وجود

... loading ...

وجود

آپ ٹھیک تو ہیں؟

پیر 30 نومبر 2020 آپ ٹھیک تو ہیں؟

(مہمان کالم)

میگہن مارکل ڈچز آف سسیکس

یہ جولائی کی روایتی صبح تھی۔ میں نے ناشتہ بنایا، کتوں کو خوراک ڈالی، پھر وٹامنز لیے، اپنی جرابیں ڈھونڈیں، پھر اپنے بیٹے کو پنگھوڑے سے نکالنے سے پہلے بالوں کی پونی کی۔ بیٹے کا ڈائپر تبدیل کرنے کے بعد مجھے اتنا شدید اکڑائو محسوس ہوا کہ میں بچے سمیت فرش پر گر گئی۔ اپنے بیٹے اور خود کو پْرسکون رکھنے کے لیے میں اسے لوری سنانے لگی۔ اس دوران مجھے لگ رہا تھا کہ معاملہ ٹھیک نہیں ہے۔ پہلا بیٹا میرے ہاتھوں میں تھا اور مجھے پتا چل گیا تھا کہ میں اپنے دوسرے بچے سے محروم ہونے والی ہوں۔ کئی گھنٹے بعد میں ہسپتال کے ایک بیڈ پر لیٹی تھی اور میرے شوہر کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں تھا۔ مجھے اس کی ہتھیلیوں کا لمس محسوس ہو رہا تھا اور میں اس کی انگلیوں کی پوروں کو چومنے لگی جو میرے آنسوئوںسے تر ہو گئی تھیں۔ میری نظریں مسلسل سفید دیوار پر تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ میں کیسے تندرست ہوں گی۔ پھر مجھے یاد آیا کہ گزشتہ سال میں اور ہیری جنوبی افریقہ کے ٹور پر تھے۔ میں مسلسل فیڈنگ کی وجہ سے نڈھال ہو چکی تھی مگر میں نے عوام کی نظروں میں خود کو ہمیشہ ایک بہادر خاتون کے طور پر پیش کیا۔ ایک صحافی نے تومجھ سے پوچھ بھی لیا ’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے جواب کی بازگشت ان نئی اور پرانی مائوں کے کانوں میں اتنی دیر تک گونجتی رہے گی جنہوں نے اپنا یہ دکھ کبھی کسی سے بیان نہیں کیا۔ میرے غیر معمولی جواب نے اور لوگوں کو بھی اپنا دکھ بیان کرنے کا حوصلہ دیا۔ میں نے صحافی کے سوال کے جواب میں کہا ’’مجھ سے وہ سوال پوچھنے کا شکریہ جو بہت سے لوگ نہیں پوچھتے کہ کیا میں ٹھیک تو ہوں؟‘‘۔ ہسپتال کے بیڈ پر لیٹے ہوئے جب میرے شوہر ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ مجھے سنبھالنے میں مصروف تھے‘ مجھے خیال آیا کہ تندرست ہونے کے لیے سب سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے ’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘۔

کیا ہم سب ٹھیک ہیں؟ 2020ء کا یہ سال ہم سب کے لیے بڑے دکھ اور غم لایا ہے۔ ہم بہت سی کہانیاں سن چکے ہیں۔ ایک عورت عام عورتوں کی طرح اپنے دن کا آغاز کرتی ہے کہ اچانک اسے خبر ملتی ہے کہ اس کی ماں کا کورونا کی وجہ سے انتقال ہو گیا ہے۔ ایک مرد صبح ٹھیک ٹھاک اٹھتا ہے تو کچھ سستی محسوس کرتا ہے اور پھر پتا چلتا ہے کہ اس کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور پھر دوسرے سینکڑوں لوگوں کی طرح ایک دن وہ بھی مر جاتا ہے۔ ایک نوجوان خاتون حسبِ معمول رات کو سونے کے لیے جاتی ہے اور اسے اگلی صبح دیکھنا نصیب نہیں ہوتی کیونکہ پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تھا اور وہ یہ خوف اور صدمہ برداشت نہیں کر سکی۔ جارج فلائیڈ ایک ا سٹور سے باہر نکلتا ہے تو اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ایک پولیس والے کے گھٹنے کے بوجھ کی وجہ سے سانس نہ لے سکے گا اور آخری لمحات میں اپنی ماں کو پکارتے پکارتے موت کے منہ میں چلا جائے گا۔ اس کی موت پر ہونے والے پْرامن احتجاج پْر تشدد ہنگاموں میں بدل جائیں گے۔ صحت تیزی سے بیماری کی صورت اختیارکر لے گی۔ جہاں لوگ مل جل کر رہ رہے تھے‘ اب نفاق اور انتشار کا دور دورہ ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ سچ کیا ہے۔ ہم حقائق پر اپنی رائے کی وجہ سے ہی ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نہیں ہیں بلکہ ہم اس بات پر بھی معذرت خواہ ہیں کہ کیا سچ‘ سچ بھی ہے یا نہیں۔ ہم اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ کیا سائنس ایک حقیقت ہے۔ ہم ا س بات پر لڑرہے ہیں کہ الیکشن میں ہمیں کامیابی ملی ہے یا ناکامی۔ اس نفاق اور انتشار کے عالم میں ہمیں کورونا وائرس کی وجہ سے ایک دوسرے سے سماجی دوری بھی اختیار کرنا پڑی تو ہم مزید تنہائی کا شکار ہو گئے۔ جب میں نوجوان تھی تو ایک دن مین ہیٹن کے پْررونق علاقے میں ایک ٹیکسی پر سفر کر رہی تھی۔ میں نے ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے باہر دیکھا کہ ایک عورت فون پر بات کرتے ہوئے زار و قطار رو رہی تھی۔ وہ ایک فٹ پاتھ پرکھڑی تھی اور سرعام فون پر اپنے دکھڑے بیان کر رہی تھی۔ میں اس وقت اس شہر میں نئی نئی آئی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ کیا ہمیں رک کر اس عورت سے پوچھنا نہیں چاہئے کہ کیا اسے کسی مد د کی ضرورت ہے؟ ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ نیویارک کے شہری اپنے دکھ و تکالیف سرعام بیان کرنے کے عادی ہیں۔ ’’ہم محبت بھی سرعام کرتے ہیں اور اپنے دکھ بھی سڑکوں پرکھڑے ہو کر بیان کرتے ہیں۔ ہماری کہانیاں اور جذبات ہر کوئی سن بھی سکتا ہے اور محسوس بھی کر سکتا ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں ابھی کسی کونے سے کوئی شخص نکلے گا اور آکر اس سے پوچھ لے گا کہ کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘۔ اب اپنے بچے کے کھونے کے غم اور کورونا وائرس کی وجہ سے سماجی تنہائی سہتے سہتے مجھے نیویارک کی وہ عورت یاد آ رہی ہے۔ اگر کوئی شخص نہ رکا ہوا تو؟ اگر کسی نے اس کا دکھ اور کرب نہ محسوس کیا تو؟ اگر کسی نے اس کی مدد نہ کی تو؟ کاش میں واپس جا سکتی اور اپنی ٹیکسی کے ڈرائیور سے کہہ سکتی کہ وہ کچھ دیر کے لیے گاڑی روک لے۔ دکھ اور تنہائی کے ان لمحات میں کوئی نہیں جو رک کر یہ پوچھ لے کہ تم ٹھیک تو ہو؟

اپنے بچے سے محروم ہو جانا ایک ایسا اذیتناک تجربہ ہے جسے کوئی بیان نہیں کرتا۔ اپنے دکھ اور اذیت کی اس گھڑی میں مَیں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہر100 میں سے بیس عورتیں اس اذیت سے گزر چکی ہوں گی، مگر اس پر بات کرنا معیوب اور باعثِ شرمندگی سمجھا جاتا ہے اور یہ غم اکیلے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کچھ خواتین نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا یہ دکھ دوسروں کے ساتھ شیئر کیا ہے اور اس طرح ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ جب ایک شخص بات کرتا ہے تو پھر دوسروں کے لیے بھی وہی بات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب لوگ ہم سے حال چال پوچھتے ہیں اور وہ دل کھول کر ہمارا جواب بھی سنتے ہیں تو ہمارے دکھ کی اذیت کم ہو جاتی ہے۔ جب ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنا دکھ شیئر کرنے کا موقع ملتا ہے تو ساتھ ہی ہمارا صحت یابی کا عمل بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس سال ہم ’’تھینکس گیونگ‘‘ ایسے موقع پر منا رہے ہیں جب ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہو چکے ہیں، لوگ تنہائی، بیماری، خوف اور انتشار کا شکار ہیں اور شکر گزار ہونے کے لیے کوئی موقع تلاش کر رہے ہیں تو آئیں! یہ عہدکرتے ہیں کہ ہم سب ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ ’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ہم ایک دوسرے کے ساتھ جتنا اختلافِ رائے رکھیں گے یا جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور رہیں گے‘ سچی با ت یہ ہے کہ ہم اتنا ہی ایک دوسرے کے زیادہ قریب محسوس کریں گے کیونکہ اس سال ہم سب نے اکیلے اور مل کر بہت سے دکھ سہے ہیں۔ ہم خود کو ایک نئے ماحول میں ڈھال رہے ہیں جس میں ہم نے اپنے چہرے ماسک سے ڈھانپ رکھے ہیں مگر ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک رہے ہوتے ہیں‘ جو کبھی گرم جوشی اور کبھی آنسوئوں سے بھری ہوتی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم بطور انسان واقعی ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ ا?پ ٹھیک تو ہیں؟ یقینا ہم سب ٹھیک ہوں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت ! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اساتذہ پر تشدد قابلِ مذمت !

اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار! وجود اتوار 06 جولائی 2025
اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار!

واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان کائنات کا سب سے عظیم معرکہ وجود اتوار 06 جولائی 2025
واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان کائنات کا سب سے عظیم معرکہ

بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار وجود جمعه 04 جولائی 2025
بھارتی تعلیمی ادارے مسلم تعصب کا شکار

سیاستدانوں کے نام پر ادارے وجود جمعه 04 جولائی 2025
سیاستدانوں کے نام پر ادارے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر