وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان اسٹیل ملز’’ نجکاری‘‘ سے ’’آہ و زاری‘‘ تک

جمعرات 24 دسمبر 2020 پاکستان اسٹیل ملز’’ نجکاری‘‘ سے ’’آہ و زاری‘‘ تک

یقینا ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کو بچایا نہیں جاسکتاہے ،آج ، کل،پرسوں یا زیادہ سے زیادہ ترسوں بہر حال پاکستان اسٹیل ملز کاخاتمہ بالخیر ہوہی جاناہے،کیونکہ پاکستان اسٹیل ملز ملک و قوم پر ایک ایسا معاشی بوجھ بن چکی ہے کہ جسے جلد ازجلد حکومت کے سر سے اُتارنے میں ہی قوم کی معاشی راحت پہناں ہے۔ لیکن پاکستان اسٹیل ملز کو نہ سہی مگر اس میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین کو تو بچایا ہی جاسکتاہے ۔کیا یہ ضروری ہے کہ جب عظیم و الشان و پر شکوہ پاکستان اسٹیل ملز کو زمین بوس کیا جائے تو اس کے ساتھ ہی پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کے معاشی مستقبل کو بھی زمین بوس کردیا جائے؟ ۔ خاص طور پر ایسے مفلوک الحال ملازمین جو پاکستان اسٹیل ملز میں نچلے اور درمیانے درجے کی ملازمت کیا کرتے تھے۔ بھلا حکم کے غلام اِن ملازمین کا پاکستان اسٹیل ملز کو تباہ و برباد کرنے میں کیا قصور ہوسکتاہے؟۔ اصل قصور تو پاکستان اسٹیل ملز میں سیاسی طاقت سے بھرتی کیے گئے اُن افسران کا ہے جو تنخواہ تو پاکستان اسٹیل ملز کے کھاتے سے لیتے تھے لیکن غراتے پاکستان پیپلزپارٹی ،متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے تھے ۔بلاشبہ ایسے تمام سیاست زدہ افراد کو پاکستان اسٹیل ملز کا ملازم کہنا بھی ’’قومی جرم ‘‘ ہوگا ۔لہٰذا پاکستان اسٹیل ملز میں سیاسی نقب لگا نے والوں کو صرف نوکری سے نکالنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ انہیں پاکستان اسٹیل ملز کو اپنی سیاست گردی کا نشانہ بنانے کی پاداش میں سخت سے سخت قرار واقعی سزائیں بھی ضرور دی جائیں ۔مگر دوسری جانب پاکستان اسٹیل ملز میں برسوں سے اپنا خون ،پسینہ بہانے والوں کے لیے کچھ’’معاشی جزا‘‘ کا بھی لازمی اہتمام کیا جائے۔

یقینا اس کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کو ذرا سی احتیاط، عرق ریزی اور محنت کرنے کا انتظامی حوصلہ درکارہوگا ،اگر تحریک انصاف کے رہنما یہ کرگزرے تو پھر اُمید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز میں سے کھرے ملازم الگ، جبکہ کھوٹے ’’سیاسی ہرکارے‘‘ باآسانی علیحدہ کیے جا سکیں گے۔ویسے بھی تحریک انصاف کا ’’انصاف ‘‘تقاضا کرتا ہے کہ قصور وار کو بہر صورت سزادی جائے اور بے قصور کے لیے قابلِ قبول جزا کا بندوبست کیاجائے ۔حالانکہ ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کے حقیقی ملازمین کو گولڈن ہینڈشیک کی طرز پر بہت کچھ دینے کا پلان ترتیب دیا ہوا ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ سندھ کی مختلف سیاسی جماعتیں پاکستان اسٹیل ملز میں موجود اپنی حمایت یافتہ ’’سیاسی ہرکاروں ‘‘ کے ذریعے ،پاکستان اسٹیل ملز کے ’’حقیقی ملازمین‘‘کے منہ سے گولڈن ہینڈشیک کایہ’’ نوالہ‘‘ بھی چھیننا چاہتی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے ترتیب گئے گولڈن ہینڈ شیک پلان میں تغیر و تبدل کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ۔دراصل پاکستان اسٹیل ملز میں سیاسی بھرتیوں کے نتیجہ میں داخل ہونے والے افسران بالا چاہتے ہیں کہ گولڈن ہینڈ شیک کا فارمولا کچھ اس طرح سے بنایا جائے کہ بالائی اور مکھن اُن کے حصے میں آجائے جبکہ بچا ہوا چھاج اور زیرہ پاکستان اسٹیل ملز کے حقیقی ملازمین کے درمیان تقسیم کے لیے چھوڑ دیا جائے۔یعنی ماضی میں سیاسی جماعتوں کے طرف سے بھرتی کیے گئے گھوسٹ افسران نے پاکستان اسٹیل ملز کو لوٹا تھا اور اَب مستقبل میں وہ غریب ،لاچار،مفلوک اؒلحال ملازمین کی کمائی لوٹنا چاہتے ہیں ۔

یہاں ضرورت اس اَمر کی ہے کہ مقتدر حلقے فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل ملز کے اصل ملازمین تک گولڈ ن ہینڈ شیک اسکیم کے ثمرات بحفاظت پہنچانے کے لیے اپنا بھرپور کلیدی کردار ادا کریں ۔جبکہ جو سیاسی افراد اَب بھی پاکستان اسٹیل ملز میں سیاسی مداخلت کرنے سے باز نہیں آ رہے ، انہیں شناخت کرکے نہ صرف پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا جائے بلکہ قانونی اور انتظامی طور پر انہیں نشانِ عبرت بنانے کا بھی حکومتی بندوبست کیا جائے ۔تاکہ آئندہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا اُس کا حمایت یافتہ کارکن پھر کسی دوسرے قومی ادارے کو مالِ مفت سمجھ کر ہڑپ کرنے کا نہ سوچ سکے ۔ اس کے لیے ایک آسان سا طریقہ کار پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کے پاس موجود اثاثوں کی مالیت کا اندازہ لگا کر بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔ یعنی پاکستان اسٹیل ملز کے جوملازم کسی دوسری جگہ ’’شاہانہ ملازمت ‘‘ کررہے ہیں ،یا سندھ کے دیگر علاقوں میں جائیداد اور مکانات رکھتے ہیں ۔انہیں بیک جنبش قلم پاکستان اسٹیل ملز کی ملازمت سے برطرف کرکے گولڈن ہینڈ شیک اسکیم جیسی ہر مراعات کے لیے نااہل قرار دیا جائے ۔لیکن دوسری جانب پاکستان اسٹیل ملز کے ایسے ملازمین جن کے پاس اسٹیل مل ٹاؤن کے علاوہ کسی دوسری جگہ کوئی گھر،ٹھکانہ یا جائیداد نہ ہو اور نہ کسی دوسری’’سیاسی ملازمت‘‘ کی سہولت موجود ہو۔ ایسے تما م ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک اسکیم میں زیادہ سے زیادہ معاشی سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کیا جائے ۔ صرف یہ ہی نہیں اسٹیل مل ٹاؤن سے بے گھر ہونے والے ’’حقیقی ملازمین ‘‘ کے لیئے سرچھپانے کے لیے گھر کا بھی لازمی انتظام کیا جائے۔

سارے ’’تحریری مقدمے ‘‘کا لب لباب بس اتنا سا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری کرناجتنا ضروری ہے ،اُتنا ہی ضروری پاکستان اسٹیل ملز کے حقیقی ملازمین کی آہ و زاری سننا بھی ہے۔لہٰذا پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم سے جہاں ملکی خزانے کو ہونے والے خسارے اور نقصان کی بھرپائی کرنے کی کوشش جائے گی ،وہیں اس بات کا خصوصی التزام بھی یقینی بنایا جائے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے حقیقی ملازمین کو بھی کسی قسم کا معاشی نقصان نہ پہنچ سکے۔کیونکہ گزشتہ چالیس برسوں میں ’’سیاسی ظلم‘‘ فقط پاکستان اسٹیل ملز کے ساتھ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ اس ادارے میں کام کرنے والے ’’حقیقی ملازمین ‘‘ بھی بدترین مظلومیت کا شکار رہے ہیں ۔پس! اَب تحریک انصاف کی حکومت کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ ’’سیاسی ظلم ‘‘کے سارے چراغ بجھا کر پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی آنکھوں میں اُمید،اعتماد اور روشن مستقبل کے چھوٹے چھوٹے دیے روشن کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر