری حیرانی کی ایک ہی وجہ ہے کہ جو لوگ بھی اخلاقی بنیادوں پر بل کلنٹن کے خلاف اعتراض اٹھاتے ہیں‘ وہ اخلاقی بنیادوں کی عد م موجودگی میں ٹرمپ کی حمایت کس طرح کر سکتے ہیں۔ شاید امریکی عوام کو اس بات کا اندازہ لگاتے کئی عشرے گزر جائیں کہ ٹرمپ نے ان چار برسوں میں امریکا کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے اور اب اس نقصان کی تلافی کسی طرح ممکن ہے۔اچھی خبر یہ ہے کہ ابھی تک کوئی تھرمو نیوکلیئر جنگ نہیں ہوئی۔ بری خبر یہ ہے کہ ایک مختلف قسم کی تابکاری‘ جس نے پہلے اداروں پر ہمارے اعتبار اور اعتماد کو توڑا پھر دوسروں پر اعتماد کو مجروح کیا اور آخر میں ہمارے اپنے اوپر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی۔ اب ا س آئسو ٹوپ کی آدھی زندگی کی پیمائش نہ بھی کریں تو کیا فرق پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر