وجود

... loading ...

وجود
وجود

الوداع ڈونلڈ ٹرمپ

بدھ 11 نومبر 2020 الوداع ڈونلڈ ٹرمپ

(مہما ن کالم)
۔۔۔۔۔۔۔۔
میشل گولڈبرگ

اس سے پہلے کہ ڈیمو کریٹس سینیٹ میں اپنی ناکامی اور ایوان میں اپنے کم امیدواروں کی کامیابی کا تجزیہ شروع کریں، اس سے پہلے کہ پارٹی کے اندر مرکز پسند اور ترقی پسند گروپوں میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو جائے‘ فی الحال جو کچھ ہمارے سامنے موجود ہے‘ ہمیں اس کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہئے۔ وہ یہ کہ چار مشکل ترین برسوں کے بعد انجام کار ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سچ ہے کہ ڈانواں ڈول ریاستوں میں الیکشن کا فیصلہ آخری لمحات میں ہوا، اور یہ بھی سچ ہے کہ سات کروڑ سے زائد امریکی شہریوں نے چار سال ٹرمپ کو آزمانے کے باوجود انہیں مزید چا رسال دینے کے حق میں ووٹ دیا جو ہمارے ملک کے مستقبل کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔ یہ اس بات کی یاد دہانی بھی ہے کہ یہ کتنی بدترین صورت حال ہوتی۔ ہم نے پولنگ ڈیٹا کی مدد سے جتنے بھی اندازے لگائے تھے‘ ٹرمپ اس سے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے حامیوں کو گھروں سے نکالنے میں کامیاب رہے۔ ٹرمپ پینسلوینیا میں ہار گئے‘ مگر انہیں یہاں سے پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 33لاکھ ووٹ زیادہ ملے ہیں۔ جو بائیڈن کو ٹیکساس سے 2016ء کے ا لیکشن کے مقابلے میں ٹرمپ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ اس تبدیلی کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ دراصل ایک سرخ لہر آئی ہوئی تھی جو ٹرمپ کو وکٹری ا سٹینڈ تک لے جانے کے لیے کافی نہیں تھی۔ یہ سرخ ٹرن آئوٹ کئی ریاستوں میں ریپبلکن پارٹی کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا جہاں اس نے دونوں طرح کے فائدے اٹھائے، ان لوگوں سے بھی جوٹرمپ سے محبت کرتے تھے مگر وہ ماضی میں ریپبلکن پارٹی کے مستقل ووٹر ز نہیں رہے تھے۔ ریپبلکن سینیٹرز نے ٹیکساس اور مین کی ریاستوں میں ٹرمپ کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔ اور ڈیوڈ پرڈو کے کیس میں تو جارجیا میں ان کی تھوڑی بہت برتری بھی نظر آئی۔

سینیٹ میں ریپبلکن اکثریت کوئی بہت بڑی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ ابھی الاسکا اور نارتھ کیرولائنا میں ریس جاری ہے اور جارجیا میں بھی دو مرتبہ رن آف الیکشن ہونے کی توقع ہے۔ جو بائیڈن کی پہلی ٹرم میں تو سنگین مضمرات نظر آتے ہیں۔ جمہوریت پسند اصلاحات جن سے مستقبل میں اقلیتی گروپ کی حکمرانی کی راہیں مسدو دکی جا سکیں‘ فی الحال پس منظر میں جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ بائیں بازو کی طرف کافی مایوسی پھیلی ہوئی ہے مگر محض اس بنا پر ہمیں صدر ٹرمپ کے خطرناک دورِ صدارت کے خاتمے جیسے بڑے کارنامے کی اہمیت کو کم نہیں کرنا چاہئے۔ بہت کم امریکی صدر پہلی ٹرم کے بعد شکست کھاتے ہیں۔ ایک صدی میں شاید یہ پانچویں مرتبہ ہوا ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ایک سیاہ فام خاتون پہلی مرتبہ امریکاکی نائب صدر بنی ہے۔ الیکٹورل کالج کی وجہ سے فیصلہ کن ریاستیں اس الیکشن میں دائیں بازو کے ساتھ تھیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنے حریف کے مقابلے میں تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے یوکرائن کی حکومت پر جو بائیڈن کی سیاسی ساکھ خراب کرنے کے لیے ایک مذموم مہم چلانے کے لیے دبائو ڈالا اور کانگرس میں اپنے اتحادیوں کو جو بائیدن کے خلاف تحقیقات شروع کرانے کے لیے اکسایا۔ انہوں نے دوبارہ صدر بننے کے لیے قومی وسائل کا استعمال کیا اور وائٹ ہائوس میں ریپبلکن نیشنل کنونشن کے انعقاد کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے ایک اور عجیب و غریب حرکت یہ کی کہ Stimulus Checks پر اپنا نام لکھ دیا گویا کہ یہ رقم ان کی جیب سے آئی ہو۔ اپنے ایک ذاتی خدمت گار کو پوسٹل سروس کے اعلیٰ ترین منصب پر بٹھا دیا جس نے کورونا وائرس کے دوران میل بیلٹس کی فراہمی کے عمل کو سست رفتار کر دیا کیونکہ ڈیمو کریٹس کے ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ان میل بیلٹس پر ہی انحصار کر رہی تھی۔ ٹرمپ نے عدالتوں میں ایسے ججز کا تقرر کیا جن کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ تھوڑے مارجن سے ہاری ہوئی ریاستوں کے بارے میں ان کی مرضی کے احکامات جاری کریں گے۔

اس سال جمہوریت کی نگرانی کرنے والے ایک عالمی پروجیکٹ V-Dem نے لکھا ہے ’’مغربی یورپ اور شمالی امریکا میں امریکا واحد ملک ہے جو اس وقت مطلق العنانیت کا سامنا کر رہا ہے‘‘۔ ا سی طرح واشنگٹن پوسٹ کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ جن ممالک نے بھی اس جمہوری راستے کا انتخاب کیا تھا ہر پانچ میں سے ایک ملک ہی درست انداز میں اس راہ پر چل سکا‘ باقی سب مطلق العنانیت کا شکار ہو گئے۔ اگر ٹرمپ کو ایک اور ٹرم مل جاتی تو امریکا بھی ہنگری، پولینڈ اور برازیل جیسی قانون شکن ریاست بن جاتا۔ ان تما م سنگین اقدامات کو درست ثابت کرنے کے لیے غیرمعمولی اتحاد کی ضرورت ہے جو انجیلا ڈیوس سے لے کر بل کرسٹل تک وسیع ہونا چاہئے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جو لوگ برنی سینڈرز کی شکست سے دل برداشتہ ہو گئے تھے وہ جو بائیڈن کے لیے دوبارہ متحرک ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے کچھ ریپبلکن ارکان کو بھی چاہئے کہ پارٹی وفاداری سے بالاتر ہو کر ملکی مفاد کے لیے تعاون کو ترجیح دیں۔ ایگزٹ پولز سے تو پتا چل گیا تھا کہ ٹرمپ نے سیاہ فام اور لاطینی ووٹرز خاص طور پر فلوریڈا میں رہنے والے کیوبن نڑاد ووٹرز میں اپنا مارجن بہتر بنا لیا ہے مگر ہمیں پھر بھی جو بائیڈن کی جیت کے لیے رنگدار ووٹرز کا مرہونِ منت ہونا چاہئے۔ جس وقت میں یہ کالم لکھ ر ہا ہوں وہ ایریزونا میں لیڈ لے رہے ہیں اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انہیں وہاں کے لاطینی ووٹرز نے بڑی تعداد میں ووٹ دیا ہے۔ جارجیا میں بھی انہیں معمولی برتری حاصل ہے۔ اس کی بڑی وجہ سٹیسی ابرامز کے نیو جارجیا پروجیکٹ کی شاندار کارکردگی ہے۔

الیکٹورل کالج ضوابط کی روشنی میں کئی اہم ریاستوں میں پوسٹل بیلٹس کی گنتی سب سے آخر میں ہوئی وہاں زیادہ بے چینی پائی گئی۔ جیسا کہ نیٹ سلور نے ٹویٹ کیا تھا ’’اگر پاپولر ووٹ کے تناظرمیں دیکھیں تو 2000ء کے بعد یہ دوسرے کم ترین مارجن والے الیکشن تھے‘‘۔ امریکی عوام نے فیصلہ کن انداز میں ٹرمپ کو مسترد کر دیا۔ اب ہمیں اس صدر کے پہنچائے ہوئے نقصان کا ازالہ کرنا ہے جو فاکس نیوز اور دائیں بازو کی شخصیات کے ساتھ مل کر امریکی عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کی شکست غیر قانونی ہے۔ ٹرمپ کے پیروکار سمجھتے ہیں کہ صرف وہی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس طرح بات کرتے ہیں گویا کہ وہی اپنے ملک کے ساتھ نامیاتی تعلق رکھتے ہیں‘ ان کے حریف نہیں۔ انہیں یہ سمجھانا بہت مشکل ہو گا کہ اب وہ ا س ملک کی ایک بھاری اقلیت ہیں؛ تاہم اس وقت امریکا کی لبرل جمہوریت کو لاحق سنگین خطرات کا اندیشہ کم ہو گیا ہے۔ اپنے باقی ماندہ دنوں میں وہ پورے ملک کو ایک تعطل کا شکار کرنے کی کوشش کریں گے مگر بہت جلد وہ اس ملک پر حقِ حکومت کھو دیں گے۔ انہیں وائٹ ہائوس سے اٹھا باہر کیا دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے قرض دہندگان اور نیو یارک کے فوجداری مقدمات کے تفتیش کاروں سے مل سکیں۔ امریکی تاریخ کا اگلا باب اتنا آسان نہیں ہو گا مگر یہ والا توہین آمیز خوفناک اور المناک باب تو کم از کم بند ہو چکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر