وجود

... loading ...

وجود
وجود

ترقی اورآنسو

جمعرات 26 نومبر 2020 ترقی اورآنسو

ہمارے ایک دوست ہیں ضیاء الدین ۔۔ ہم انہیں بابا ضیاء بھی کہہ دیتے ہیں،عمر کے تفاوت کے باوجود ان سے گہرا تعلق رہا وہ بڑے نستعلیق قسم کے انسان تھے ،بڑے ہمدرد،مخلص اور سچے پکے پاکستانی،،جوانوںسے زیادہ متحرک ،فعال اورسوشل،، سال پہلے کی بات ہے ایک دن معلوم ہوا کہ وہ کافی علیل ہیں۔ ملاقات ہوئی تو خاصے کرب میں تھے ہمیں دیکھ کر بسترسے اٹھ بیٹھے ۔شاید
ان کے دیکھے جو آجاتی ہے منہ پررونق
وہ سمجھتے ہیں بیمارکا حال اچھا ہے
ہم نے انہیں کریدا۔۔پھر پاکستانی معاشرے،ترقی و تنزلی کی بات ہوئی جو کچھ انہوںنے کہا دل میں ترازو ہوگیا آپ بھی بابا ضیاء الدین کے خیالات سنئے اختلاف آپ کا حق ہے وہ کہتے ہیں سیاست دھرنے ،احتجاج،لاقانونیت سب کچھ برداشت کرلیا اربوں خرچ ہوگئے کھربوں کا نقصان ہوگیا،پاکستان کا ،عوام کا اس سے آپریشن ضرب ِ عضب کو بھی دھچکا لگا، اگر یہی اربوں روپے بچ جاتے تو یقینا ملکی معیشت مضبوط ہوتی غیروںکو تو ایسے بہا نے چاہیے ہوتے ہیں کہ پاکستان ترقی نہ کرے ،یہ ملک مضبوط نہ ہو ایک اسلامی ملک ترقی کیوں کرے؟اسے ایٹم بم بنانے کی جرأت کیونکر ہوئی؟ ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ میں ایسی پالیسیاں بنائی گئی ہیں یہ عمل مسلسل جاری ہے کیسے کیسے حربے استعمال کیے جارہے ہیں،عوام ہیں کہ کبھی خوش ہوتے ہیں اور کبھی ناراض،نوجوانوں،عورتوں اور مردوںکوومحض تفریح بنائے رکھا سوچا جائے تو لگتاہے گویا انہیں زہریلا انجکشن لگا دیا گیا ہو جس کااثر دیرپا ہو، کاش ایسا نہ ہوتا میری رائے میں ،ایک شیخ نے اس دوران مزاحیہ اندازمیں منافقانہ رویہ روا رکھا ضرور اس میں عوام کے لیے شکوک و شبہات پنہاں ہیں۔۔۔ بہرحال ابھی اللہ تعالیٰ کو پاکستان کی بہتری منظور ہے یہ قائم دائم رہے گا خوب ترقی بھی کرے گا، سیاسی بیانات میں بعض خود ساختہ لیڈر اپنی شعلہ بیانی کا حصہ بناتے ہیں کہ’’ 65برسوںتک پاکستان کو ہر حکومت نے لوٹا اور غریب ،غریب ہی رہا‘‘ جناب یہ بالکل ہی غلط ہے، پاکستان بنتے وقت کتنے لوگوںکے پاس موٹر سائیکل تھے کتنے مسلمان کاریں لیے پھرتے تھے ان کی تعداد انگلیوںپر گنی جا سکتی تھی اور آج لاکھوں لوگ اپنا معیار ِز ندگی اوپر لا چکے ہیں۔۔کتنی بڑی بڑی فیکٹریاں بن چکی ہیں لاہورمیں1963ء میں پہلی بارالفلاح بلڈنگ اور واپڈاہائوس بنایا گیا آج کتنی بڑی بڑی بلڈنگیں موجودہیں تعدادشمار نہیں کی جا سکتی، اب جھونپڑی میں رہنے والے کے پاس،گدھا گاڑی والے کے پاس بھی موبائل فون ہے،جھونپڑیوںمیںTVموجودہیں،کسی بھی سڑک کو لے لیں آپ بآسانی پارنہیں کر سکتے آج کتنے انڈرپاس،، اوورہیڈبرجزہیں،موٹروے ہے رنگ روڈزہیںہرشہرمیں بائی پاس ہیں ناقدین کو چاہیے وہ ایک بار بادامی باغ میں آزادی چوک کا نظارہ کرلیں،چونگی امرسدھو۔والٹن کی سڑکوںکا چکر لگا لیں ،ایک بار صرف ایک بار شاہدرہ سے گجو متہ تک میٹرو بس(جسے چوہدری برادران جنگلہ بس کہتے ہیں) میں سفر کرکے دیکھیں آج ملک میں میڈیکل کالجز،یونیورسٹیوں،پمزہسپتال،PICہسپتال،جلوپارک،لاہور وائلڈ لائف پارک، سفاری پارک ہی جائیں پھر اپنے سینے پرہاتھ رکھ کر ،اپنے خدا کو یاد کرکے دومنٹ سوچیں آپکو سب معلوم ہو جائے گا یہ سب کچھ ہم کو پاکستان نے دیاہے، اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟پاکستان نے تو اپنی قوم کو ایٹم بم دیا قوم نے پاکستان کو کیا دیا؟۔۔ سبھی حکومتوں نے ۔۔۔ہر برسراقتدار پارٹی نے اپنے دور ِ حکومت میں بہت سے کام کیے، غورکریں مسلم لیگی ادوار ان میں سب سے آگے ،سب سے بہتر نظرآئے گابخل،انتقام،حسد سے کام نہ لیا جائے ایک خالص پاکستانی بن کر سوچئے اہو دعا کیجئے اللہ ہمارے پیارے وطن کو تا قیامت شاد و آبادرکھے موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ رشوت،اقرباپروری،مہنگائی پر قابو پائے،نچلی سطح پر عوامی مسائل حل کرنے کے لیے بھی دھیان دیا جائے وزیر،مشیر اور ارکانِ اسمبلی کوئی پراگرس نہیں دے رہے آخرمیں پشاورآرمی پبلک ا سکول میں ہونے والے اندوہناک سانحہ پردعا کریں شہید ہونے والے بچوں کے و الدین کو اللہ پاک صبرِ جمیل عطافرمائے یہ سانحہ بھلائے نہیں بھولتا میں تو کئی دن رویا،ڈیپریشن کا شکار ہوگیا طبیعت اتنی ناسازہوئی کو ڈاکٹرنےTVدیکھنے پر پابندی لگادی بہرحال ایسے واقعات ہی قوموںکو جگا دینے کا سبب بن جاتے ہیں ان شہیدوںکی یاد میں ایک نظم میری کیفیت کااظہارکرتی ہے
بہت دیرہو چکی،اب تک نہیں لوٹے
کہاںگئے ،ہمارے بچے کوئی توبتلائے
کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے میرے لال کو
گرم جرسی کی بجائے اس کو کفن پہنائے
ظالموں،دہشت گردو تمہیں خدا پوچھے
معصوم بچوںکو چن چن کے گولیاں ماریں
ترس نہ آیا تمہیں ہائے ہائے ہائے ہائے
گھرسے نکلے تھے چہچہاتے ا سکول کو
میرے بچے ،میرے پوتے،میرے نواسے
کہاں ہو آبھی جائو۔دوڑتے ہوئے
لگ جائو سینے سے نانا ابوجان کے
ماں تک رہی ہے راہ، بہن کو ہے انتظار
بلا ہاتھ میں لیے دوست ہیں بے قرار
چھوڑو ناراضگی یار تم تو مستقبل ہو ہمارے
تمہی سے بننا تھا کوئی کیپٹن،کوئی میجر،کوئی سپہ سالار
بہت دیر ہو چکی کیوں نہیں آئے ابھی تک
ارے کہاں گئے ہمارے بچے کوئی تو بتلائے؟
یہ کہتے ہوئے وہ ایک بارپھر پھوٹ پھوٹ کررونے لگ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر