وجود

... loading ...

وجود
وجود

اپوزیشن کے بغیر طاقتور احتجاج

جمعرات 17 دسمبر 2020 اپوزیشن کے بغیر طاقتور احتجاج

برکھا دت

اس سے قطع نظر کہ آپ کسانوں کے متعلق نئے قوانین پر کیا رائے رکھتے ہیں، کسانوں کا احتجاج چند غلطیوں یا بے ترتیبی کے باوجود انتہائی منظم ہے، یہ کامیاب ہو یا ناکم اس سے قطع نظر اس قدر منظم کہ وہ اپنے اعصاب و حواس پر قابو رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کے خلاف اتنا منظم احتجاج شہریت قانون میں تبدیلی کے خلاف ’’مہذب‘‘ سول سوسائٹی کا بھی نہ تھا۔ اس سے ہندوستان میں جمہوریت کے حوالے سے کی گئی ایک سازش بھی آشکار ہوتی ہے۔ اس میں ایک مثبت پہلو بھی ہے کہ اگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسا کرنا چاہے تو اختلافی معاملات پر بھی سسٹم کو چیک اور بیلنس پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں اپوزیشن کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس وقت تک جب تک کہ ایک نیا قومی متبادل، خواہ شخصیت ہو، پارٹی یا نظریہ پر مبنی، سامنے

نہیں آتا، عوام کی طرف سے حکومت کے سنگین اقدامات کی اپنے طور پر مخالفت کی جاتی رہے گی۔
2019 میں، انتخابات سے پہلے، اروند کیجریوال کے مجھے دیئے گئے ایک انٹرویو کی بات یاد آئی، ’’لوگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست دیں گے، کسی سیاستدان کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘ جب یہ موقع آیا تو لوگوں نے، جس طرح کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے، وزیر اعظم کو شکست سے دوچار کرنے کے بجائے اس کو بھرپور ووٹوں سے نوازا۔ لیکن کیجریوال کی بات میں ایک دانشمندانہ حقیقت چھپی ہوئی تھی۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ ان کا مطلب اسی طرح تھا، لیکن بی جے پی کے سیاسی غلبے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی صلاحیت نے ہندوستان کو ایک جماعتی جمہوریت کی سمت میں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک متبادل طاقت جس کی کسی بھی صحت مند جمہوریت کی ضرورت ہوتی ہے، اب ہندوستان کی کسی سیاسی جماعت میں نہیں بلکہ یہ ذمہ داری اب اس کے شہری نبھا رہے ہیں۔

یقینی طور پر، اپوزیشن پارلیمنٹ کے فلور پر کچھ سخت اور تند و تیز بیان بازی کرتی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر ریلیاں نکالی اور گورنروں یا صدر کو درخواست کی جاتی ہے اور گورنرز یا صدر کو درخواستیں پیش کرتا ہے لیکن یہاں تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی شنوائی نہیں ہوتی۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آخری مرتبہ کب حزب اختلاف کے کسی بڑے رہنما نے کسی مسئلے پر پندرہ روز تک مسلسل احتجاج کیا تھا، جیسا کہ کسانوں نے کیا ہے؟ سیاسی رہنمائوں کے زیادہ تر احتجاج تصاویر بنوانے تک محیط ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرکزی دھارے کی سیاست میں منظر کشی اور علامت کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن، ہم کہتے ہیں کہ ہیتھراس کا اجتماعی عصمت دری کیس اب کہاں ہے۔ مقتول دلت لڑکی کے اہلخانہ کے ساتھ گاندھی خاندان نے بے تحاشا تصویر بنوائیں مگر کیا انہوں نے توجہ مرکوز رکھی کہ اس مسئلہ میں کیا ہو رہا اور کیس کی تحقیقات کہاں تک پہنچی؟ یا اس سال تارکین وطن کے ساتھ کیا ہوا۔ راہول گاندھی نے عالمی معاشی ماہرین کے ساتھ زوم انٹرویو کرنے کے بجائے دیہاتوں کے مسائل کے لیے شہروں کی طرف بھاگتے ہوئے مردوں، خواتین اور بچوں کے ساتھ اپنا وقت صرف کیا ہوتا تو کیا وہ کہیں بہتر سیاسی مقام پر نظر نہ آتے بلکہ ان کے مخالفین بھی انہیں مختلف انداز میں دیکھتے؟ کسانوں کے احتجاج نے حزب اختلاف کی طرف سے چلائی جانے والی کسی بھی تحریک کے مقابلے میں زیادہ پْرعزم اور مستحکم رہ کر توجہ حاصل کی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی اپوزیشن، خاص طور پر قومی دھارے میں شامل پارٹیاں، پارٹ ٹائم سیاستدانوں پر مشتمل ہے۔ ریاستوں میں، البتہ کچھ ایسے سیاستدان رہے ہیں جنہوں نے کل وقتی سیاست کے لیے عزم، ارادے اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ، جیتنے کے بعد، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ مرکز سے واضح طور پر نکمے یا غیر سود مند سمجھے جاتے ہیں۔ اس فریم ورک کے اندر، وہ مرکزی حکومت کی حمایت کرنے کے دوران اپنی ریاستوں کے پیرامیٹرز سے باہر کام نکل جاتے ہیں اور عیش و عشرت میں وقت گزارنے لگتے ہیں۔ چاہے دہلی، آندھرا پردیش، تلنگانہ یا اوڈیشہ ہو، ہم نے اسی طرح کے نمونے دیکھے ہیں، مخالفانہ مقامی سیاست ریاستی انتخابات کے بعد کسی نہ کسی طرح کی مفاہمت میں بدل جاتی ہے۔ در حقیقت یہ بھی سچ ہے کہ تحریکیں جو سیاستدانوں کے بجائے لوگوں کے ذریعہ چلائی جاتی ہیں زیادہ مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔ کسانوں کی تحریک پارٹی کے سیاستدانوں کو اپنے ا سٹیج پر نہ رکھنے کا اخلاقی فائدہ اٹھا رہی ہے۔لیکن ابھی تک کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے سال مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صرف دو ہی لمحے آئے ہیں جب وہ کسی بات چیت میں شامل ہونے یا انتظامیہ کی طرف سے کسی فیصلے کو روکنے پر راضی ہوئے۔ پہلی بار جب ہندوستان بھر کے طلبا نے نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنز (این آر سی) کے معاملہ پر اس قدر دبائو بڑھایا کہ بی جے پی کو ووٹ ڈالنے والے گھرانے بھی ان کی تائید پر مجبور ہو گئے۔ اور اب، جب پنجاب سے سکھوں کے زہر اہتمام کسان تحریک کے نتیجے میں کم از کم وزرا اور مظاہرین کے مابین مذاکارت کے کئی ادوار ہو چکے ہیں۔

ان دونوں ہی واقعات میں، سڑکوں پر موجود مظاہرین کے حامیوں میں، وجہ چاہے غصہ ہو یا جذبات، مودی کے حمایتی بھی شامل ہیں۔ یہاں تک کہ جب انہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ وہ اصل قانون سازی پر کہاں کھڑے ہیں، اس احتجاج میں اتنی شدت اور صداقت ہے کہ بی جے پی ووٹرز بھی چاہتے ہیں، حکومت کسانوں سے ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بات چیت کرے۔ حکومت کے لیے، کسانوں کا احتجاج ایک سبق ہے، اس سے قطع نظر کہ آپ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں، پھر بھی روزنوں کے ذریعے لوگوں کی آوازاٹھتی ہے ۔اپوزیشن کے لیے اس بڑھتی ہوئی نااہلی اورناقص کارکردگی کی یاددہانی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر