وجود

... loading ...

وجود
وجود

چین اور امریکا کے مابین’’ خلائی جنگ‘‘ ہونے کو ہے؟

منگل 01 دسمبر 2020 چین اور امریکا کے مابین’’ خلائی جنگ‘‘ ہونے کو ہے؟

اردو کی معروف افسانہ نگار بانوقدسیہ نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’’محبت ہمیشہ اُس سے ہوتی ہے،جس سے نہیں ہونی چاہئے۔محبت ہمیشہ اُس وقت ہوتی ہے ،جس وقت نہیں ہونی چاہئے اور محبت ہمیشہ ایسے ہوتی ہے ،جیسے نہیں چاہئے‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے یہ ساری خاصیتیں اور برائیاں جنگ میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتیں ہیں ۔یعنی جنگ ہمیشہ اُس سے ہوتی ہے ،جس سے نہیں ہونی چاہئے ۔جنگ ہمیشہ اُس وقت ہوتی ہے ، جس وقت نہیں ہونی چاہئے اور جنگ ہمیشہ ایسے ہوتی ہے ،جیسے نہیں ہونی چاہئے ‘‘۔محبت اور جنگ کے مابین حد درجہ مماثلت کی شاید بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم انسان ابتدائے آفرینش سے ہی یہ مانتے آئے ہیں جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتاہے ۔یوں سمجھ لیجئے کہ انسان نے کبھی بھی جنگ اور محبت میں ذرا برابر بھی تفریق روا نہیں رکھی،اس لیے محبت ہو یا پھر جنگ ،اسے شروع کرنے والوں کے لیئے اس کا انجام بالآخر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

آپ دنیا کی کسی بھی جنگ کا باریک بینی سے جائزہ لے لیں ،یقین مانئے کہ ہماری بیان کردہ تینوں خامیاں یا خوبیاں،آپ کو ہر جنگ میں ضرورمل جائیں گی۔ مثلاً جنگ ہمیشہ اُس سے ہوتی ہے ،جس سے نہیں ہونی چاہئے ۔دنیا کی نوے فیصد جنگیں ہمیشہ پڑوسی ممالک کے درمیان ہوتی ہیں حالانکہ ہر ملک بخوبی جانتا ہے کہ اُن کے دوست تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن پڑوسی کبھی بھی نہیں بدلتے مگر اس کے باوجود پڑوسی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات جنگ و جد ل کے بغیر ناقابل حل سمجھے جاتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ ایک دور دراز علاقے میں بسنے والا ملک بھی اگر کسی دوسرے دوردراز ملک پر جنگ مسلط کرنا چاہے تووہ بھی اس ملک کے سے متصل کسی پڑوسی ملک کے ذریعے ہی جنگ کرتا ہے ۔ جیسے امریکا نے روس کو سرد جنگ میں شکست دی تو اُس کے لیئے اُسے ہمارے ملک پاکستان کا سہارا لینا پڑا۔جبکہ عراق سے جنگ لڑی تو ضرور امریکا ہی نے، لیکن براستہ کویت لڑی ۔

دوسرا اُصول کہ جنگ ہمیشہ اُس وقت ہوتی ہے ،جس وقت نہیں ہونی چاہئے ۔یہ مسئلہ بھی کم وبیش ہر جنگ میں ہی ہوتاہے۔جیسے برطانیاجب ایک تہائی دنیا پر بڑے مزے سے حکومت کررہا تھا تو اچانک اُس کا واسطہ جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم سے پڑگیا ہے۔وہ وقت برطانیا کے لیے جنگ میں کود پڑنے کے لیے قطعی مناسب نہیں تھا لیکن جرمنی اور جاپان سمجھتے تھے کہ جنگ کے لیے یہ ہی وقت مناسب ترین ہے ۔بعدازاں جنگ عظیم کے انجام نے ثابت کیا کہ یہ وقت کسی کے لیے بھی جنگ کے معرکے میں اُترنے کا نہیں تھا اور جرمنی اور جاپان تو خیر سے جنگ میں شکست خوردہ رہالیکن دوسری جانب برطانیا بھی یہ جنگ جیت کر خسارے میں ہی رہا اور اسے ساری دنیا کا راج سنگھاسن چھوڑ کر فقط ایک چھوٹے سے قطعہ اراضی تک محدود ہونا پڑگیا۔ تیسرا اُصول کہ جنگ ہمیشہ ایسے ہوتی ہے ،جیسے نہیں ہونی چاہئے ۔ہر جنگ میں مفتوح ملک کو یہ ہی شکوہ رہا ہے ۔ مثال کے طور پر بھارت نے نصف صدی تک پاکستان کے ساتھ جنگ کرنے کی تیاری کیے رکھی اور 27 فروری کو تو ایک بار پوری دنیا کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ دونوں ملک اَب لڑے کہ تب لڑے لیکن اچانک خبر آئی کہ چین نے وادی لداخ میں بھارت کے درجن بھر سورماؤں کو موت کے گھاٹ اُتار کرچالیس ہزار کلومیٹر کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لیا اور اس جنگ میں چینی افواج کو مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا کیونکہ بھارت کے وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ کبھی اس محاذ پر بھی چین کے ساتھ جنگ ہوسکتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ آذر بائیجان اور آرمینیا کی جنگ میں بھی ہوا۔ آرمینیا جنگی سازو سامان مثلاً ٹینک ،توپ ،بارودی سرنگیں ،جنگی جہازاورمیزائل کی دستیابی میں ہمیشہ آذربائیجان سے دو قدم آگے ہی رہا ہے ۔ لیکن جب دونوں ممالک کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو آذربائیجان نے روایتی عسکری سازو سامان پر انحصار کرنے کے بجائے ترکی ساختہ چھوٹے ڈرونز سے ایسی تباہی مچائی کہ جب تک آرمینیا اپنے ٹینک ،گولہ بارود اور جنگی جہاز اپنے گوداموں سے باہر نکالتا اُس وقت تک آذربائیجان مہلک ڈرونز کے بل بوتے پر نگورنوکاراباخ کو فتح بھی کرچکا تھا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگ کے فاتح وہ ممالک ہرگز نہیںہوسکتے جو روایتی جنگی حکمت عملیوں اور لگ بندھے جنگی داؤپیچ کے اسیر ہوتے ہیں بلکہ جنگ میں فتح کے جھنڈے حقیقی معنوں میں وہ ممالک گاڑتے ہیں ۔جو جنگ کرنے کے لیے ایسے منفرد ہتھیار اور حیران کن میدان کا انتخاب کرتے ہیں ۔جن کے بارے میں کبھی اُن کے حریف نے خواب میں نہیں سوچا ہوتا۔تاریخ یہ بتاتی ہے ہرنئی جنگ کا فاتح ہمیشہ ایسے انداز میں جنگ لڑتا ہے کہ جس کی ماضی سے کوئی دوسری مثال نہ پیش کی جاسکے ۔ مثال کے طورپر سلطنت عثمانیہ کا سارا جنگی دبدبہ بھاری بھرکم توپ خانے کا مرہون ِ منت تھا ۔جبکہ برطانیا نے ایک تہائی دنیا کو اپنا زیرنگیں ڈائنا مائٹ جیسے مہلک بموں سے بنایا۔نیز امریکا ایٹم بم اور پراکسی وار ز کو متعارف کروانے کے بعد ہی عالمی طاقت کے منصب تک پہنچا ۔

کچھ عرصہ سے عالمی ماہرین سیاسیات کہتے آرہے ہیں کہ اگلا سپر پاور چین ہوگا، تو کیا چین اپنے حریف ممالک پر اپنی عسکری بالادستی قائم کرنے کے لیے کوئی نیا ’’میدانِ جنگ‘‘یا پھر کوئی منفرد اور حیران کن ’’طریقہ جنگ ‘‘ متعارف نہیں کروائے گا؟۔ہمارا خیال ہے کہ ضرور کروائے گا اور جلد ہی کروائے گا۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے وہ کونسا عسکری میدان یا جنگی ہتھیار ہوگا ،جس سے چین حریف ممالک کی تمام ترعسکری ترقی اور صلاحیت کو یکسر بے کار کرسکتا ہے ۔ واضح رہے کہ چین کا اصل حریف ایک ہی ملک ہے اور وہ امریکا ہے۔ کچھ برس پہلے تک امریکا سوچتا تھا کہ اُسے کیمیائی ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جاسکتا ہے اور عراق پر حملہ کرنے کے لیے امریکا نے اسی جواز کا سہارا لیا تھا کہ ’’عراق میں کیمیائی ہتھیار موجود ہیں ،جن سے مستقبل میں امریکا کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں‘‘۔مگر عراق کو تباہ و برباد کرنے کے بعد امریکا نے اعتراف کیا کہ ’’عراق میں کیمیائی ہتھیار نہیں تھے اور اُن کی وہ رپورٹ جس کی بنیاد پر امریکا نے عراق پر حملہ کرنے کا انتہائی اقدام اُٹھایا تھا قطعی بے بنیاد تھی‘‘۔جبکہ آج سے چند سال پہلے ایسی خبریں بھی اکثر و بیشتر عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی رہتی تھیں کہ ’’امریکا اپنے دفاع کویقینی بنانے او ر اپنے حریف ممالک کو سبق سکھانے کے لیے خود بھی کیمیائی ہتھیار تیار کرچکا ہے یا کررہا ہے‘‘۔

لیکن کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے بعد دنیا کے اُفق سے’’ کیمیائی جنگ‘‘ کا خطرہ تو مکمل طور پرٹل چکا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اچانک سے کیمیائی ہتھیاروں اور کیمیائی جنگ سے متعلق بحث و مباحثے ہی نہیں، بلکہ عام گفتگو بھی بالکل بند ہوچکی ہے ۔کیونکہ دنیا کے ہرملک کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ میں آ گئی ہے کہ کیمیائی ہتھیار کا ایک چھوٹا سا وائرس یا جرثومہ صرف حریف ملک ہی بلکہ خود اُس کے لیے اور دنیا بھر کی تباہی و بربادی کے لیے بھی کافی ہوگا۔یاد رہے کہ ایک سازشی نظریہ تو یہ بھی پورے شد ومد کے ساتھ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے کہ کورونا وائرس بھی مبینہ طور پر امریکا میں بنایا گیا ایک مہلک کیمیائی ہتھیار تھا ، جسے چین کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ بہرحال یہ سازشی نظریہ جزوی طور پر درست ہو یا پھر مکمل طور پر غلط ۔یوں سمجھ لیجئے کا کورونا وائرس کی عالمگیر ہلاکت خیزی نے ’’کیمیائی جنگ ‘‘کے ہلکے سے ہلکے امکان کو بھی سرے سے معدوم کردیا ہے ۔

تو پھر چین اور امریکا کے درمیان جنگ کا نیامحاذ کون سی جگہ بن سکتی ہے؟ ۔اس سوال کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ چین اور امریکا کے مابین جنگ کا نیا محاذ’’خلا‘‘ بھی بن سکتی ہے ۔جی ہاں ! تواتر کے ساتھ ایسے اشارے مل رہے کہ ہماری زمین کے اگلے عالمی حکمرا ن کا حتمی فیصلہ ’’خلائی میدان جنگ ‘‘ میں ہوگا۔ آپ بھلے ہی ہماری اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیں، لیکن چین او ر امریکا ایک دوسرے کے ساتھ ’’خلائی جنگ ‘‘ شروع کرنے کے لیے انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں ۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ خلا میں اپنی عسکری بالادستی قائم کرنے کے لیے امریکا نے جون 2019 میں امریکی فوج کی چھٹی شاخ جوکہ ’’خلائی فوج ‘‘ ہے قائم کردی تھی۔امریکی خلائی فوج کے باقاعدہ قیام کااعلان کرتے ہوئے اُس وقت کے امریکی نائب صدر مائیک پینس کا کہنا تھا کہ ’’چین اور روس خلا سے کام کرنے والے لیزر ہتھیار اور سیٹلائٹ شکن میزائل تیار کررہے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے‘‘۔

شاید آپ کے لیے حیرانی کا باعث ہو،مگر تلخ سچ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے اسمارٹ فون میں کام کرنا والا ’’جی پی ایس ‘‘سسٹم بھی ایک خلائی ہتھیار ہے ، جسے امریکی فوج نے ایجاد کیا تھا اور ابتداء میں اسے صرف امریکی فوج ہی استعمال کرتی تھی ۔جی پی ایس سسٹم عام استعمال کی اجازت بہت بعد میں دی گئی حالانکہ امریکی فوج جی پی ایس سسٹم کو 1960 کی دہائی سے بطور ایک جنگی ہتھیار استعمال کرتی آرہی ہے ۔جبکہ آج بھی ’’جی پی ایس ‘‘کا سب سے موثر اور بہتر استعمال عسکری سازو سامان میں کیا جاتاہے ۔مگر چین گزشتہ چند برسوں سے امریکی فوج کے ایجاد کردہ ’’جی پی ایس ‘‘سسٹم کا استعمال مکمل طور پر ترک کرچکا ہے کیونکہ چین نے اس کے متبادل سیٹلائٹ مانیٹرنگ سسٹم ’ ’بیدو ‘‘ ایجاد کرلیا ہے۔علاوہ ازیں اس وقت سب سے زیادہ مصنوعی سیارے امریکا کے پاس ہیں جن کی تعداد 803 ہے ،دوسرے نمبر پر چین ہے جس کے پاس 204 مصنوعی سیارے ہیں ۔جبکہ روس کے پاس بھی 142 مصنوعی سیارے یعنی سیٹلائٹ موجود ہیں ۔

ذہن نشین رہے کہ دنیا بھر میں چلنے والے موبائل ٹاورز ،انٹرنیٹ ،لائیو ٹی وی نشریات وغیر ہ سب کی زندگی خلا میں تیرے ہوئے ان ہی سیٹلائٹ کے دم قدم سے ہے اور حیران کن طور پر سیٹلائٹ شکن میزائل امریکا ،چین او رروس کے پاس کثیر تعداد میں ہیں ۔ اس لیے اگر کبھی انٹرنیٹ ،موبائل نیٹ ورک، لائیو ٹی وی نشریات سب کچھ اچانک اور ایک ساتھ بند ہوجائے تو اسی خام خیالی میں مت رہیے گا کہ حکومت نے سگنل بند کردیئے بلکہ اس امکان پر بھی ایک بار ضرور سوچ لیجیے گا کہ کہیں چین اور امریکا کے درمیان دنیا کی پہلی’’ خلائی جنگ ‘‘کا آغاز تو نہیں ہو گیا ہے ۔کیونکہ ’’خلائی جنگ‘‘ہمارے اور آپ کے عین سروں پر کھڑی ہے۔ بس! یہ الگ بات ہے کہ ہم ہی برس ہا برس سے کچھ بے خبری کے دائمی مرض میں مبتلا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر