وجود

... loading ...

وجود
وجود

مودی چین کا سامنا کرنے سے گریزاں

هفته 24 اکتوبر 2020 مودی چین کا سامنا کرنے سے گریزاں

چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا، چین لداخ میں ایک ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہندوستانی علاقے پر قابض ہے ۔ پیپلز لبریشن آرمی کے جوانوں نے جون میں ایک جھڑپ کے دوران نا صرف 20 ہندوستانی فوجیوں کو ہلاک اور ایک سو کے قریب زخمی کر دیے تھے ، بلکہ وہ لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کے اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم مقامات پر بھی بیٹھے رہے ہیں۔ چین اس علاقے کے قریب اپنی 55,000 سے زیادہ فوج اکٹھی کر چکا، پاکستان نے بھی 20,000 اضافی فوجی شمالی لداخ منتقل کر دیئے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان کے وزیر اعظم نے کسی بھی علاقے پر چینی قبضے کی تردید کی ہے لیکن اس سال بھارت کی اراضی کے ایک بڑے حصے پر چین کے قبضے کے بارے میں کسی بھارتی شہری کو کوئی شبہ نہیں۔ دونوں ممالک کے وزرائے دفاع اور خارجہ کے مابین ہونے والی ملاقات میں ایل اے سی تناؤ کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ فرنٹ لائن سے فوجوں کے انخلا کے لیے دونوں ممالک کے فوجی عہدیداروں کے مابین مذاکرات کے ساتوں دور ناکام ہی رہے ہیں۔ اس ہفتے مذاکرات کا آٹھواں دور طے ہوا لیکن جلد کسی حل کی امید انتہائی معدوم ہے ۔ چین نا صرف اپنے فوجیوں کی تعیناتی میں اضافہ کر رہا ہے بلکہ اس نے لڑاکا طیارے ، زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل، ڈرون ہیلی کاپٹر، ٹینک اور آرٹلری گنز بھی لائن آف ایکچول کنٹرول تک پہنچا دی ہیں۔ ہمالیہ میں سردیوں کی آمد ہو چکی اور چین پوری طرح تیار ہے ، اس نے خوفناک سردی سے بچنے کے لیے اپنی فوج کو پہلے ہی نئی اور آرام دہ تھرمل پناہ گاہیں فراہم کر دی ہیں۔ چین کو نا صرف وسائل، وقت اور منصوبہ بندی کی فوقیت حاصل ہے بلکہ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہترین ہے ۔پیپلز لبریشن آرمی کے برعکس، بھارتی فوجیوں کو سیاچن جیسے بلند ترین میدان جنگ رہنے اور لڑنے کا طویل تجربہ ہے ۔ اگرچہ ہندوستانی فوج 1984 کے بعد سے سیاچن میں صرف 5 ہزار فوجی تعینات کر رہی ہے ، جیسا کہ حالیہ کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے ، لیکن وہ انہیں بھی مناسب راشن، لباس اور رہائش فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ اب صرف چند ہفتوں میں اسی فوج کا مقابلہ اسی طرح کے سخت موسم میں 35,000 سے زائد چینی فوجیوں سے ہو گا کہ بھارتی حکومت ابھی تک اپنی فوج کیلئے یورپ اور امریکہ سے سرمائی لباس خریدنے کی کوشش کر رہی ہے ۔

چین کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کو کوئی فیس سیونگ دینے سے انکار نے ہندوستانی اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر رکھا ہے ۔ مودی پچھلے چھ سال میں چین کے صدر ژی جن پنگ سے 18 ملاقاتیں اور کسی بھی دوسرے بھارتی وزیر اعظم سے زیادہ پانچ بار چین کا دورہ کر چکے ہیں۔ اسے پختہ یقین تھا کہ ژی کے ساتھ ان کی ملاقاتیں رنگ لائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مودی ابھی تک ہندوستانی فرنٹ لائن سے چینی فوج کے انخلا کی امید کر رہے ہیں جبکہ چین نے کھلے عام اپنی فوج کو جنگ کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے اور وہ لداخ میں بھارتی وجود تسلیم کرنے سے انکاری ہے ۔ ہندوستانی فوج اگرچہ لداخ میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی پوری کوشش کر رہی ہے لیکن بھارت سفارتی محاذ پر چین کا مقابلہ کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے ۔

چینی ایپس پر پابندی اور چینی سامان کا بائیکاٹ کرنے کا بیجنگ پر کوئی اثر نہیں جبکہ خود بھارت کو زیادہ نقصان پہنچا ہے ۔ مودی دل میں تبت یا تائیوان کارڈ کھیلنے کی خواہش لیے بیٹھے ہیں مگر اس سے چین کے ہندوستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بھارت کی آنکھیں کھولنے کے لیے تنا ہی کافی ہے کہ چین پہلے ہی خطے میں پاکستان سے مضبوط اتحاد ہی نہیں بلکہ نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے دوستی گانٹھ چکا ہے ۔ چھوٹے پڑوسیوں پر جبر کی مودی پالیسی بُری طرح ناکام ہو چکی، اس کی اصلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی کہ اب مقابلہ ان سے نہیں بلکہ چین سے ہے ۔ چین نے ممالک کو فنڈز دے کر اپنا ہم نوا بنا لیا ہے ۔ مایوس مودی امریکاکو سری لنکا اور مالدیپ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی ترغیب دے رہے ہیں، یہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔ ہندوستان اس سفارتی ناکامی کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے بین الاقوامی اتحاد کواڈ (امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے مابین غیر رسمی اسٹریٹجک فورم) کو بھارت چین کے خلاف محاذ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
چین ہندوستان کے خلاف کسی بڑی جنگ کا متمنی نہیں۔ وہ صرف متنازع سرحدی علاقوں پر حکمت عملی سے غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ روایتی اور جوہری دونوں میدانوں میں چین کی برتری کے باعث، ہندوستان بھی پوری کوشش کرے گا کہ وہ فوجی تنازع کی وسعت اور نوعیت کو نہ بڑھائے ۔ کواڈ اس تنازع میں اسی صورت اپنا کردار ادا کر سکتا ہے جب عالمی جنگ کا خطرہ ہو۔ کواڈ نیٹو جیسا فوجی اتحاد نہیں، جاپان اور آسٹریلیا کے امریکا کے ساتھ طویل عرصہ سے باہمی سلامتی کے معاہدے ہیں اور انہیں چین کے خلاف کواڈ کی ضرورت نہیں۔ وہ عسکری اور تذویراتی میدان میں کئی دہائیوں سے تعاون کر رہے ہیں۔ بھارت اب بھی اپنا بیشتر اسلحہ روس اور فرانس سے خریدتا ہے ۔ اس لئے کواڈ بھارت کیلئے بے بسی کے صحرا میں محض ایک سراب ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے مراسم ہندوستان کی علاقائی سا لمیت، خاص طور پر متنازع خطہ کشمیر، کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ مودی سرکار کو نا صرف عسکری طور پر تیاری میں ناکام بلکہ درست سفارتی حکمت عملی اپنانے سے عاری ہے ۔ بھارت اپنی سلامتی کے لیے جنوبی ایشیا میں اپنے تنازعات کا خاتمہ اور ہمسایوں سے تعلقات میں مثبت رویہ اپنانا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر