وجود

... loading ...

وجود
وجود

زندگی کا ذائقہ

هفته 24 اکتوبر 2020 زندگی کا ذائقہ

کہتے ہیں جب دنیا میں کچھ نہ تھا پانی تھا اور جب کچھ نہیں ہوگا تب بھی پانی ہی ہوگا ۔ پانی زندگی کی علامت ہے اورقدرت کا بیش قیمت تحفہ بھی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ کرہ ٔ ارض پر ایک حصہ خشکی اور تین حصے پانی ہے اور خشکی کے نیچے بھی پانی ،سوچنے کی بات ہے اللہ نے پانی کو کتنی فضیلت عطا کردی، آب ِ زم زم کو بھی پانی بنا دیا ،اس کے باوجود پاکستانی قوم کی قسمت کا کیا کیجئے حکومتی اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی ملک کی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں ، یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں۔ یہ کتنے مزے کی بات ہے کہ پانی کا اپنا کوئی رنگ نہیں ہوتا اس کو جس سانچے ڈالو ڈھل جاتاہے،،جس رنگ میںچاہو رنگ لو۔جو زورآور چاہے دوسروں کا پانی بند کردے پانی کی طرف سے کوئی مزاحمت کوئی احتجاج نہیں۔ امیرالمومنین حضرت علی ؓ سے کسی نے سوال کیا جناب پانی کا ذائقہ کیسا ہوتاہے؟ امیرالمومنینؓ نے بلا تامل فرمایا زندگی جیسا۔ جب سے دانش بھرا یہ جواب پڑھاہے حیرت میں گم ہوں ، امیرالمومنین حضرت علی ؓ نے صدیوں پہلے پاکستانی قوم کی زندگی بارے کیسی تلخ حقیقت آشکار کردی تھی۔
یہاں عام آدمی کو جوپانی پینے کے لیے میسرہے عام شکایات ہیں وہ کڑوا، گندہ،آلودہ ہوتاہے۔ المختصروہ پینے کے قابل بھی نہیں ہوتا شاید اسی لیے زیادہ لوگوں کا لہجہ کڑوا،کپڑے گندے اور ذہن آلودہ رہتے ہیں یعنی پانی کے ذائقے والی زندگی ۔ایک اور بات تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آبادکے مضافاتی علاقے،چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے۔ بعض مقامات پر خواتین اور بچے کئی کئی میل دور پیدل چل کر اپنے گھروں میں پینے کے لیے پانی لاتے ہیں تھر اورچولستان میں خشک سالی سے ہر سال سینکڑوں افراد اور لاکھوں جانوربلک بلک اور تڑپ تڑپ کر بھوکے پیاسے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر
مر جاتے ہیں میڈیا اور حکومتی حلقوںمیں وقتی ہلچل پیدا ہوتی ہے دو چارفوٹو سیشن اور معاملہ ختم۔پاکستان کے سینکڑوں ایسے دور دراز کے علاقے بھی ہیں جہاں جانور اور انسان ایک ہی چھپڑ(جوہڑ)سے پانی پینے پر مجبور ہیں لیکن مستقل بنیادوںپر کسی حکومت نے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ،زیادہ ترحکمرانوں کی سوچ شہروںکی ترقی تک محدود ہے شاید ان کا مطمع ٔ نظربلا امیتازیکساں وسائل سب کے لیے نہیں ہے۔پانی جیسی بنیادی سہولت کی دستیابی ہر شہری کا پہلا حق ہے لیکن اس پر بھی سیاست ہوتی ہے کبھی اپنے مخالفین کا ناقطہ بند کرنے کے لیے اور کبھی اپنی جے جے کار کے لیے ،اسی طرح فصلوں کے لیے نہری پانی کے حصول کے لیے محکمہ انہار کے اہلکاروں سے ساز باز، موگھے توڑ کر پانی چوری کرنا کسی کو اس کے حصہ کے پانی سے محروم کردینا عام سی بات ہے ،بھارت پڑوسی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کو اس کے حصے کے پانی سے محروم کرنے کی جو مذموم کوششیں اور سازشیں کررہاہے وہ پوری دنیا پر عیاں ہیں کروڑوں انسانوںکی لعن طعن پر بھی وہ ذرا شرمندہ نہیں ہوتا، دریائوں پر ڈیم پہ ڈیم بناکر پاکستان کا جو آبی استحصال کیا جارہا ہے عالمی برادری کو آنکھیں کھول کر اس کی نہ صرف مذمت کرنا چاہیے بلکہ اس کے پائیدار حل کے لیے اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے جو حالات جارہے ہیں دنیا میں جس تیزی سے پانی کی کمی واقع ہوتی جا رہی ہے کوئی بعید نہیں دو ممالک کے درمیان مستقبل کی جنگیں پانی کے حصول کے لیے لڑی جائیں۔
پاکستان پانی کی کمی والے ٹاپ ففٹی ممالک میں تیزی سے ابھررہاہے لیکن کسی کو حالات کی سنگینی کااحساس تک نہیں جس ملک کا آدھے سے زیادہ رقبہ پانی سے محروم،بنجر اور ویران ہو وہاں کے حکمرانوںکی تو نیندیں حرام ہو جانی چاہئیں مگر خواب خرگوش مزے لے لینے میں مصروف ہیں اور اس سے محروم ہونے کو گناہ سمجھ لیا گیاہے ایک وقت آئے گا جب بے رحم تاریخ اپنافیصلہ تحریر کرے گی تو حکمران ، عوام، سیاستدان وڈیرے، جاگیر دار سب کے سب قومی مجرم گردانے جائیں گے، کتنا ظلم ہے کہ روزانہ ہزاروں کیوسک پانی ضائع ہورہاہے جس سے پانی سے محروم،بنجر اور ویران زمینیں سونا اگل سکتی ہیں ، لہلہاتی کھیتیاں خوشحالی لا سکتی ہیں اس ملک سے بھوک اور غربت ختم کی جا سکتی ہے، یہی پانی جمع کرکے ڈیم بنائے جائیں تو وطن ِ عزیز سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ مستقل بنیادوںپرہو سکتاہے لیکن ہم نے ہر قیمت پر قوم پرستی کے نام پر سیاست سیاست کا کھیل جاری رکھناہے تو لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کا حق کس نے دیاہے ؟ بھارت دریائوںپر درجنوں بندبناکر پاکستان کو بنجربنانے کی سازش کررہاہے، سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں بکھری پڑی ہیں انسانی حقوق کی پامالی پرعالمی برادری کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ دنیا میں پانی کی شدید کمی ہونے کے باعث مبصرین باربار خبردار کرر ہے ہیں کہ پانی کا ضیاع بہت بڑاجرم ہے مستقبل کی جنگیں پانی کے لیے ہوںگی لیکن اس کا کسی کو کوئی ادراک نہیں ۔
اسی طرح ملک بھر میں پینے کا پانی بھی ایک مسئلہ بناہواہے آلودہ،یرقان زدہ، گندا پانی جس سے پیٹ، جگر اورمعدے کی بیماری میں مسلسل اضافہ ہورہاہے محکمہ صحت، پبلک ہیلتھ اور حکومتی اداروں کی کارکردگی لمحہ ٔ فکریہ ہے خوفناک بات یہ ہے کہ تھرپارکر، جہلم ، مری ، ایبٹ آباد،ایوبیہ کے مضافاتی علاقے،چولستان اورکشمیر کی کئی آبادیوں میں لوگوںکو یہ پانی بھی میسر نہیں ہے لاہور،کراچی،حیدرآباد ،فیصل آباد اور پشاور کی جن آبادیوںمیں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے، وہاں واٹر ٹینکروںسے TMA لوگوںکو فراہم کرتارہتاہے ۔ پینے کے پانی کا بنیادی مسئلہ ہے جسے حکومت کو ترجیحی بنیادوںپر حل کرواناچاہیے اور اللہ کی اس بیش قدر نعمت مخلوق ِ خدا پر آسان کرنے سے حکومت کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہونا کوئی مشکل کام نہیں۔ایک خبریہ بھی ہے کہ پاکستان میں صاف پانی کے نام پر درجنوں کمپنیاں اور ان کے ہوس پرست مالکان عام پانی پیک کرکے منرل واٹر کے نام پر ماہانہ اربوں روپے کما رہے ہیں اس کا بھی کوئی حل ہونا چاہیے، میاں ثاقب نثارسابقہ چیف جسٹس آف پاکستان نے پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کو ریگولائز کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنا تھے لیکن ان کے چاتے ہی نہ جانے پھرکیا ہوگیا ،معلوم نہیں ؟ یہ کتنابڑا سنگین معاملہ تھا اس کا کیا منطقی انجام ہوا کچھ معلوم نہیں ،ملٹی نیشنل کمپنیوںنے معمولی واٹر بل کے عوض پاکستانیوں سے کھربوں روپے ڈکارلیے کسی حکومت نے ان کو کچھ نہیں کہا بلاشبہ ہمارے قومی ادارے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہورہے ہیں جس پر سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک خادم ِ اعلیٰ میاںشہبازشریف حکومت میں’’صاف پانی پراجیکٹ ‘‘ میں کمپنی بناکر ماہانہ لاکھوں تنخواہ پر اربوں روپے نذرانہ دے کر جس طرح منظور ِ نظر لوگوں نواز دیاگیا وہ شرمناک ہے عوامی خدمت کادعویٰ کرنے والوںکو غریب عوام پر ذرابھی ترس نہیں آیا عوام کے ساتھ ٹیکنیکل فراڈکو جمہوریت قراردیدیا جاتاہے ۔ نئے آبی ذخائرکے قیام کے لیے ہر پاکستانی کو دل کھول کرمعاونت کرنی چاہیے کیونکہ یہ صدقہ ٔ جاریہ ہے۔موجودہ حکومت بلاتاخیر صاف پانی کی فراہمی منصوبے شروع کرے ۔شیریں ،صاف شفاف پانی دسترس میں ہوگا تو انشاء اللہ زندگی کا ذائقہ بھی بدل جائے گا جس سے ملک میں آدھی بیماریوںکا خاتمہ یقینی بات ہے۔ صاف شفاف پانی جو زندگی ہے۔زندگی کی علامت ہے اوربھرپور زندگی جینے کا حق ہر پاکستانی کو ہے۔ہمارے وزیر ِ اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو یہ عجیب نہیں لگتاکہ حکومتی اقدامات، کھربوں کے منصوبے، بلند بانگ دعوے پھر بھی ملک کی بیشترآبادی کو پینے کا صاف پانی میسرہی نہیں یا کسی کو سرے سے پانی ہی دستیاب نہیں جو سٹیٹ زندگی کی بنیادی سہولت فراہم نہیں کرسکتی اس کے حکمرانوںکو تنہائی میں سوچنا چاہیے ۔وہ کیا کررہے ہیں؟ ان کی کارکردگی کیسی ہے؟ اورعوام ان کے بارے میں کیاسوچتی ہے؟ اوروہ یوم ِ مکافات اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر