وجود

... loading ...

وجود
وجود

نیتن یاہو کا سیاسی ترکہ

هفته 28 نومبر 2020 نیتن یاہو کا سیاسی ترکہ

(مہمان کالم)

اُسامہ الشریف

اسرائیل پر طویل عرصہ سے براجمان وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو فراڈ اور کرپشن کے سنگین الزامات کی وجہ سے جس ذلت کا سامنا کر رہے ہیں، اسے دیکھ کر کسی کے لیے بھی اطمینان کا اظہارکرنا ممکن نہیں۔ بعض حلقے توقع کر رہے ہیں کہ اسرائیلی تاریخ کا متنازع ترین وزیراعظم نئے چیلنج سے بھی بچ نکلے گا۔ اس نے الزامات کا سامنا کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے اسے مزید کچھ مہینے مل جائیں گے کیونکہ اسرائیلی پارلیمنٹ منقسم ہونے کے باعث فعال نہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس کے خلاف مقدمہ بھی چلے گا، اور اسے قصور وار قرار دے کر جیل بھی بھیجا جائیگا۔اس بات کا امکان کم ہے کہ نیتن یاہو اسرائیل پر گہرے سیاسی نقوش چھوڑ پائیں گے۔ وہ ایک دہائی سے اپنے لیے سیاسی منظرنامے کو سازگار بناتے رہے ہیں۔ ایک شعلہ بیان مقرر اور انتہا پسند سیاسی فکر کی بنیاد پر انہوں نے مقبول نعرے لگا کر دائیں بازو کے ووٹروں کو پیچھے لگا کر اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنایا جو کہ ہمیشہ سے ان کا ہدف رہا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے نسل پرست گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا اور اعتدال پسند اور بائیں بازو کے جماعتوں سیاسی میدان سے باہر کر دیا۔ سیاسی مخالفین اور ناقدین کو دبانے کیلئے انہوں نے ہر حربہ استعمال کیا جن میں اسرائیل کے فلسطینی شہری سرفہرست تھے، ملک میں خوف، امتیاز اور شک و شبہ کاکلچر پروان چڑھایا۔ انہوں نے دو ریاستی حل کی تجویز سے لاتعلقی اختیار کر کے یورپی اتحادیوں کے علاوہ امریکا کی یہودی تنظیموں کے ساتھ فاصلے بڑھائے۔ ’’کنگ بے بی‘‘ نے یہ کچھ اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا، جس کا مقصد مغربی کنارے تک اسرائیل تسلط کو توسیع دینا اور فلسطینیوں کا حق خود ارادیت ہمیشہ کے لیے کچلنا تھا۔

30سالہ سیاسی کیریئر کے دوران نیتن یاہو کے موقع پرستی پر مبنی حربوں نے اسے ملکی منظر نامے پر ابھرنے کا موقع دیا۔ فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتا کرنے پر اس نے انتہا پسند یہودیوںکو اسحاق رابن کے خلاف اکسایا، جسے بعد ازاں نیتن یاہو کے ایک پیروکار نے قتل کر دیا۔ اسرائیل سیاست کے اس ابھرتے ستارے نے اسحاق رابن کے قتل پر کبھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ نیتن یاہو کو اسرائیل کے تمام وزرائے اعظم میں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ خیال کیا جاتا ہے۔ وہ عبرانی کے علاوہ انگریزی میں پوری فصاحت و بلاغت کیساتھ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ امن بقائے باہمی، دو ریاستی حل جیسے سیاسی فارمولوں پر یقین نہیں رکھتے۔ بیرونی دنیا کو انہوں نے ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ ایک فلسطینی بھی ایسا نہیں جس کے ساتھ مذاکرات کیے جا سکیں۔ ملک کے انتہا پسند پیروکاروں کے لیے ان کا پیغام تھا کہ فلسطینیوں سے کسی قسم کا امن معاہدہ یہودی ریاست کے خاتمے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔

حالیہ کچھ برسوں میں وہ فلسطینیوں کی زبوں حالی سے دنیا کی توجہ ہٹانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اسرائیل کا اس وقت سب سے بڑا دشمن ایران ہے؛ ایک ایسا دشمن جس کی عربوں کے ساتھ بھی نہیں بنتی۔ گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران اس نے ایک مرتبہ بھی فلسطینیوں کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی نظر میں وہ غیر مرئی لوگ ہیں، اس نسل پرست کی نظر میں پچاس لاکھ فلسطینیوں سے تحقیر آمیز سلوک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ اوسلو امن معاہدوںمیں فلسطینیوں کے ساتھ جتنے بھی وعدے کیے گئے تھے، نتین یاہو کی نظر میں ان سے منہ موڑ کر اس نے کچھ غلط نہیں کیا۔ عالمی برادری کی طرف سے ٹھوس ردعمل کے فقدان سے شہ پا کر نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کے قیام کے منصوبے پر کام تیز کر دیا، تاکہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر عمل درآمد ناممکن ہو جائے؛ یہ وہ سیاسی ترکہ ہے جس کا سہرا نیتن یاہو کے سر جاتا ہے۔

پانچویں مدت کے لیے وزیراعظم بننے کے خواہش مند نیتن یاہو کو کچھ نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مطلق العنان بن کر اس نے کئی دشمن بنا لیے تھے۔ رواں سال کے دونوں عام انتخابات اسے مثبت نتائج دینے میں ناکام رہے۔ نتین یاہو کے اقدامات نے اسرائیل کو داخلی سطح پر منقسم کر دیا ہے؛ چھوٹی جماعتیں مخصوص رعایتوں کے بدلے میں اس کا ساتھ دیتی رہیں؛ نیتن یاہو کے نوآبادیاتی منصوبے سے اختلاف کرنے والے سابق جنرل اس کے اتحادیوں کی کرپشن سے بھی سخت بیزار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب انہیں سیاسی کردار ادا کرنا چاہیے۔ نتین یاہو کا دعویٰ ہے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے، وہ اس مبینہ سازش کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں۔ اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کو فوجی بغاوت کی کوشش قرار دیتے ہیں۔

فلسطینی مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے کا منصوبہ کامیاب بنانے کے لیے ٹرمپ کا صدر بننا بھی ضروری تھا۔ ٹرمپ وائٹ ہائوس سنبھالنے سے آج تک اسرائیل کے انتہا پسند ایجنڈے پر عمل درآمد کرا رہا ہے۔ اس وقت دونوں اپنی سیاسی بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ٹرمپ سینیٹ میں ریپبلکن اکثریت کے باعث شاید بچ جائیں اور 2024ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں پھر اہم ترین امیدوار ثابت ہوں، مگر نیتن یاہو کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا سیاسی زوال یقینی ہے، مگر ضروری نہیں کہ اس کا جانشین فلسطینیوں کے لیے بہتر ثابت ہو۔ نتین یاہو کی پالیسیوں میں تھوڑی بہت تبدیلیاں ممکن ہے کہ وہ متعارف کرا دے مگر اسرائیل پر نسلی امتیاز پر مبنی ریاست کا داغ دھونا اس کے لیے بھی ممکن نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر