وجود

... loading ...

وجود
وجود

جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں

جمعرات 29 اکتوبر 2020 جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں

بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں نے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سیاسی گفتگو میں اتنا زیادہ خلط مبحث کردیا ہے کہ اَب عوام جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگے ہیں۔بس یہ جان لیجئے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو ہرضابطہ ،قانون اور حدودو قیود سے مکمل طور پر مادر پدر آزاد کردیا گیاہے ۔سوشل میڈیا اور نیوز چینلز جھوٹ کی سوار ی بن چکے ہیں ،سیاست دان اس جھوٹی سواری کے شہہ سوار ہیں اور جھوٹ کا اصل ہدف و منزل سادہ لوح عوام کے اذہان اور قلوب ہیں ۔ جھوٹ کو اتنا سازگار، مناسب اورپرکشش ماحول تاریخ انسانی میں شاید ہی کبھی میسر آیا ہو، جتنا کہ آج کے دورِ پر فتن میں حاصل ہوچکا ہے۔ہر روز سورج طلوع ہوتے ہی جھوٹی خبر ،جھوٹا بیان اور جھوٹا دعویٰ باہم مل جل کر ذرائع ابلاغ کی’’ڈیجیٹل سواری‘‘ پر سوار ہوکر عام آدمی کے ذہن اور دل کو اپنا شکار بنا نے کے لیے نکل پڑتے ہیں اور رات کے آخری پہر تک یہ شکاری بلاکسی روک ٹوک کے دندناتے پھرتے رہتے ہیں ۔جبکہ بے چاری سچائی پا بجولاں جھوٹ کے کٹہرے میں کھڑی بے بسی سے آنسو بہاتی رہتی ہے ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں؟کہ کسی طرح ان میں بھی بیڑیاں ڈالی جاسکیں یا اسے بھی پاؤں سے پکڑ کر اُوندھے منہ گرایا جاسکے۔تاکہ سچ کی عزت و ناموس جھوٹ کی بے محابہ ’’سیاسی دست درازی ‘‘ سے محفوظ و مامون ہوسکے۔یاد رہے کہ جھوٹ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا اس لیے بھی ضروری ہوچکا ہے کہ اَب جھوٹ اور اس کی پروردہ سیاسی قوتوں نے وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کے ذمہ دار اداروں کے دامن کو بھی اپنے’’سیاسی جھوٹ‘‘ سے آلودہ کرنے کی جسارت شروع کردی ہے۔
اپوزیشن الیون کے کراچی میں جلسے کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری و رہائی کے موقع پر کھیلاجانے والا مذموم سیاسی کھیل جہاں جھوٹ اور جھوٹوں کی دیدہ دلیری کا ایک شاہ کار تھا،وہیں اس ایک ایکٹ کے ڈرامے نے جھوٹ کے بہت سے پاؤں بھی ظاہر کردیئے ہیں ۔ سب سے پہلا جھوٹ یہ بولا گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مزار کی بے حرمتی کرنے پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر غیر ضروری اور غیر قانونی تھی ۔اس جھوٹ کا پاؤں تب پکڑا گیا جب کیپٹن ریٹائرڈصفدر کی ضمانت کرنے والی معزز عدالت کے روبرو سندھ حکومت کے پراسیکوٹر نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی پر ایف آئی آر کاٹنا از حد ضروری ہے کیونکہ مزار قائد کے تقدس کو یقینی بنانے کے لیے 14 اکتوبر1971 کا آرڈینس اور 1993 تحفظ مزار قائد ایکٹ کا خصوصی وفاقی قانون موجود ہے ، جسے صوبائی قانون پر بھی واضح فوقیت حاصل ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مزار قائد ؒ کی ہونے والی بے حرمتی پر اگر سندھ پولیس کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے میں اپنی روایتی سیاسی جانب داری اور غیر قانونی تساہل سے کام نہیں لیتی تو وفاقی اداروں کو آئی جی سندھ پولیس مشتاق مہر کو ایف آئی آر کاٹنے کے لیے قائل کرنے کی کبھی زحمت ہی نہیں اُٹھانا پڑتی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی اداروں پر مزار قائدؒ کی بے حرمتی کے ملزم کیپٹن ریٹائر صفدر کے خلاف ایف آئی آرکٹوانے کے لیے شدید عوامی دباؤ تھا ۔ اس دباؤ کا اندازہ معروف ادیب،دانشوراور ڈرامہ نگار جناب مستنصر حسین تارڑ کے اُس مبینہ کھلے خط کے مندرجات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ،جو مزار قائد کی پامالی کے غم میں بطور احتجاج لکھا گیا تھا ۔مستنصر حسین تارڑ اپنے احتجاجی خط میں لکھتے ہیں کہ’’میں بہت دُکھ میں ہوں ، میں نے اپنی آنکھوں سے اسلامیہ کالج لاہور میں قائد اعظم ؒ کو تقریر کرتے دیکھا تھا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔اَب انہیں آنکھوں سے دیکھا کہ قائد اعظم ؒ کی قبر کے گرد ایک ہجوم ہے اوروہ پاگلوں کی مانند سیاسی نعرے لگائے جارہا ہے ،خواتین ان نعروں کو احترام سے سُن رہی ہیں ۔قائد اعظم کی قبر کو روندا جارہاہے۔اس قوم کے باپ کی بے عزتی کی جارہی ہے اور وہاں نعرہ زن جو بھی لوگ تھے میں اُن پر ۔۔۔بھیجتاہوں۔میں آج خوداپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہوں کہ میں اس قوم کا حصہ ہوں ۔جس نے اپنے باپ کی تذلیل کی،مجھے سنگسار کر دیجئے ،مجھے دار پر چڑھادیجئے،مجرم میں ہوں اور اس جرم کی معافی نہیں مل سکتی‘‘ ۔صرف مستنصر حسین تارڑ ہی کیا معروف اداکار خالد انعم ،فخر امام اور آمنہ الیاس سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے مزار قائد کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا ایک بار نہیں بلکہ باربار مطالبہ کیا لیکن جب 17گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے کان پر کوئی جوں نہ رینگی تو چارونا چار وفاقی اداروں کو ایک چھوٹی سی ایف آئی کار کٹوانے کے لیے بھی دباؤ ڈالنا تو پڑا تو وفاقی اداروں کی اس قابل تحسین کوشش کوجس انداز سے سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی ،وہ ہر ذی شعور شخص کے لیے سمجھ سے یکسر بالاتر تھی۔
دوسری دروغ گوئی مریم نواز نے پریس کانفرنس میں یہ فرمائی کہ’’سندھ رینجرز نے اُن کے ہوٹل کا گھیراؤ کیا اور کمرے کا دروزہ توڑ کر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو گرفتار کرکے لے گئے‘‘۔اس جھوٹ کا پاؤں بھی آخر کار ہوٹل میں لگی سی سی ٹی وی فوٹیج کے منظر عام پر آنے کے بعد بے نقاب ہو ہی گیا ۔کیونکہ فوٹیج کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے لیے تما م تر کارروائی پولیس اہلکاروں نے کی تھی ،جبکہ کمرے کا تالا توڑنے کا مقدس ترین فریضہ مریم نواز کے ذاتی محافظ نے فقط اس لیے انجام دیا تاکہ بوقت ضرورت مریم بی بی کی سیاست کا چاند چڑھانے کے لیے صورت حال میں جھوٹ کے سیاہ رنگ بھرکر اُسے مزید رنگین سے سنگین تر بنایاجاسکے ۔ اَب بس ! ایک آخری سچ یا پھر جھوٹ کا ثابت ہونا باقی رہ گیا ہے کہ کیا آئی جی سندھ مشتاق مہر کو اغواکیا گیا تھا یا نہیں ؟۔یقینا آئی جی سندھ کے گھر میں اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ضرو ر نصب ہوں گے ۔سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اُن کیمروں کی فوٹیج بھی منظر عام لے آئے یا پھر آئی جی سندھ کے اغواء کی ایک عدد ایف آئی آر سرکاری مدعیت میں درج کروا کر اپنے اُدھورے سچ کو پورے سچ میں بدل کر وفاقی حکومت کے مقابلہ میں شاندار اخلاقی و سیاسی برتری حاصل کرلے ۔بہر کیف اگر سندھ حکومت ان دو بے ضرر سے کاموںمیںسے ایک بھی نہیں کرنا چاہتی تو پھر خاطر جمع رکھیئے کہ پکڑنے والے اس جھوٹ کے پاؤں میں بھی بیڑیاں ڈالنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اگرخدانخواستہ جھوٹ کے پاؤں میں سچ کی بیڑیاں نہ پہنائی جاسکیں تو پھر ابھی تو صرف ملکی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔مگر ڈر ہے کہ کہیں اگلی بار واقعی ملکی اداروں کی اینٹوں سے اینٹیں بجانے کا برسوں پرانا خواب حقیقت میں نہ بدل دیا جائے۔

جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں اگر تُو بولے
آج مجھ کو تری تقریر سے اندازہ ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر