وجود

... loading ...

وجود
وجود

جی بی کے انتخابی معرکے کا جائزہ

اتوار 15 نومبر 2020 جی بی کے انتخابی معرکے کا جائزہ

گلگت بلتستان میں پندرہ نومبر کو ہونے والے انتخابی معرکے کی بہار عروج پر ہے تحریک انصاف ،پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن سمیت مزہبی جماعتیںجلسوں میں مصروف ہیں مقامی سیاسی جماعتوں کا رنگ پھیکا ہی سہی لیکن نظر آرہا ہے اپوزیشن میں ہونے کے باجود بلاول بھٹو اور مریم نواز کے جلسوں میں حاضری کسی طرح مایوس کن نہیں وجہ دونوں جماعتوں کا ایک ایک بارگلگت بلتستان کا حکمران رہناہے اسی لیے تمام جماعتوں سے زیادہ انھی جماعتوں کی تنظیمیں فعال ہیں جبکہ حکمران جماعت کو وسائل کی فراوانی کی بنا پر بڑے جلسے کرنے میں کوئی دقت نہیں بظاہر کانٹے کا مقابلہ دکھائی دیتا ہے 33 رکنی علاقائی اسمبلی میں سے چوبیس نمائندے براہ راست ووٹ لیکر منتخب ہوتے ہیں خواتین کی نمائندگی کے لیے چھ جبکہ ٹیکنوکریٹس کے لیے تین نشستیں مختص ہیں موجودہ انتخابات میں سات لاکھ سے زائد رائے دہندگان حقِ رائے دہی کے زریعے اپنے نمائندے منتخب کریں گے لیکن کِس جماعت کا پلڑا بھاری ہے ؟ اور مستقبل کی حکمران جماعت کون ہوگی کا جواب وثوق سے دینا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔

گلگت بلتستان دشوار گزارعلاقہ ہے ٹوٹے پھوٹے راستوں کی وجہ سے آمدورفت سہل نہیں سیاحت ،پھل ، خشک میوہ جات ،کمبل اورقالین آمدن کے بڑے ذرائع ہیں پتھریلی زمین اور سخت موسمی حالات کی وجہ سے کھیتی باڑی محدود ہے گوشت اور دودھ کے لیے گائیں اور بھیڑ بکریوں پر انحصار ہے لیکن یہ سمجھناکہ لوگوں کی زیادہ تعداد ناخواندہ ہو گی غلط ہے یہاں خواندہ افراد کی تعداد بہت ہی حیران کُن ہے محتاط اندازے کے مطابق بھی خواندگی کی شرح نوے فیصد سے زائد ہے اگر مقامی شرح خواندگی کا پاکستان کے دیگر صوبوں سے موزانہ کیا جائے تو گلگت بلتستان سب سے آگے ہے جس کی ایک وجہ یہاں سیاحت کے مواقع ہیں اور ہر فرد کا کسی نہ کسی حوالے سے سیاحوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے شایداسی بنا پر گزشتہ دودہائیوں میںتعلیمی پس ماندگی میں تیزی سے کمی آئی ہے حالانکہ اعلٰی تعلیم یافتہ افراد کے لیے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع زیادہ وسیع نہیں بلکہ اسلام آباد ،لاہور ،کراچی جیسے بڑے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے بڑے شہروں میں جانے اور ہوٹلوں میں کام کرنے کی وجہ سے ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ مقامی لوگوں کو سیاحوں کو علاقے کی طرف راغب کرنے کے مواقع ملتے ہیں یہاں کے لوگ پاکستان کو بہت چاہتے ہیں پاک فوج کا بے پناہ احترام ہے کارگل جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے پر لالک جان شہیدکو نشان حیدر عطا کیاگیا ۔

مقامی حکومت کے آرڈر 2009 کے تحت یہاں وزیراعلٰی اور گورنر کے دفاتر بنے جس کے تحت قمرزمان کائرہ پہلے گورنر مقرر ہوئے اور عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے کامیاب ہوکرپہلی بارحکومت بنائی جس نے مدت پوری کی اور کئی ایک اچھے کام کیے لیکن دوسری بار انتخاب نہ جیت سکی جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی اور معدنیات کے حوالے سے بے ضابطگیوں کے الزامات کی بنا پر قیادت کو اچھے منصوبوں کے باوجودنیک نامی نہ ملی جون 2015 میں دوسری بارمقامی نمائندوں کا انتخاب ہواتو مسلم لیگ ن نے سابقہ قیادت پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے انتخابی معرکہ باآسانی جیت لیا سی پیک کی گزرگاہ ہونے کی بنا پر ترقی و خوشحالی ہوئی اور روزگار کے مواقع پید اہوئے مگر بے شمار ترقیاتی کاموں میں شفافیت کا فقدان رہا ۔
پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ یہاں کے لوگ فوج سے عقیدت رکھتے ہیں اور ملک کے تمام حصوں سے زیادہ شرح خواندگی ہے اِس لیے سیاسی شعوربھی بہت بہتر ہے ووٹ پر مُہر لگاتے ہوئے وفاق میں حکمران جماعت کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسی جماعتوں کو کامیاب کرانے سے گریز کرتے ہیں جواپوزیشن میں رہیں یہی سوچ آزاد کشمیر میں پائی جاتی ہے اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ حکمران جماعت کا گلگت بلتستان کی ترقی میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے ابھی سارا زور وعدوں اور بلاول سمیت مریم نوازکی کردارکشی پر ہے لیکن تحریک انصاف وفاق میں حکمران ہے ترقیاتی کاموں کے لیے وسائل اسی کے پاس ہیں اِس لیے کارکردگی نہ ہونے کے باجود اگرنصف نشستیں لے جاتی ہے تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہوگی لیکن یہ تصور کر لینا کہ یہ کسی کی مقبولیت یا بہتر انتخابی مہم کا نتیجہ ہے درست نہ ہوگا مقامی لوگ اپنی فوج پر تنقید برداشت نہیں کرتے اور آجکل حکمران جماعت جس طرح عسکری قیادت کے دفاع میں مصروف ہے اِس سے تحریک انصاف کو ووٹروں کو مائل کرنے میں آسانی ہے۔

گلگت بلتستان کا نتظام 2018کے آرڈر کے تحت چلایا جارہا ہے لیکن یہ علاقہ ہنوز ملکی پارلیمان میں نمائندگی سے محروم ہے بلاول بھٹو نے سب سے پہلے صوبہ بنانے کی بات کرکے توجہ حاصل کی اور پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ 1947 کی جنگ آزادی کے دوران ڈوگراسپاہ کو شکست دینے کے بعد مقامی عمائدین نے متفقہ طورپرنوزائیدہ حکومتِ پاکستان کو غیر مشروط طورپر الحاق کی پیشکش کی لیکن بوجہ ایسا نہ ہو سکا پہلی بار پیپلز پارٹی نے علاقے کو شناخت دی لیکن ملک کے ایوانوں میں نمائندگی کا خواب تشنہ تعبیرہی رہا پھر بھی کافی لوگ پی پی کو سیاسی حوالے سے بہتر سمجھتے ہیں اور بلاول بھٹو کی طرف سے صوبے کا درجہ دینے کی بات کو اہمیت ملی ہے اسی طرح مسلم لیگ ن کے سی پیک کا بھی چرچا ہے جس کا عکس مریم نواز کے جلسوں میں نظر آتا ہے لیکن مقامی سوچ کے برعکس فوجی قیادت پر الزامات بے وقت کی راگنی ہے اگر گلگت بلتستان کے مسائل پر بات کی جاتی تو زیادہ بہتر تھا مگر نواز شریف کی طرح شاید وہ بھی مصلحت کی راہوں کو خیر باد کہہ چکی ہیں اسی وجہ سے عین موقع پر کچھ نامزد امیدواروں کی طرف سے جماعت کو خداحافظ کہناپڑا یہ روش سیاسی طور پر فائدہ مند نہیں بلکہ فائدہ حکمران جماعت اُٹھا سکتی ہے راقم نجومی یا ستارہ شناس نہیں لیکن حالات کے تناظر میں نشستوں کے حوالے سے تحریکِ انصاف پہلے،مسلم لیگ ن دوسرے جبکہ پیپلز پارٹی کے تیسرے نمبر پر آنے کا امکان ہے دو یا تین آزاد اور چند ایک دیگر سیاسی ،مذہبی یا مقامی جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیںاور ایک آخری بات اگر عمران خان جیسا شخص پاکستان کا وزیر اعظم بنا سکتا ہے تو گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے حوالے سے قیافے اور اندازے غلط بھی ہو سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر