وجود

... loading ...

وجود
وجود

بارود کا ڈ ھیر

پیر 16 نومبر 2020 بارود کا ڈ ھیر

وہ حا فظ ِ قرآن تھا لیکن ایک کمپوڈر ٹائپ اتائی ڈاکٹر گوجرانوالہ کے کسی نواحی قصبہ میں لوگوںکا علاج معالجہ کرتا تھا انتہائی شریف النفس ،بے ضرر ،اپنے اڑوس پڑوس کا خیال رکھنے والا ایک روز اس کا کسی سے جھگڑا ہوگیا موقع پر موجود لوگوںنے معاملہ رفع دفع کروادیا لیکن مخالف انتہائی مکار تھا اس نے دل ہی دل میں اتائی ڈاکٹر کو مزا چکھانے کا فیصلہ کرلیا چند روز بعد مخالف نے سرگوشیوں کے انداز میں کانا پوسی شروع کردی کہ اتائی ڈاکٹر گستاخ ہے ،حالات سے بے خبر اتائی ڈاکٹر کے خلاف ماحول بنتا گیا پھر ایک روز صبح ایک مسجد سے اعلان ہوا کہ ایک اتائی ڈاکٹر نے نعوذ باللہ آخری الہامی کتاب کی بے حرمتی کی ہے ،شرپسندوں نے اتائی ڈاکٹر کو عیسائی ڈاکٹر سمجھ لیا پھر اس کے مکان پر چڑھ دوڑے دروازہ توڑ ڈالا اتائی ،ڈاکٹر کی بیوی نے بلوائیوں کو لاکھ سمجھایا اگرانہوںنے ایک نہ سنی وہ ہر چیز تہس نہس کرتے ہوئے اس کمرے تک جا پہنچے جہاں ڈاکٹر کرسی پر بیٹھا قرآن حکیم کی تلاوت کررہاتھا، شرپسند اتنے غیض و غضب میں تھے کہ انہوںنے اللہ کی کتاب کا بھی احترام نہیں کیااور ڈاکٹرکو لاتوں،مکوں گھونسوں اور ٹھڈوں سے مار مار کر ادھ مواء کردیا جب تک پولیس پہنچی ڈاکٹر کی ہڈیوںکا سرما بن گیا تھا، اذیت،خوف اور دردکی شدت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا اور آنکھیں بے نور ہوچکی تھیں بعد میں لوگوںکو حقیقت ِ حال کا پتہ چلا بہت دیرہوچکی تھی۔

اسی طرح احمدپورشرقیہ میں ایک مجذوب نوجوان کو قرآن مجیدکی بے حرمتی کے الزام میں پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی ٹھیک دوسال بعد اس جگہ ایک پٹرول سے بھرا ایک آئل ٹینکر الٹ گیا ،اس شہرکے باسی راوی ہیں کہ قدرت نے اس خون ناحق کا ایسا انتقام لیا کہ جہاں جہاں مجذوب نوجوان اپنی جان بچانے کی فطری خواہش لیے بھاگتا پھرتا تھاوہاں وہاں پٹرول کو مال مفت سمجھ کر جو 200 سے زائد لوگ گیلن،ڈرم بھررہے تھے زندہ جل کر خاکسترہو گئے ،ہمارے ارد گرد عبرت کی کئی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم میں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرناچاہتا، یہ کتنی خوفناک بات ہے کہ لاالہ اللہ کی بنیادپر معرض ِ وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں مذہبی جنونیت انتہا کو پہنچ گئی ہے اب اپنے مخالفین کو قتل کرنا کتنا آسان ہوگیا ہے ،اب ڈر لگنے لگا ہے کہ کسی دن آپ کا کوئی ملازم ،گارڈ یا مخالف آپ کو گستاخ قرار دے کر قتل کرڈالے یا پھرگستاخ یا کافر کہہ کر گولیاں مار دے اور یوں آپ کے سب گھر والے بھی یکایک رسک پہ آجائیں، پھر قاتل تھانے میں چائے پیتا پھرے اور مقتول کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس کے لواحقین شہادتیں اکٹھی کرتے پھریں اور ان کو اپنی جان کے لالے پڑجائیں بلاشبہ ایسے واقعات انتہائی دردناک ہیں ،اصل واقعہ مگر اس کے بعد کا ہے چنیوٹ کا جنونی قاتلانہ حملہ کرنے والا ا ہیرو بن چکا تھا، تھانے میں اسے چائے پیش کی گئی، لوگوںنے آئودیکھا نہ تائو تھانے کی چھت پر چڑھ کر گستاخ ِ رسول کی سزا لوگ سر تن سے جدا کے نعرے لگانے شروع کردئیے ،بلاشبہ بنی برحق ﷺ کی شان میں گستاخی کائنات کا سب سے بڑا جرم ہے ایسا کرنے والا کسی رعائت کا مستحق نہیں ۔

حکومت یہ دیکھ رہی ہے،علماء بھی خاموش تماشائی ہیں، کسی میں جرات نہیں کہ قاتلوں کے اس مجنونہ رقص کو گستاخانہ،خلافِ شریعت اور آئین کی کھلی خلاف ورزی کہہ سکے۔ یہ علما ء آخر کیوں چپ ہیں؟ کیا کسی کو صفائی کا موقع دیئے بغیر اسے گستاخ ِ رسول قرار دے کر قتل کرنا جائز ہے ؟ کیا وہ یہ معاملہ برحق سمجھتے ہیں،یا اس وقت بولنا خلاف مفاد سمجھتے ہیں؟ اس واقعہ میں قاتل و مقتول دونوں ایک ہی مسلک کے ہیں شنیدتویہ ہے کہ گارڈ نے اپنے پیر کو ماسک کے بغیربینک میں داخل کیا،. پیر صاحب کے جانے کے بعد منیجر نے کہا کہ ماسک کا اصول ہر کسٹمر کے لیے ہے ،جس پر گارڈ نے کہا کہ میرا پیر مشکل کشا ء ہے اس کو ماسک کی ضرورت نہیں ،منیجر نے کہا کہ مشکل کشا ء صرف خدا کی ذات ہے، اس گستاخی پر گارڈ نے منیجر کو گولی مار دی ،کچھ لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ بس ذرا سا اختلاف زاویہ ٔ سوچ کا فرق تھا ایسا مان بھی لیا جائے یہ تو اور بھی خطرناک بات ہے ،غوروفکریہ بات یہ ہے کہ جو نبی ﷺرحمت ِ دوجہاں ہیںانہی کا نام لے کر دوسروںکو قتل کرنا کون سی دانائی ہے، اناللہ واناالیہ راجعون ایک ناجائز قتل گویا کہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔۔ اہل ِعلم سے شکوہ کریں تو ان کا اپنا نقطہ ٔ نظر ہے ان کا مؤقف ہے گذشتہ800سال سے مسلمان علمی انحطاط کا شکارہیں تحقیق سے لاتعلقی نے مسائل کا انبار اکٹھاکردیاہے ،آج تمام ایجادات ان لوگوںکی ہیں جنہیں ہم کافر کہتے ہیں غیرمسلم ممالک میں تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی تعداد لاکھوں کروڑوںمیں ہے جبکہ 53مسلم ممالک اور ریاستوںکی حالت سب کے سامنے ہیں جہاں دنیاکی TOP HUNDRED یونیوسٹیوں میں ایک بھی کسی مسلم ممالک میں قائم نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ آج منبر اور محراب پرتعلیم یافتہ علماء کی اکثریت نہیںہے ،اس کی بنیادی وجہ دور وراز اور پسماندہ علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے جس کے باعث ہمارے مدارس میں طلبہ کوجدید علوم سے روشناس نہیں ہو سکے اس پر مزید ظلم یہ ہوا کہ جاہل پیر طریقت بن بیٹھے ہیں ا ور دن بہ دن یہ صورت ِ حال سنگین سے سنگین ہوتی چلی جارہی ہے ۔کسی کو دین اسلام کی مبادیات کا علم نہیں۔۔۔فقہ’جہاد’اجتہاد’ شرع’ تقوی ‘ فتوی۔۔۔اس علم سے مطلقاً واقفیت نہیں۔

آج اگر معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ جاہل ریاست کو اپنے جْہل کی نوک پر رکھ چکے ہیں تو اس میں اچھلنے، حیرت اور اچھنبے کی کیا بات ہے؟؟؟ جہاں جاہل بیک وقت وکیل اورجج بن کر فیصلے کرنے لگیں اورلوگ بغیر سوچے سمجھے عقل کے فیصلے جذبات سے کرتے ہوئے سڑکوں پر قاتلوںکے حق میں نعرے لگاتے پھریں وہاں بہتر کیا ہوسکتاہے۔ کیا عشق ِ رسالت مآب ﷺکے یہی تقاضے ہیں ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچناہوگا ان حالات میں ریاست کو ا یسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک بیانیہ تشکیل دینا چاہیے کہ من گھڑت واقعات اور گستاخی کی حدود کا تعین اورفیصلہ کون کرے گا؟ یہ ہمارے ہاں اکثریت کا مائنڈ سیٹ بھیڑ چال ہے اس لیے وزارت ِ مذہبی امور مختلف مکاتب ِ فکر کے علمائ،مذہبی ا سکالرز اور ایڈوکیٹ جنرل پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو ایسے معاملات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ برے سے برا مسلمان بھی رسالت مآب ﷺ کی شان میں گستاخی کا تصور نہیں کرسکتا یقین جانئے میں نے ٹن شرابیوں کو نبی پاک ﷺکا اسم ِگرامی سن کر مؤدب ہوکر سنبھلتے دیکھا ہے ۔خوشاب کا واقعہ میں نماز ِجنازہ کے دوران مقتول بینک منیجرکے حق میں ہزاروں لوگوںکی گواہی نے ہم سب کو سوچنے پر مجبورکردیاہے ۔کیا ابھی بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ کسی کوبھی قتل کر کے اس کو گستاخ رسول کہہ کر ہیرو بن جانا کس قدر آسان ہے جس طرح ریاست اس پہ ستو پی کر سوتی رہی اس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے ملکی جغرافیائی صورت ِ حال،نازک حالات، دہشت گردی ،فرقہ واریت،صوبائی عصبیت اور لسانی معاملات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو پاکستان پہلے ہی بارود کے ڈھیرپر کھڑا ہے ہمارے چاروں جانب دشمن موقع کی تلاش میں ہے خدارا حالات کی نزاکت کااحساس کریں اسلام کے نام پر بننے والی پہلی مملکت ِ خداداد میں جاہلوںکو سپورٹ کرنا بندکردیں ورنہ اس بارود کے ڈھیرکے لیے ماچس کی ایک تیلی ہی کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر