وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں کورونا کی نئی لہر کا خوف

منگل 17 نومبر 2020 بھارت میں کورونا کی نئی لہر کا خوف

جیفری جینٹل مین
۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان کالم

دو ماہ قبل‘ پورا بھارت کورونا وائرس سے تباہ شدہ ایک علاقے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک دن میں ایک لاکھ کے قریب نئے کیسز رپورٹ ہو رہے تھے‘ اموات کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی اور بھارت ریکارڈ شدہ کیسوں میں امریکا کو پیچھے چھوڑنے کے لیے تیار دکھائی دیتا تھا لیکن آج صورتِ حال قدرے مختلف نظر آ رہی ہے۔ ریکارڈ شدہ کیس، اموات اور جانچے جانے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے برعکس‘ یورپ اور امریکا میں وبا اب دوبارہ تیزی سے بڑھ رہی ہے لیکن بھارت میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں کمی کی وجوہات کے بارے میں شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ کچھ محققین کہتے ہیں کہ یہ اعدادوشمار کچھ حد تک جانچ میں ممکنہ تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔ ریسرچرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت میں بڑی تصویر کو جاننے کے لیے انہیں مکمل اعدادوشمار تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ ماہرین عام طور پر اس بات پر بھی متفق ہیں کہ انفیکشنز کی بڑی تعداد نے باقی ملکوں کی طرح‘ بھارت میں بھی ان کا سراغ لگانے کی کوششوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ملک میں وبا کے حوالے سے حالات اب بھی کافی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔
اجتماعی سوچ میں بھی تبدیلی آئی ہے اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ بھارت نے حفاظتی اقدامات ترک یا کم کر دیے ہیں‘ موسم بہار میں شدید لاک ڈا ئون اور گرمیوں کے دوران معاشرتی اجتماعات پر پابندی کے بعد حکومت تیزی کے ساتھ اَن لاکنگ کی طرف آئی اور دوبارہ لاک ڈائون کی ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس وقت بھارت میں معاشرے کا مجموعی رویہ ہے ’’آئیں آگے بڑھیں‘‘۔ نقل و حرکت کے حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ بھارتی عوام خریداری کے علاقوں اور عوامی مقامات پر واپس آ چکے ہیں اور ایسے مقامات پر آنے والے بہت سے لوگ ماسک تک نہیں پہنے ہوئے ہوتے۔ ایسا لگتا ہے کہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ انفیکشن کے خطرے سے بے خوف ہو چکا ہے۔

نئی دہلی کے قریب مقیم ایک ماہر امراض قلب اور مینڈانتا ہسپتال چین کے سربراہ ڈاکٹر نریش تریھن نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا: لوگ کہہ رہے ہیں کیا مسئلہ ہے، ہمیں اس کے ساتھ رہنا سیکھنا ہے، خدا جانتا ہے کہ یہ کب تک چلتا رہے گا، بہت سی جگہوں پر لوگ ایسے جشن منا رہے ہیں جیسے اگلی صبح طلوع نہیں ہو گی لہٰذا اگر آپ اس طرح کے کام کرتے ہیں تو آپ کو تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہاں بہت سے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ کورونا کے کیسز کے دوبارہ بڑھ جانے سے پہلے یہ بس تھوڑے ہی دنوں کا کھیل ہے۔ امریکا، فرانس اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کا خیال ہے کہ وائرس کے حوالے سے بدترین دن ان کے پیچھے ہیں، نئی بلندیوں کو چھونے کے لیے۔ کسی بھی جگہ وبا کب پھوٹ پڑے‘ اس بارے میں کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا جا سکتا اور اگلے چند ہفتوں میں منظر پیچیدہ تر ہو سکتا ہے۔ ٹھنڈا موسم انفیکشن میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہندوئوں کی تعطیلات کا موسم شروع ہونے والا ہے‘ جب دیوالی کے موقع پر لاکھوں افراد رشتے داروں کو ملنے جاتے ہیں اور ان کے لیے تحفے خریدنے کے لیے اسٹوروں کا رخ کرتے ہیں۔

بھارتی شہروں میں ہوا کی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جیسے ہر موسم خزاں اور سردیوں میں ہوتا ہے، اور ڈاکٹروں کو خدشہ ہے کہ زہریلی ہوا کووڈ19 سے زیادہ افراد کے متاثر ہونے اور ان کی ہلاکتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ اگرچہ بھارت میں مجموعی سطح پر کورونا کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہے لیکن بھارت کے کچھ علاقوں میں یہ اب بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ مثال کے طور پر نئی دہلی اس وقت کیسز کی تعداد ریکارڈ بلندیوں کو عبور کررہی ہے۔ تامل ناڈو ریاست میں ٹیسٹنگ کٹس کی فراہمی میں معاون ڈاکٹر اور سرکاری ملازم پی اْماناتھ کا کہنا ہے کہ جو لوگ پہلے کورونا کا شکار نہیں ہوئے‘ بزرگ اور بچے‘ جو پہلی دو لہروں سے بچ گئے‘ اب بھی بیمار ہو سکتے ہیں۔واشنگٹن یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ برائے ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلیو ایشن نے تخمینہ لگایا ہے کہ بھارت میں کورونا کیسز کی تعداد ایک بار پھر بڑھ جائے گی اور سال کے آخر تک یہ تعداد روزانہ 10 لاکھ تک جا سکتی ہے، پھر بھی بہت سے ایسے کیسز رہ جائیں گے جن کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جا سکے گا۔ ان میں سے بہت سے افراد کا کبھی پتا نہیں چل سکا۔ یہ اندازہ اس بنیاد پر لگایا گیا ہے کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر ماسک پہنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔

پھر بھی‘ اس وقت کے لیے سرکاری تعداد تجویز کرتی ہے کہ کورونا وائرس پیچھے ہٹ رہا ہے۔ 16 ستمبر تک صورتحال یہ تھی کہ روزانہ تقریباً اٹھانوے ہزار کورونا کے نئے کیس سامنے آتے تھے، یہ اوسط گزشتہ ہفتے کم ہو کر چھیالیس ہزار کیسز تک آ گئی۔ وسط ستمبر تک روزانہ وائرس سے ہونے والی اموات کی تعداد 1200 تھی‘ جو اب کم ہو کر 500 کے قریب آ گئی ہے اور بھارت میں مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد فی کس کی شرح سے بہت کم ہے، دوسرے ممالک میں اس کی نسبت یہ شرح کافی زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 8.5 ملین یعنی پچاسی لاکھ ہے اور یہ برازیل میں کورونا کے مریضوں سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے‘ جہاں بھارت سے کہیں زیادہ مریض جاں بحق ہو چکے ہیں۔ حکومت بہار نے اپنے عوام کو چوکنا رہنے کی اپیل کی ہے۔ بھارتی وزیر صحت ہریش وردھن کا کہنا ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں؛ تاہم ابھی معاملات کو بہت خوش کن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خون کے نمونوں کے سروے سے واضح ہوا ہے کہ کچھ شہری علاقوں کے کم از کم 15 فیصد رہائشی پہلے ہی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت میں کل کتنے لوگ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں؟ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کا تقریباً ایک تہائی حصہ پہلے ہی وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔ سائنسدانوں نے یہ اندازہ بھارت میں ٹرانسمیشن کی شرح، متاثرہ افراد کی تعداد اور بازیافت کی تعداد کو ظاہر کرنے والے اعداد و شمار کے ذریعے لگایا ہے۔ اگرچہ دوسرے سائنس دانوں نے اس تحقیق پر شک ظاہر کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ وبا 200 ملین یا کم از کم 15 فیصد آبادی تک پہنچ چکی ہے۔ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت میں وبا پر قابو پانا کسی بھی حالت میں مشکل ہو گا کیونکہ اس کی زیادہ تر آبادی قریبی حلقوں میں رہتی ہے اور صحت کی دیکھ بھال کا نظام کافی خراب ہے۔ وسیع لاک ڈائون کے نفاذ سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔بھارت میں کورونا کے پھیلائو کی گنجائش موجود ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ گھر سے کام کرتے ہیں اور ایسا کرنا عیش و آرام کی بات ہے لیکن زیادہ تر اس کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ لاتعداد افراد کو اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ کمانے کی خاطر گھروں سے نکلنا اور ہر دن سڑکوں پر چکر لگانا پڑتے ہیں۔ بھارت میں کورونا کے حوالے سے صورتحال بہتر ہو رہی ہے لیکن اس کے ساتھ نئی لہر کا خوف بھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر