وجود

... loading ...

وجود
وجود

وائٹ ہائوس کامکین صرف ترجمان ہوتا ہے

اتوار 15 نومبر 2020 وائٹ ہائوس کامکین صرف ترجمان ہوتا ہے

امریکی انتخابات سے پہلے اور اس کے بعدہی دنیا بھر میں ری پبلکن ٹرمپ اور جو ڈیموکریٹک جو بائیڈن کے حوالے سے متضاد آراء سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے تجزیہ نگاروں اور صحافیوں نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان تجزیوں پر یقین کر لیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا جیسے امریکی صدر کے بدلنے سے پالیسیاں بھی بدلیں گی اور اس کے ساتھ ہی دنیا کے حالات بھی بدل جائیں گے۔ جو امریکا اور اس پر حکمران اصل خفیہ قوتیں اور ڈیپ اسٹیٹ واسٹیبلشمنٹ کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ خیال خاصا مضحکہ خیزہے۔

جیساکہ ہم جانتے ہیں ہیں امریکا میں دو جماعتیں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ڈیموکریٹک جماعت کو مدر پارٹی کہا جاتا تھا یعنی جس طرح ایک ماں گھر کے معاملات کو ٹھیک کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے اسی طرح اس جماعت سے تعلق رکھنے والا امریکی صدر زیادہ تر توجہ داخلی معاملات جن میں ٹیکسوں کا نظام، داخلی اقتصادی و معاشی پالیسیاں اور عام امریکی کے معیار زندگی پر زیادہ توجہ دیتا تھا ۔ اس کے بعد ری پبلکن پارٹی ہے جسے فادر پارٹی کہا جاتا تھا یعنی جس طرح ایک باپ سارا دن باہر رہ کر کاروبار زندگی چلاتا ہے اسی طرح ایک ری پبلکن صدر اس وقت آتا جس وقت امریکا کو باہر کی دنیا میں کشور کشائی کرناہوتی، جنگوں کے ذریعے ملکوں اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا ہوتااور ان جنگوں کے نتیجے میں جو لوٹ مار ہوتی اسے امریکا کے معاشی نظام کا حصہ بنانا مقصود ہوتا تھا۔ اسی طرح جس وقت باہر پھنسی ہوئی امریکی فوج کو واپس بلانا ہوتا اور امریکی جنگوں کے نتیجے میں جب امریکا کو باہر کی دنیا میں عسکری مار پڑتی تو ایک مرتبہ پھر ڈیموکریٹک صدر کو وائٹ ہائوس بھیج دیا جاتا۔اس کی مثال ہم اس طرح لے سکتے ہیں کہ جس وقت ویت نام کی جنگ عروج پر پہنچ گئی اور امریکا کو تمام دنیا کے سامنے ویت نام اور اس سے پہلے کوریا کی جنگ میں مار پڑنا شروع ہوئی تو ڈیموکریٹک جان ایف کینیڈی کو وائٹ ہائوس لایا گیا تھا جس نے امریکی فوج کی ویت نام سے واپسی پر غور شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق سوویت یونین کی جانب سے امریکی بغل یعنی کیوبا میں جو میزائل نصب کیے گئے تھے اس کے خلاف کینیڈی نے سوویت لیڈر نکیٹا خروشیف کو جنگ کی دھمکی دے دی تھی جس کے بعد یہ مسئلہ حل ہوا ان تمام کاموں کے لیے کینیڈی جیسی مسحور کن شخصیت درکار تھی جسے عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہو ۔ لیکن اس حوالے سے کینیڈی نے جو کام کیا اور جو اس کی موت کا سبب بنا وہ یہ تھا کہ اس نے امریکا پر حکمران حقیقی قوتوں یعنی عالمی دجالی صہیونیت کے مالی معاملات میں ٹانگ اڑا دی اور کانگریس سے ایک ڈالر بل کی چپائی کے اختیارات امریکی محکمہ خزانہ کو منتقل کر دیئے اس سے پہلے یہ حق فیڈرل ریزرو بینک جو یہودیوں کے کنٹرول میں ہے ان کے پاس تھا نتیجہ ڈلاس کی سڑک امریکی صدر کینیڈی کے خون سے رنگ دی گئی اس وقت سے لیکر آج تک یہ بل صرف منظور ہی ہے لیکن بعد کے کسی امریکی صدر کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس پر عملدآرمد کرا سکے اسے امریکی تاریخ میں کینیڈی ڈالر کہتے ہیں۔

وائٹ کا مکین امریکی صہیونی دجالی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کس قدر اختیارات رکھتا ہے اس کی دوسری مثال ہم ڈیموکریٹک جمی کارٹر کے احوال میں دیکھتے ہیں۔ سابق سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسانے کا مکمل اہتمام ہوچکا تھا، کریملن کی مقتدر راہ داریوں میں عالمی دجالی صہیونیت کے آلہ کار کمیونزم کی آخری دیوار گرانے کے لیے مکمل نقب لگاکر سوویت یونین کے حکمرانوں کو افغانستان پر فوج کشی کے لیے تیار کرچکے تھے۔ سوویت یونین کے کے اردگرد کے اہم خطوں میں ’’اسلامی انقلابات‘‘ بھی آچکے تھے پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اور ایران میں امام خمینی فرانس سے ایران پہنچ چکے تھے۔ دوسری جانب امریکانے اب باہر نکل کر سوویت یونین کے خلاف صف آرا ہونا تھاکیونکہ اسٹیج پوری طرح تیار تھالیکن اس میں بڑی رکاوٹ ڈیموکریٹک جمی کارٹر تھا دوسری جانب ایران میں انقلابیوں نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ جما لیا تھا یوں امریکہ اور ایران کے درمیان ایک سرد جنگ کی کیفیت پیدا کردی گئی ۔ صدر جمی کارٹر نے کمانڈو ایکشن کے ذریعے امریکی یرغمالیوں کو آزاد کرانا چاہا لیکن امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار سی آئی اے نے ایرانیوں کو پہلے ہی مخبری کی ہوئی تھی نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یاد رہے اس وقت سی آئے کا سربراہ بڑا بش تھا جبکہ اس کا نائب ولیم کیسی تھا ان دونوں نے مل کر جمی کارٹر کے مشن کو ناکامی ست دوچار کراکر آنے والے الیکشن میں ری پبلکن رونالڈ ریگن کی راہ ہموار کردی تھی جبکہ ریگن کا نائب صدر یہی جارج بش بنایا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ جیسے ہی صدر ریگن نے صدارت کا حلف اٹھایا ٹھیک تیس منٹ بعد ایران نے امریکی یرغمالیوں کو آزاد کرنے کا اعلان کردیاتھا۔اس کے بعد بیس برس کے لیے خطے میں بڑا کھیل شروع ہوا جس کے نتیجے میں سوویت یونین تحلیل ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر