وجود

... loading ...

وجود
وجود

گریٹ شیطان

اتوار 29 نومبر 2020 گریٹ شیطان

(مہمان کالم)

جوناتھن پاور

امریکا کے اس وقت دنیا میں جتنے بھی دشمن ہیں، ان میں ایران تسلسل کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ 1979ء کا اسلامی انقلاب جس نے سیکولر شاہ کا تختہ الٹ کر اس کی جگہ بنیاد پرستوں کو بٹھا دیا، اس کے بعد سے ایران امریکا کا گریٹ شیطان ہے۔ تاہم یورپ کی نظر میں ایران میں ایسی کوئی خاص خرابی نہیں۔ فارن افیئرز کے حالیہ ایڈیشن میں پروفیسر ڈنیل بینجمن اور پروفیسر سٹیون سائمن لکھتے ہیں، ’’گزشتہ 100 سال سے تاریخ دان یہ فیصلہ کرنے کی کوشش میں ہے کہ سرد جنگ کے دور سے امریکا کس بیرونی طاقت سے خوفزدہ رہا ہے۔ اس دوران یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ روس پہلے کٹر دشمن، پھر دوست اور اب ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ اسی دوران چین ایک بڑا حریف بن جاتا ہے۔ شمالی کوریا محض ایک سائیڈ شو ہے، صرف ایران ایک متواتر اور ناقابل تسخیر دشمن کے طور پر ملتا ہے‘‘۔ صدر ٹرمپ ایران پر معاشی پابندیاں لگا چکے پھر بھی اس کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں ا?ئی ،ابھی چند ماہ قبل ایک وقت میں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے صدر ٹرمپ ایران پر حملے کا حکم دینے والے ہیں۔

ایران کی انقلابی حکومت ابتدا سے ہی امریکا کے ساتھ اشتعال انگیزیاں کرتی رہی ہے۔ اس نے دوبارہ سے اس سطح کی یورینیم افزودگی شروع کر دی ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی بھی دن ایٹم بم تیار کر سکتا ہے۔ وہ شام کی بشارالاسد حکومت کو سپورٹ کرنے اور اپنے پراکسی حزب اللہ کے ذریعے اسرائیل کو اشتعال دلا نے کے علاوہ عراق میں مختلف شیعہ ملیشیائوں، یمن میں حوثی باغیوں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ البتہ افغانستان میں امریکا اور نیٹو کے ساتھ مفادات کی ہم آہنگی کے باعث غیر اعلامیہ ان کی معاونت کر رہا ہے۔
تیل کی کل عالمی برآمدات کا ایک چوتھائی خلیج فارس سے گزرتا ہے جہاں ایران کی طویل ساحلی پٹی ہے۔ ان برآمدات کا ایک فیصد بھی امریکا نہیں پہنچتا مگر ان میں خلل تیل کی عالمی قیمتوں کو بْری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اس تیل کا بڑا حصہ چین جاتا ہے جو کہ ایران کا اہم حمایتی ہے۔ آبنائے ہرمز سے متعلق سنگین خدشات کے برعکس اس سمندری راہداری کے بند ہونے کا امکان نہیں۔ کیونکہ یہ کوئی معمولی سا تنگ راستہ نہیں۔ ایران نے حال ہی میں دو غیر امریکی آئل ٹینکر روکے جو کہ محض مغرب کو ہراساں کرنے کیلئے تھے۔ اگر طاقت کے توازن کی بات کی جائے تو واشنگٹن کا تہران کے بارے میں خبط مضحکہ خیز ہے۔ ایرانی معیشت بہت بڑی نہیں ہے۔ امریکا اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اتحادی جن میں اسرائیل، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سرفہرست ہیں، کے مجموعی دفاعی اخراجات سالانہ 750 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو ایران کے دفاعی اخراجات سے 50 گنا زیادہ ہیں۔ ایرانی میزائل بہت زیادہ دور تک مار کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملے میں استعمال ہونے والے ڈرون جنہوں نے ریڈار سے نیچے پرواز کی، ان کی ٹیکنالوجی کافی سادہ تھی۔

اختلافات کے باوجود صدر اوباما نے روس اور یورپی یونین کی حمایت کے ساتھ ایرانی قیادت سے بات چیت شروع کی اور ایرانی نیوکلیئر ریسرچ سینٹر رول بیک کرا کے ایٹمی ہتھیار بنانے کا خطرہ ختم کیا۔ بعض رپورٹس کے مطابق ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہشمند نہیں تھا۔ 2015ء کی نیوکلیئر ڈیل کا ایک مقصد ایرانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کرنا تھا تاکہ مشرقی وسطیٰ میںاس کی اشتعال انگیز مداخلت کم سے کم کی جا سکے۔ مگر اوباما نے یہ موقع گنوا دیا۔ شروع میں ایران نے انہیں مذاکرات کی پیشکش کی جسے انہوں نے رد کر دیا تھا۔ انہوں نے اینٹی نیوکلیئر مذاکرات کا عمل بھی بہت تاخیر سے شروع کیا۔ ٹرمپ جسے اوباما دور کی ہر کامیابی سبوتاژکرنے کی بیماری ہے، اس نے نیوکلیئر ڈیل کے مکمل طور پر فعال ہونے سے قبل ہی اسے ایک متروک دستاویز بنا دیا۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کے 40 سال سے ہتھکنڈوں اور تنہائی برداشت کرنیوالے ملک سے توقع کرنا کہ وہ جھک جائے گا، ممکن نہیں۔ اسرائیل سے مخاصمت کی بڑی وجہ ایرانی خدشات ہیں کہ وہ اس کا تختہ الٹنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ عراق میں 2003ء کے امریکی حملے سے قبل ایران کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کو سپورٹ کرنے میں امریکا بھی پیش پیش تھا۔ سعودی عرب کی ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کی شدید خواہش کی وجوہات کچھ سیاسی اور کچھ مذہبی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایران حوثی باغیوں کے ذریعے سعودی عرب کو زخم لگا رہا ہے۔ جواب میں سعودی اقدامات کسی لحاظ سے قابل ستائش نہیں، جن میں اس کی فورسز خواتین، بچوں بلکہ ہسپتالوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کر رہی ہیں۔ شام کے ساتھ ایران کے تعلقات دراصل دو شیعہ ریاستوں کے مابین ایک سودا ہے کیونکہ دونوں مشرق وسطیٰ کی سنی اکثریت سے خوفزدہ ہیں۔ ان تمام تنازعات کا امریکی مفادات سے کوئی ٹکراو? نہیں۔
امریکا اور ایران میں فاصلے ایسے نہیں کہ کبھی ختم نہ ہو سکیں۔ یورپی یونین نے ہمیشہ یہ فاصلے ختم کرانے کی کوشش کی لیکن امریکی پابندیوں کی وجہ سے اب وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ امریکا کا ایرانی معیشت اور حکومت کو مکمل عدم استحکام سے دوچار کرنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ کے عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا، پناہ گزینوں کا بحران بھی بڑھ جائے گا۔ ایران جارح مزاج ہو سکتا ہے، مگر اس کیلئے ممکن نہیں کہ وہ مسلسل حالت جنگ میںمیں رہے،اوبامانے روس اوریورپی یونین کے تعاون سے ایک راستہ دکھایاتھاان کے راستے پرجتنی جلدی امریکالوٹتاہے اتنی ہی تیزی سے مشرق وسطی میں قیام امن کی راہ ہموارہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر