وجود

... loading ...

وجود
وجود

نااُمید کراچی کی آخری ’’سیاسی اُمید ‘‘

جمعرات 12 نومبر 2020 نااُمید کراچی کی آخری ’’سیاسی اُمید ‘‘

پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال کی جانب سے گزشتہ دنوں تن تنہا ،کسی سیاسی اتحاداور حکومتی امداد کے بغیر کراچی میں ایک بڑا مجمع عام اکھٹا کرلینا، کراچی کی حالیہ سیاسی تاریخ میں ہرگز ایسا معمولی واقعہ نہیں ہے ،جسے آسانی سے نظر انداز کردیاجائے ۔ اس جلسے کی اہمیت اُس وقت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ جب چند ہفتے قبل ہی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا کراچی میں ہونے والا جلسہ اہلیانِ کراچی کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں بُری طرح سے ناکام رہا ہو۔ یعنی اپوزیشن کی گیارہ سیاسی جماعتوں نے باہم مل کر سندھ حکومت کی انتظامی آشیر باد سے ملک بھر سے جتنے افراد پی ڈی ایم کے جلسے میں جمع کر سکے تھے کم و بیش اتنی ہی تعداد میں عوام ،پاک سرزمین پارٹی کے حالیہ جلسہ میں بھی شریک تھی ۔ لیکن مصطفی کمال کا جلسہ اس لیے پی ڈی ایم کے جلسے پر واضح سیاسی برتری اور فوقیت رکھتا ہے کہ اس جلسے میں اہلیانِ کراچی بڑی تعداد میں شریک تھے جبکہ پی ڈی ایم کے جلسہ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے کسی عام آدمی کی شرکت تو بہت دُور کی بات ہے ،بدقسمتی سے اُن کے سیاسی اسٹیج پر بھی کراچی کی سیاسی نمائندگی دستیاب نہیں تھی۔
علاوہ ازیں پی ڈی ایم کے جلسہ سے چند ہفتے قبل جماعت اسلامی بھی حقوق کراچی مارچ کے نام سے اہلیانِ کراچی کا ایک فقید المثال مجمع اکھٹا کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ جس وقت اپوزیشن الیون مزار قائد کی ہونے والی مبینہ توہین پر سیاسی طوفان بدتمیزی برپا کرنے کی’’سیاسی کوششوں ‘‘میں مصروف تھی،عین اُسی وقت بھی جماعت اسلامی کراچی کے تحت حقو قِ کراچی ریفرنڈم جاری تھا۔ جس میں تقریباً 70 لاکھ سے زائد لوگوں نے بیلٹ پیپرز کے ذریعے اور 8 لاکھ افراد نے آن لائن ووٹ ڈال کر کراچی میں مردم شماری ازسرِ نو کروانے ،سندھ سے کوٹہ سسٹم کے خاتمہ اور کراچی کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمت دینے جیسے اہم ترین مطالبات کے حق میں اپنی رائے استعمال کی تھی۔ مگر افسوس الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیاپر کیپٹن ریٹائر ڈ صفدر اور مریم نواز کی جانب سے مچائی جانے والی ہاہا کار کے شور میں کراچی کے مسائل اور حقوق کے لیے اُٹھائی جانے والی آواز دب کر رہ گئی ۔
اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو پاک سرزمین پارٹی کے تازہ ترین جلسے اور جماعت اسلامی کی جانب سے منعقد کیے گئے حقوق کراچی مارچ اور حقوق کراچی ریفرنڈم کو کراچی کی عوام کی جانب سے زبردست سیاسی پذیرائی بخشنا۔ جہاں اِن دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت پر بھرپور سیاسی اعتماد کا اظہار ہے ،وہیں یہ نئی سیاسی صورت حال سندھ کی آنے والے سیاسی منظرنامے میں سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے ایک بہت بڑے سیاسی خطرے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلزپارٹی نے جس طرح سے شہر کراچی کا انتظامی و سیاسی استحصال کرنے کی ہرممکن کوشش کی ہے ۔ہر دو جماعتوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے اس ظالمانہ سیاسی و انتظامی رویے ہی نے کراچی کے باسیوں کو پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی کراچی کی جانب اُمید بھری نظروں سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے ۔

لیکن یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ان دونوں سیاسی جماعتوں میں سے کوئی ایک جماعت یا پھر دونوں جماعتیں باہم مل کر شہر کراچی کو درپیش سیاسی و انتظامی مسائل کا کوئی مداوا یا شافی علاج فراہم کربھی سکتی ہیں یا نہیں ؟ ۔ہماری ناقص رائے میں اس کا سادہ سا جواب ہاں ہی ہے اور ہوسکتاہے ہمارے اس جواب سے بہت لوگ شدید اختلاف بھی کریں ۔لیکن کراچی کی اَب تک کی نتظامی و سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اس شہر میں سیاسی رواداری ،انتظامی مساوات ،سماجی ترقی اور بہتری کے جو دو سنہرے زمانے گزرے ہیں ،اُن میں سے ایک دور جماعت اسلامی کے رہنما نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ مرحوم کا دورِ نظامت ہے جبکہ دوسرے زمانہ جسے آج بھی کراچی کے لوگ شدت سے یاد کرتے ہیں ،وہ ،وہ وقت ہے جب مصطفی کمال کراچی کے ناظم ہوا کرتے تھے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اور ایم کیوایم کے حال میں سبکدوش ہونے والے میئر وسیم اختر کی انتظامی و سیاسی کارکردگی سے مایوس ہونے والے اہلیانِ کراچی کی آخری اُمید اَب مصطفی کمال اور جماعت اسلامی کراچی کے ساتھ بندھتی جارہی ہے۔

ایسے میں اگر پاک سرزمین پارٹی اور جماعت اسلامی ،شہر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ایک وسیع البنیاد سیاسی ایجنڈے پر متفق ہوکر سیاسی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو پھر غالب امکان یہ ہی ہے کہ شہر کراچی بھی اپنا سارا سیاسی وزن ان دونوں جماعتوں کے سیاسی پلڑے میں با آسانی ڈال دے گا ۔ لیکن اس ہدف کو قابل حصول بنانے کے لیے دونوں جماعتوں کو جلد ازجلد کچھ اہم ترین فیصلے بھی کرنے ہوں گے۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کو سینیٹر سراج الحق کی جگہ پر حافظ نعیم الرحمن جیسے کسی نوجوان ،اولعزم اور معاملہ فہم رہنما کو بطور قا ئد متعارف کروانا ہوگا۔ حالانکہ جماعت اسلامی کی امارت ہمیشہ ہی سے بزرگ اور تجربہ کار رہنماؤں کا بنیادی حق سمجھی جاتی رہی ہے لیکن پاکستانی میں سیاست میں بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز جیسی نوجوان قیادت کے درمیان سینیٹر سراج الحق کے بجائے حافظ نعیم الرحمن اس لیے زیادہ مناسب رہیں گے کیونکہ آج کل نئے سیاسی قلعے تسخیر کرنے کے لیے جس قسم کی عصری خوبیاں اور تقاضے درکار ہیں ،اُن کا بندوبست کرنا شاید سینیٹر سراج الحق کے لیئے اتنا آسان و سہل نہ ہوجتنا حافظ نعیم الرحمن جیسے نوجوان سیاسی رہنما کے لیے ہوسکتاہے ۔

جبکہ گزشتہ چند برسوں میں کراچی کی مشکل ترین اور پیچیدہ سیاست میں جس طرح سے حافظ نعیم الرحمن نے اپنی سیاسی و انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ،اُس سے صحیح معنوں میں مزید مستفید ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی فیصلہ سازی کے لیے کلیدی اختیارات فراہم کردیئے جائیں ۔ دوسری جانب مصطفی کمال کو بھی اس حقیقت کو جلد ازجلد تسلیم کرنا ہوگا کہ شہر کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی انتظامی طاقت اور ایم کیوایم کی سیاسی قوت کو شکست دینے کے لیے اُسے کسی ہم خیال سیاسی جماعت سے سیاسی اتحاد ضرور بنانا ہوگا اور اس کے لیے سرِ دست جماعت اسلامی کراچی سے بہتر کوئی دوسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب گیارہ سیاسی جماعتیں کرپشن اور اپنی خاندانی سیاست کے تحفظ کے لیے پی ڈیم ایم اتحاد کی سیاسی چھتر چھایہ تلے جمع ہوسکتی ہیں تو پاک سرزمین پارٹی ، جماعت اسلامی اور دیگر ہم خیال سیاسی جماعتوں کے مابین کراچی کے حقوق کے لیے ایک وسیع البنیاد سیاسی و انتخابی اتحاد کیوں نہیں بن سکتا؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر