وجود

... loading ...

وجود
وجود

جہاں کورونا وائرس نہیں ہے

جمعرات 26 نومبر 2020 جہاں کورونا وائرس نہیں ہے

(مہمان کالم)

اسٹیفنی نولین

آج صبح میرے بچے ا سکول چلے گئے۔ ان کا سکول اینٹوں سے بنی پرانی بلڈنگ ہے جس میں داخل ہونے کے لیے وہ ایک خستہ گیٹ پر قطار بنا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد میں ورزش کرنے کے لیے جم چلی گئی جہاں میں پسینے سے شرابور ایک گروپ کلاس میں شامل ہو گئی۔ چند روز پہلے میں اور میرے پارٹنر نے مل کر ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس میں ہمارے آٹھ دوست شامل ہوئے۔ ہم سب ایک ڈائننگ ٹیبل کے گرد جمع تھے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا۔ میں جہاں رہتی ہوں‘ ہم وہاں بلا خوف و خطر اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہاں زندگی آج بھی ویسے ہی ہے جیسے ایک سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ یہ وائرس فری جادوئی دنیا ایمپائر ا سٹیٹ بلڈنگ سے محض ایک دن کی مسافت پر واقع ہے جسے نووا سکوٹیا کہتے ہیں۔ یہ بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع کینیڈا کے ان چار صوبوں میں سے ایک ہے جنہیں ’’مفلس صوبے‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معاشی طور پر غریب صوبے ہیں جن کا انحصار زیادہ تر مغرب کے متمول صوبوں سے ہونے والے کیش ٹرانسفر پر ہوتا ہے۔ کووڈ 19 کے زمانے میں ’’مفلس‘‘ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ ہمارے ہاں کورونا وائرس کا لاک ڈائون مارچ میں شروع ہوا تھا۔ صوبائی سرحدیں مکمل طور پر بند کر دی گئی تھیں۔ نووا سکوٹیا میں تو پبلک ہائیکنگ کے وہ ٹریک بھی بند کر دیے گئے تھے جہاں مقامی لوگ آزادانہ طور پر دور دور تک پیدل چلنے کے عادی ہو چکے تھے مگر لاک ڈائون پر سختی سے عمل ہوا اور اس کے مثبت نتائج بھی دیکھنے کو ملے۔ جب نئے کیسز کی تعداد سنگل ڈیجٹ میں آئی تو سب نے سکھ کا سانس لیا۔ مئی کے مہینے میں ان پابندیوں میں کسی حد تک نرمی کی گئی اور جون میں یہ بالکل ہی ختم کر دی گئیں۔ جولائی کے شروع میں بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع ان صوبوں میں سفری پابندیاں اٹھا لی گئیں مگر جو بھی کسی دوسرے علاقے سے آتا تھا اس پر قرنطینہ کے رولز کی پابندی لازم تھی؛ تاہم جنوب میں امریکا کے ساتھ واقع سرحد مکمل طور پر بند رہی۔

جنوبی سرحد سے ملنے والی کورونا کی تباہ کاریوں کی خوفناک خبروں سے ایک انجانا خوف آج کل ہر وقت ذہنوں پر سوار رہتا ہے۔ امریکا سے ملنے والے اعداد و شمار ناقابل یقین اور سمجھ سے بالاتر ہیں۔ 1لاکھ 80ہزار، 1لاکھ 40ہزار، 1لاکھ 20ہزار نئے کیسز روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔ جب میں وہاں اپنے دوستوںسے بات کرتی ہوں تو وہ سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں‘ وہ کمرے میں کھیلتے بچوں کی موجودگی میں اپنا کام نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکثر کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور پھر صحت یاب بھی۔ کینیڈا میں بھی نئے کیسز کی گنتی بڑھتی جا رہی ہے۔ مونٹریال میں میرے بھائی اور ان کی فیملی اب پھر لاک ڈائون کی زد میں ہیں۔ میں جب اپنی شب و روز کی سرگرمیوں اور تیز رفتار سکیٹنگ ریسز کی تصاویر پوسٹ کرتی ہوں تو یہ ان کے مقید ماحول سے بالکل الٹ عکاسی کر رہی ہوتی ہیں۔ یہاں بھی کووڈ 19 نے لوگوں کا طرزِ زندگی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہم گروسری ا سٹور پر ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ ا سٹار بکس پر کیشئر ایک شیشے کے اندر بیٹھ کر کیش وصول کرتا ہے۔ مجھے اپنے ڈنر پارٹی کے مہمانوںکی تعداد دس سے کم رکھنا پڑتی ہے۔ نووا سکوٹیا میں جولائی سے ہر ایک کے لیے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک پہننا لازمی ہے مگر اب یہاں یہ سب کچھ نارمل لگتا ہے۔ صبح کی ڈیوٹی میں ایک نئی بات شامل ہو گئی ہے مثلاً پہلے بچوں سے پوچھتے تھے کہ تم نے اپنا ہوم ورک لے لیا ہے، اپنا لنچ لے لیا ہے اور اب یہ بھی پوچھنا پڑتا ہے کہ تم نے اپنا ماسک بھی لے لیا ہے؟ میں وائرس سے متاثر ہوئے بغیر کئی دن گزار سکتی ہوں۔

ہیلی فیکس کی رئیل اسٹیٹ پر اس موسم خزاں میں شدید دبائو تھا۔ ہمارے چھوٹے سے شہر میں رہائش نسبتاً سستی ہے۔ یہاںساحل ہیں اور لکڑی سے بنے پارکس، مگر ملازمتوں کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے یہاں کے زیادہ تر لوگ دوسرے شہروں میں رہتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر اب کچن ٹیبل پرکام کرتے ہیں۔ ٹورنٹو کے باسی اب کورونا وائرس کے خوف سے پْرکشش زندگی چھوڑکر اپنے شہر سے بھاگ رہے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع اور کم آبادی نے بحر اوقیانوس کے ساحل پر واقع کینیڈا کے صوبوں کو ایک اور ہی دنیا بنا دیا ہے۔ اس پورے علاقے کی آبادی صرف پچیس لاکھ ہے۔ نیو فائونڈ لینڈ اور پرنس ایڈورڈ جزیروں کی وجہ سے سرحدوں کو کنٹرول کرنا آسان ہو گیا ہے۔ صرف ایک صوبے کی سرحدیں امریکا سے ملتی ہیں اور ایک سرحد کیوبک صوبے سے متصل ہے جو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ہیلی فیکس اس ریجن کا سب سے بڑا ایئر پورٹ ہے جہاں پہلے روزانہ ایک درجن پروازیں آتی تھیں، اب ایک بھی نہیں آتی۔ جب میں نے نووا سکوٹیا کے چیف ہیلتھ آفیسر رابرٹ ا سٹرینج سے پوچھا کہ آپ یہاں کے حالات کو کس طرح نارمل رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس نے مجھے ایک انوکھی بات بتائی۔ ’’ہمارے ہاں سیاست دان نہیں بلکہ پبلک ہیلتھ حکام یہ پالیسی بناتے ہیں کہ کیا کھولنا ہے اور کیا بند رکھنا ہے۔ اور لوگ لاک ڈائون، اجتماع اور ماسک سے متعلق رولز پر سختی سے عمل کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے مجھے بتایا ’’ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ میرے خیال میں یہ ہمارے کلچر اور اجتماعی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو لوگ بخوشی اسے قبول کرتے ہیں‘‘۔ کورونا کی عالمی وبا اس خطے اور اس کی معیشت کے لیے ایک حقیقی عذاب ثابت ہوئی ہے جس کا بڑا انحصار سیاحت پر ہے۔ اپریل میں ختم ہونے والی ملازمتوںمیں سے 80فیصد بحال ہو چکی ہیں؛ تاہم سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال کشیدہ رہنے کا امکان ہے۔

آج صبح ہی مجھے اپنے ہمسائے میں واقع ایک اور بزنس کے بند ہونے کا پتا چلا، جس کی کھڑکی پر اس کا نوٹس لگا ہوا تھا۔ گھروں سے بے دخلی کی شرح میں اضافہ ہو گیا ہے۔کیئر ہومز میں رہنے والوں کے ساتھ وزیٹرز کی ملاقاتیں بہت کم ہو چکی ہیں۔ اگر ہم اپنا علاقہ چھوڑتے ہیں تو واپسی پر ہمیں چودہ دن کے لیے قرنطینہ میں جانا پڑے گا۔ قرنطینہ بھی اب قید کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے درمیان اب ایک ہی بحث چلتی ہے کہ کس نوعیت کا قرنطینہ اور پابندیاں مناسب ہیں مگر ہم یہاں یہ بات اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کن باتوں نے اب تک محفوظ رکھا ہوا ہے جبکہ امریکا میں وہی باتیں متنازع سمجھی جاتی ہیں مثلاً پبلک ہیلتھ کیئر، پبلک میڈیا اور سوشل سیفٹی نیٹ وغیرہ۔ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ امریکا میں کورونا وائرس اس قدر بے قابو ہو چکا ہے جبکہ اس سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہم ایک محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ہماری آزادی بہت قیمتی اور نازک ہے۔ یہ اتنی سستی نہیں ملی ہے لیکن یہ ایک مسلسل عمل ہے اور ہمیں اس بات کا پورا ادراک ہے کہ اس کے حصول کے لیے ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کا صلہ ایک محفوظ زندگی کی صورت میں ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر