وجود

... loading ...

وجود
وجود

اس وقت سے ڈرناچاہیے

منگل 10 نومبر 2020 اس وقت سے ڈرناچاہیے

میری نظریں آج بھی ان تین خبروںپرجمی ہوئی ہیں جنہیں پڑھ کر دل اداس اور آنکھوںمیں نمی تیر تیرجاتی ہے ،یہ خبریں حالات کے جبرکا شکار ہونے والوںکا نوحہ کناں ہیں، غم کے ماروںکا ماتم بھی۔ اورحالات کی سنگینی کااعلان بھی۔یہ موجودہ سسٹم کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی یہ خبریں بتاتی ہیں کہ آج عام آدمی پرکیا بیت رہی ہے، ان کی عکاس بھی ہیں اور ہماری اجتماعی بے حسی پر ماتم کرتی یہ خبریں کسی مہذب معاشرے میں رونماہوتیں تو شرم کے مارے حکمران اپنے ضمیر کی آوازپر مستعفی ہونے پر مجبورہوجاتے لیکن اسلام کے نام پر بننے والی مملکت ِ خدادادمیں نہ جانے ایسے کتنے واقعات ظہورپذیرہوتے ہیں اور کسی کے سر پرجوںتک نہی رینگتی پہلی خبر اتنی بھیانک ہے کہ پڑھنے کے بعد کئی گھنٹے نیندہی نہ آئی ،گلتا تھا کلیجہ پھٹ جائے گا ،یا زمین شق ہوجائے جہاں اس قدراستحصالی نظام میں ہم جی رہے ہیں، اسے یقینا جینانہیںکہاجاسکتا کڑھنا،سسکنا،تڑپنا شایدبہترالفاظ ہوں، ایک سا پرانی دلخراش خبریہ تھی کہ میرپور خاص میں بچے کی میت لے جاتے ہوئے موٹرسائیکل کو حادثے کے باعث بچے کے والد اور چچا جاں بحق ہوگئے۔ ہسپتال سے بچے کی میت لے جانے کے لیے ایمبولینس دینے سے انکار پرلواحقین نے موٹرسائیکل پر میت لے جانے کا فیصلہ کیا فاصلہ زیادہ ہونے کے سبب راستے میں میت اکڑ گئی تو توازن برقرار نہ رہ سکا اور حادثہ ہوگیا جس پر مرحوم کے والد اور چچا جاں بحق ہوگئے ،معلوم یہ ہوا کہ سول ہسپتال میں بچے کے انتقال پر میت لے جانے کے لیے والدین نے ایمبولنس مانگی تھی ، مگر سول ہسپتال انتظامیہ نے ایمبولنس کی فراہمی سے انکار کرتے ہوئے ان سے پیسے طلب کیے ،بچے کے نانا کا کہنا ہے ایمبولینس کے ڈرائیور نے 25 سو روپے مانگے، ہماری جیب میں صرف 300 روپے تھے، بہت منتیں کیں لیکن ایمبولینس کا ڈرائیور نہیں مانا، جس پر میت کو موٹر سائیکل پر لے جانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان میں انکوائریاں ہوتی رہتی ہیں یہ انکوائریوں کی حیثیت کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ جیسی ہے آپ ذراتصورکی آنکھ سے دیکھیں جس گھرمیں ایک کی جگہ تین تین لاشیں پہنچی ہوںگی اس خاندان پر کیا قیامت بیتی ہوگی وہی جانتاہے ،دوسری خبر جڑانوالہ کی ہے جہاں رکشے کا کرایہ نہ ہونے پر زچہ کی حالت غیر ہوگئی گھر میں ہی بچے کو جنم دیدیا، چکو موڑ کی رہائشی خاتون زوجہ شفقت کے پاس زچگی کا عمل قریب آیا تو رکشے ڈرائیور کو دینے کے لیے بیس روپے بھی نہ نکلے جس پر خاتون نے اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر کی دہلیز پر ہی بچے کو جنم دے ڈالا وہ تو بھلا ہواہل علاقہ کا جنہوںنے زچہ و بچہ کی حالت غیر ہونے پر اسے سول ہسپتال پہنچایا جہاں پر ڈاکٹرز نے سرتوڑ کوششوں کے بعد دونوں کی جان بچ گئی ،حکمرانوںکو ایسی خبریں سن کریا پڑھ کر شرم بھی محسوس نہیں ہوئی ،آج غریبوںکی یہ حالت ہے کہ ان کے پاس بچوںکی ولادت اور علاج معالجہ کے لیے بیس روپے بھی نہیں ہیں اور حکمرانوں نے اپنے لیے دولت کے انبار اکھٹے کرلیے ہیں ،ان کی ہوس ابھی تک ختم نہیں ہوئی ،تیسری خبر میں کہا گیا ہے کہ صلا ح الدین کی موت پولیس تشدد سے ہوئی، فرانزک رپورٹ میں تصدیق کردی گئی یعنی اے ٹی ایم کارڈ چور صلاح الدین کو پولیس نے روایتی تفتیش سے مارڈالا ،مرحوم پر تشدد کے باعث جسم کے مختلف حصوں میں خون کے لوتھڑے جمع ہوجانے ، پھیپھڑوں پر لگنے والی ضربات کے باعث سانس کی بندش ہلاکت کا باعث بنی ،پنجاب فرنزک سائنس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں موت کی تشدد سے جسم میں خون کے جمع ہوجانے والے لوتھڑے اور پھیپھڑوں پر لگنے والی ضربات ، سانس کی بندش کے باعث ہوئی ہے۔

صلاح الدین پر کیے جانے والے مبینہ پولیس تشدد پر ایس ایچ او سمیت 3 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا تینوں واقعات دل دہلادینے والے ہیں میرپورخاص میں ہسپتال کے عملہ ایمبولینس ڈرائیور اور شیخ زاید ہسپتال کے ایم ایس کو جس نے صلاح الدین کی رپورٹ میں یہ لکھا کہ وہ طبعی موت مرا ہے ان سب کو انسانی حقوق کی تذلیل کا عالمی ریوارڈدیاجائے یہ ان کا حق بنتاہے پاکستان میں بااختیارلوگوںکا عوام پر اتناظلم،اتنی بے حسی اور اس قدر بے شرمی اتنی ڈھٹائی اور عام آدمی کی اتنی بے بسی۔۔ اتنی غربت کہ وہ لقمے لقمے کو ترس ترس جائیں پھر بھی ان کے لیے کوئی مسیحا نہ ہو،دورکہیں بہت دور تلک کوئی روشنی کی کرن نہ کوئی ٹمٹمائی ،نہ جگنو۔ ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہمارے بے حس معاشرے میں بکھرے پڑے ہیں مظلوموںکی کہی ان کہی کہانیاں اب کون سنتا ہے ،پیپلزپارٹی ہویا مسلم لیگ ن یا پھرتحریک ِ انصاف سب جماعتوںکے ارکان ِ اسمبلی اور کارکن اپنے اپنے چوروں کے وفاع میں لگے رہتے ہیں ایسے ہی لوگوں بارے میں کہا گیا ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے، حالات کے جبرکا شکار ہونے والوںکا نوحہ دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے اے اللہ آج پھر غریبوںکو کسی عمرؓ کی تلاش ہے تاکہ کوئی ان کے دکھ سننے والا بھی ہو کوئی ہاڑے ،کوئی دکھڑے سننے والا بھی ہو کوئی غریبوںکے آنسو پوجھنے والا بھی ہو ہم پررحم فرما ہمیں اپنے ان حکمرانوںسے کوئی امیدنہیں ہماری دعائیں قبول فرما کوئی عمرؓ ثانی عطاکر اس کے بغیرظلمت کی یہ کالی رات ختم ہونے والی نہیں ہے ورنہ لوگ اس سسٹم ،ایسی جمہوریت اور استحصالی نظام کے خلاف ا ٹھ کھڑے ہوئے تو پھر کچھ نہیں بچے گا دریا جھوم اٹھے تو سب کچھ بہا کر لے جائیں گے کچھ باقی نہیں بچے گا اشرافیہ کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر